نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت

نبوت کے دو دلائل معجزات اور اخلاق
نیز اس میں دلائل نبوت کا بھی ذکر ہو گیا ہے جب ایک شخص دعویٰ کا کرے او رحق تعالیٰ کی طرف سے اُس کی تکذیب نہ ہو ،بلکہ معجزات اُس کے ہاتھ پر ظاہر فرما کر اور اُس کی تصدیق کر دی جائے تو وہ واقعی نبی ہے۔ یہ حقیقت ہے نبوت پر معجزات سے استدلال کی اور دوسرا استدلال اخلاق سے بھی ہوتاہے کہ اُس شخص کے اخلاق ایسے ہوں کہ غیر محقق میں نہ پائے جاسکتے ہوں، چناں چہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم میں نبوت کی دونوں دلیلیں ہیں ،معجزات بھی اور اخلاق بھی اور تمام انبیاء کو بھی یہ دونوں دلیلیں دی گئی تھیں۔ بس حضرات انبیاء کی یہ شان ہے #
بہار عالم حسنش دل وجاں تازہ میدارد
برنگ اصحاب صورت راببو اصحاب معنی را
تیرے عالم حسن کی بہاردل وجاں کو تروتازہ رکھتی ہے۔ رنگ سے ظاہر پرستوں کے دل وجان اور بو سے حقیقت پرستوں کے ۔

ان حضرات کو جیسا کہ حسن باطنی دیا گیا ہے۔ ایسا ہی حسن ظاہری بھی عطا ہوا ہے۔ ان کی صورت ہی دیکھ کر یقین ہو جاتا تھا کہ یہ جھوٹے نہیں ہیں۔ چناں چہ حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ سے جب آپ نے ایمان لانے کو کہا تو انہوں نے فوراً مان لیا، کسی معجزہ کا انتظار نہیں کیا۔خیر اُن کی تو بڑی شان ہے، حضرت عبدالله بن سلام نے بھی ایسا ہی کیا۔ گو کچھ سوال بھی کیے مگر یقین صورت دیکھتے ہی ہو گیا تھا۔ چناں چہ فرماتے ہیں:” فلما تبینتُ وجہہ عرفتُ انہ لیس بوجہ کذاب“ جب آپ کا چہرہ انور دیکھا تو مجھ کو یقین ہو گیا کہ یہ چہرہ جھوٹے کا نہیں ہو سکتا ہے #
نور حق ظاہر بود اندر ولی
نیک بینی باشی اگر اہل ولی
ولی میں انوار الہیٰ نمایاں ہوتے ہیں، مگر اس کا ادراک اہل دل کو ہوتا ہے۔

تو جب نور ولی میں ہو تو نبی میں کیوں نہ ہو گا؟ اس کے ترجمے میں کہتے ہیں #
مرد حقانی کی پیشانی کا نور
کب چھپا رہتا ہے پیش ذی شعور
حق تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوہِہِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ﴾تو ان حضرات کو معجزات کی ضرورت ہی نہیں ہوئی اور بعض کو معجزات کی ضرورت ہوئی، غرض حضور صلی الله علیہ وسلم کے دلائل دونوں طرح کے ہیں، معجزات بھی اور اخلاق بھی، خیر یہ تو طبعاً بیان ہو گیا۔

منادی کے ساتھ برتاؤ
مقصود یہ تھا کہ سرکاری منادی کو سن کر دو حالتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ منادی کے سچے ہونے کا یقین نہ ہو، سو ایسے شخص پر تحقیق کرنے کا کچھ تعجب نہیں کہ اس کے سچے ہونے کی تحقیق کرے۔ دوسری حالت یہ ہے کہ یقین ہو گیا کہ یہ منادی حاکم کی طرف سے ہے تو اب رعیت ہونے کی حیثیت سے حق کیا ہے، کیا یہ کہ اُس منادی سے جاکر اُلجھیں تو ضرور باغی کہلائیں۔ اگر آپ دوسرے کو ایسا سوال کرتے دیکھیں تو کیا اُس سائل کو نادان نہ کہیں گے کیا آپ ہی اُس سے نہ کہیں گے کہ کیا پاگل ہوا ہے؟ یہاں تو آپ کا یہ فیصلہ ہے کہ سرکاری حکم میں ” لمَ، کیف“ کرنا مطلقاً جائز نہیں۔ خاص کر منادی سے اُلجھنا کہ یہ تو سراسر حماقت ہے۔ پر ہم تو محکوم ہیں، جو حکم سن لیا مان لو، بس ہو چکا، تو صاحبو! کتنے غضب کی بات ہے کہ حکام مجازی کے ساتھ تو سب کا یہ معاملہ ہے کہ چون وچرا کرنا ناجائز ہے، صرف سن کر مان لینا چاہیے اور بس۔ لیکن حق سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ اُلجھتے ہیں اور جو جواب کہ سرکاری حکم کے اندر چون وچرا کرنے والے کو خود دیتے ہیں، اگر یہی جواب کوئی عالم دے تو اُس کو جواب سے عاجز بتلاتے ہیں۔

احکام الہٰی کی علتیں دریافت کرنے والوں کے لیے جواب
بڑے غضب کی بات ہے ۔ صاحبو! ہم نے حق تعالیٰ کے احکام سمجھا دیے، دلائل کیوں سمجھائیں؟ اول تو ہم بآواز دہل کہتے ہیں کہ ہم کو معلوم ہی نہیں۔ اگر صاحب جج کسی واقعہ کی رو سے مقدمہ ہرا دیں اور ملزم کے اس سوال پر کہ اس قانون کی کیا وجہ ہے؟ جواب دیں کہ ہم واضع قانون نہیں ہیں، ہم تو عالم قانون ہیں۔ تو یہ جواب معقول ہو گا یا نہیں؟ خواہ وہ اس کی وجہ جانتا ہی ہو۔ مگر منصب کے اعتبار سے اس کو یہ کہنے کا حق ہے۔ پس اگر ایک عالم بھی یہی جواب دے کہ ہم وجہ اور سبب نہیں جانتے ہیں ۔ ہم قانون کے واضع نہیں ہیں تو کیوں معقول نہیں سمجھا جاتا؟ ایک بزرگ سے کسی نے ایک ایسی بات پوچھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ #
اکنوں کرا دماغ کے پرسد زباغباں
بلبل چہ گفت؟ گل چہ شنید؟ وصبا چہ کرد؟
کس کی ہستی ہے جو باغبان سے یہ دریافت کرے کہ بلبل نے کیا کہا ؟گل نے کیا سنا اور صبا نے کیا کیا؟ یعنی کسی کی کیا مجال جو احکام الہٰی کے اسرار اور حکم دریافت کرے؟!

صاحبو! اگر آپ کا کوئی نوکر خانگی امور کے مصالح دریافت کرنے لگے تو کیسا ناگوار ہو گا؟ اگر آپ نے نوکر کو حکم دیا کہ کچوریاں لاؤ۔ اب اگر وہ کہے کہ بازار میں شیرمال بھی ہے اور مٹھائی بھی ہے۔ پھر آپ کچوری ہی کیوں منگاتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرے تو آپ ضرور اس پر ناراض ہوں گے اور اُسے گستاخ بتلائیں گے۔ الله اکبر! آپ کا نوکر تو آپ کے حکم میں چون وچرا کرنے سے گستاخ ہو جاوے اور آپ خدا تعالیٰ کے حکم میں چون وچرا کرنے سے گستاخ نہ ہوں، بلکہ محقق شمار ہوں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کا اپنے ذمے اتنا بھی حق نہیں سمجھا جاتا جتنا کہ اپنا حق اپنے نوکر کے ذمے سمجھا جاتا ہے ۔ کیوں کہ اس علاقہ پر جو نوکر کے ساتھ ہے، نوکر کے اس سوال کو جائز نہیں سمجھتے او رخدا اور رسول سے اپنے اس سوال کو ضروری سمجھتے ہیں اور آقا جو اپنے حکم کی وجہ نہیں بتلاتا تو کیا وہ جانتا نہیں ؟ضرور جانتا ہے۔ مگر نہیں بتلاتا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ نہیں بتلاتے اور رسول بھی جانتے ہیں، مگر نہیں بتلاتے اور عالم بھی کچھ جانتے ہیں، مگر نہیں بتلاتے اور عالم کا تو جاننا ضروری بھی نہیں، جو اس سے احکام کی علل کا مطالبہ کیا جاوے، لیکن خدا تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو حکم اور اسرار پر مطلع بھی کر دیتے ہیں ۔ مگر مصالح دینیہ کی حفاظت کے لیے پھر بھی اُن کی یہ حالت ہوتی ہے کہ #
مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتدِ راز
ورنہ در مجلس رنداں خبرے نیست کہ نیست
یعنی ان کو اسرار وحکم کا علم ہے، مگر مصلحت کی وجہ سے ظاہر نہیں کرتے۔
کوئی ایسی بات نہیں کہ اُن کو معلوم نہ ہو۔ معلوم ہے مگر نہیں بتلاتے۔

سوال کا جواب
اور اگر کوئی کہے کہ گو آپ کے ذمے ضروری نہیں ہے، لیکن پھر بھی بتلا دو تو اگر خلاف مصلحت نہ سمجھیں گے بتلا بھی دیں گے، مگر جب کہ پہلے اُن علوم کے مبادی حاصل کر لو۔

جواب لا جواب
مجھے ایک صاحب گنگوہ میں ملے، انہوں نے ایک بات پوچھی۔ جو علم بلاغت سے تعلق رکھتی تھی۔ میں نے کہا کہ اس کو آپ نہیں سمجھ سکتے۔ اس کے لیے علم درسیات کی ضرورت ہے۔ کہنے لگے وہ عالم ہی کیا ہوا جو ہر شخص کو اس کے مذاق کے موافق نہ سمجھا سکا ۔میں نے کہا آپ تو انجینئر ہیں۔ اگر ایک سائنس دان، جو کہ نہ حدود سے واقف ہو، نہ اصول موضوعہ سے، نہ علوم متعارفہ سے، وہ آپ سے کہے مجھے مقالہ اولی کی پانچویں شکل سمجھا دو تو کیا آپ اس کی فرمائش پوری کر دیں گے؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ آپ کہیں گے کہ تجھے حدود اور علوم متعارفہ تو معلوم ہی نہیں، تجھے پانچویں شکل کیسے سمجھا دوں؟! اب وہ کہتاہے کہ وہ عالم ہی کیا ہوا کہ جو گھس کھدوں کو نہ سمجھا سکے تو آپ اس کو کس طرح سمجھا دیں گے وہ تقریر مجھے بھی سنا دیجیے کہ جس سے آپ اس کو سمجھا دیں گے ۔کہنے لگے تو اب بڈھے طوطے ہو کر مدرسہ میں پڑھیں؟ میں نے کہا کہ پھر اُس کے سمجھنے ہی کی کیا ضرورت ہے؟

مسکت جواب
ایک مرتبہ کا قصہ ہے کہ ایک پٹواری نے پوچھا کہ ایک متوفی شخص کا ایک بھتیجا ہے او رایک بھیتجی تو میراث کس کو ملے گی؟ میں نے کہا کہ بھتیجے کو ملے گی۔ کہنے لگے کہ دونوں برابر کے رشتہ د ار ہیں، پھر بہن کیوں محروم ہوئی؟ میں نے کہا کہ اگر اس کی وجہ سمجھنا چاہتے ہو تو اول نوکری چھوڑ کر مدرسہ میں پڑھنا شروع کر و،جب درسیات پڑھ لو گے پھر ہم اس کی وجہ سمجھائیں گے۔ بس یہ سن کر چپ رہ گئے۔

علم اسرار کے لیے اہلیت کی ضرورت
اور ایک صاحب تشریف لائے کہ مجھے تقدیر کے مسئلہ میں شبہ ہے۔ اس کی تقریر کر دو اور وہ اسکول میں مدرس تھے۔ میں نے کہا کہ تقدیر کے مسئلہ کی تقریر تم نہیں سمجھ سکتے اس کے لیے ضرورت ہے علم کی ۔ تم کسی طالب علم کو بلا لاؤ۔ اور اس سے اپنے شبہات ظاہر کر دو دیکھو! ہم اُس کو سمجھاتے ہیں یا نہیں سمجھاتے؟ غرض یہ کہ اگر اسرار جاننا چاہتے ہو تو اول اُس کی اہلیت پیداکر لو۔

ایک ڈپٹی کلکٹر بریلی میں بھائی صاحب کے پاس آئے او رکہنے لگے کہ دلائل تو بہت متعارض ہیں۔ ایک شخص دلائل سے ایک شے کے وجود کو ثابت کرتا ہے۔ دوسرا دلائل سے اُس کے عدم کو ثابت کر دیتا ہے۔ پس دلائل سے تو اطمینان ہو نہیں سکتا ،کسی بزرگ کا نام بتلاؤ جو ارواح کو دکھلا دے، ہمیں آخرت کے وجود میں شبہ ہے۔ ہم ارواح سے گفتگو کر لیں، تب ہمیں یقین ہو گا۔ بھائی نے کہا کہ ہر کام کا ایک طریقہ ہوتا ہے، اگر عالم ارواح دیکھنا چاہتے ہو۔ تو اول اپنے اندر اس کی استعداد پیدا کرو اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اول ڈپٹی کلکٹری کو چھوڑ دو اور جنگل میں تنہا بیٹھ کر ایک چلہ کھینچو اور اُس میں بہت تھوڑا کھاؤ ،پھر اس کے بعد میں تمہیں کسی بزرگ کا نام بتلاؤں گا، کہنے لگے کہ یہ تو بہت مشکل ہے۔ بھائی نے کہا کہ شرم تو نہیں آئی اتنی بڑی چیز کے طالب اور ذرا سی محنت سے گھبراتے ہو؟! تو یہ آج کل حالت ہو رہی ہے۔ اس کی تو ایسی مثال ہے کہ ایک صاحب حج کے لیے گئے، جب جہاز میں بیٹھے او رسمندر کو دیکھا تو گھبرا گئے او رگھر کو واپس ہوئے۔ تو اس طرح بھلا حج کیسے ہو گا؟!

ہر کام طریقے سے ہوتا ہے
حضرت حاجی صاحب رحمہ الله سے ایک شخص نے بمبئی میں کہا کہ دعا کیجیے کہ مجھے حج نصیب ہو۔ فرمایا کہ ایک دن کے لیے اپنے اوپر مجھے پورا اختیار دے دو، کہنے لگے اس سے کیا ہو گا ؟میں نے کہا کہ میں ٹکٹ لے کر تمہیں جہاز میں بٹھا دوں گا۔ ان شاء الله تعالیٰ حج نصیب ہو گا اور اس طرح تو حج ہونے سے رہا کہ میں تو دعا کرتا رہوں اور تم بمبئی بیٹھے رہو۔ غرض یہ کہ ہر کام اس کے طریقے سے ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں ﴿واتوا البیوت من ابوابھا﴾ کہ گھر کے اندر اس کے دروازے سے داخل ہو۔ پس اول طالب علمی کرو اس وقت دلائل سمجھ میں آویں گے اور اس وقت یہ بھی معلوم ہو گا کہ ہر بات سمجھنے کی نہیں ہوتی، حتی کہ بعض باتیں جنت میں بھی معلوم نہ ہوں گی، جیسے تقدیر کا مسئلہ اورکنہہ باری تعالی کی معرفت تامہ۔ خوب کہا ہے #
عنقا شکار کس نہ شود دام باز چیں
کاینجا ہمیشہ باد بدست ست داما
جس طرح عنقا کو کوئی شکار نہیں کر سکتا ،جال لگانا اور کوشش کرنا لاحاصل ہے، اسی طرح کنہ ذات محبت کا کوئی ادراک نہیں کرسکتا۔ فکر و سوچ بالکل بیکار ہے۔

ہاں رویت ہو گی، مگر احاطہ اس کی کنہ کا نہ ہو گا۔ تو جب بعض علوم وہاں بھی مخفی رہیں گے تو یہاں کل کیسے منکشف ہو جاویں؟ پس خدا ورسول کے احکام سن کر بے چون وچرا مان لینا چاہیے اور اس میں لم کیف نہ کرنا چاہیے۔

مسائل کی علتیں پوچھنے والوں سے ایک سوال
اور میں کہتا ہوں کہ آپ نسخہ میں کیوں ایسا نہیں کہتے کہ میں تو اس وقت عمل کروں گا کہ جب اجزاء نسخہ کی لم پوری طور پر معلوم ہو جاوے۔ جو برتاؤ آپ احکام شرعیہ میں کرتے ہیں وہ یہاں کس لیے نہیں کیا جاتا؟ بس بات یہ ہے کہ یہاں تو جان بچانا مقصود ہے اور وہاں ایمان بچانا مقصود نہیں ۔ غرض یہ کہ حضور صلی الله علیہ وسلم منادی ہیں اور اب علماء حضور کے نائب ہیں تو جب سرکاری منادی سے وجہ نہیں پوچھ سکتے تو ان سے کیوں پوچھتے ہیں؟!

غیر مسلموں کے احکام کی علل پوچھنے پر جواب
اگر کہو کہ اس لیے پوچھتے ہیں کہ منکروں کو جواب دیں تو میں کہتا ہوں کہ اگر اس سرکاری ندا کے وقت ایک سرکار کا باغی آوے اور وہ اُس حکم پر اعتراض کرے تو کیا آپ اُس کو قانون کے اسرار بتلا دیں گے؟ ہر گز نہیں بلکہ یہ کہیں گے کہ اول اس قانون کے واضع کو صاحب سلطنت مانو، پھر اُس کے ہر قانون کو مانو۔ اس طرح اگر کوئی غیر مذہب والا ہم سے الجھے تو ہم اول توحید اورنبوت کو دلائل عقلیہ سے ثابت کریں گے او رکہیں گے کہ اب سارے قانون کو مانو۔ یعنی پہلے قرآن وحدیث کا سچا ہونا ثابت کریں گے۔ پھر تمام احکام کا حوالہ قرآن وحدیث پر کرکے بحت کو ختم کریں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ احکام میں کبھی عقلی گفتگو نہ کیجیے، صرف توحید ورسالت میں گفت گو کیجیے اور گویہ جواب خشک ہے او رمزیدار نہیں، مگر سچا جواب یہی ہے ۔ سچے جواب میں مزہ کم ہوتا ہے۔ داغ کے شعر پر بہتوں کے سرہلے ہوں گے، مگر حکیم محمود خاں کے نسخہ کو سن کر کبھی کسی صوفی کا سر نہ ہلا ہو گا۔ حالاں کہ مفید وہی ہے ۔

حکایت
مشہور ہے کہ ایک شخص ایک شاعر کے پاس جایا کرتا تھا وہ کبھی اس کے خوش کرنے کے لیے کہہ دیتا کہ یہ ایک ہزار روپے کا شعر ہے، یہ دو ہزار روپے کا شعر ہے ۔ بس یہ خوش ہو کر اُسے لکھ لیتا۔ ایک مرتبہ اُس کی ماں نے کہا کہ تو بیکار کام کرتا ہے کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس میں کچھ آمدنی ہو؟ اس نے کہا کہ میں بیکار کیوں رہتا ،مجھ کو تو بڑی آمدنی ہے، کسی روز ہزار روپے کی ہو جاتی ہے اور کسی روز دو ہزا روپے کی ہو جاتی ہے۔ ماں نے کہا کہ اچھا تم ایک آنے کی ترکاری لا دو۔ بس آپ اپنے اشعار کی کاپی لے کر بازار میں پہنچے اورسبزی فروش سے ایک آنہ کی ترکاری خریدی او رکاپی میں سے ایک شعر نکال کا کہا کہ لو یہ دس روپے کا شعر ہے۔ سبزی فروش نے کہا کہ کیسا دس روپے کا شعر؟ تم اُسے اپنے ہی پاس رکھو، مجھے تو ایک آنہ دے دو۔ اب آپ بہت گھبرائے کہ لو…! اسے تو کسی نے ایک آنہ میں بھی قبول نہیں کیا۔ بس آپ استاد کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ واہ حضرت! بس معلوم ہوئی آپ کی شاعری کی حقیقت، آپ کے شعر کو تو کسی نے ایک آنہ میں بھی نہیں لیا۔ تو اشعار مزیدار تو ہوتے ہیں۔ مگر مفید کچھ بھی نہیں ہوتے۔ سو یہ جواب جو میں نے دیا ہے مزے دار کم ہے۔ مگر ہے بالکل سچا۔ آج کل لوگ مزے کو ڈھونڈتے ہیں۔ اس لیے ایسے جوابوں کی قدر نہیں کرتے۔

کتاپالنے کا فیشن
میں اپنی ایک حکایت بیان کروں کہ میں شاہجہاں پور سے آتا تھا تو جس درجہ میں بیٹھا تھا۔ اُس کے پاس کے درجے میں ایک صاحب جنٹلمین بھی بیٹھے ہوئے تھے، اُن کے پاس ان کا نوکر آیا اور کہا کہ وہ نہیں ٹھہرتا انہوں نے کہا کہ اچھا اُسے یہیں پہنچادو۔ نو کر ان کے پاس ایک کتے کو پہنچا گیا، آج کل کے فیشن میں کتے کا رکھنا بھی لازمی ہو گیا ہے۔

کیا کتے کی موت مرنا چاہتے ہو؟
چناں چہ ایک مولوی صاحب کا قصہ ہے کہ وہ ایک مرتبہ ریل میں سوار تھے، جس درجہ میں وہ جاکر بیٹھے اس درجہ میں ایک جنٹلمین صاحب بھی بیٹھے تھے، داڑھی منڈی ہوئی کوٹ پتلون پہنے ہوئے، کتابغل میں، مولوی صاحب نے اُن سے سلام علیک نہ کی، وہ کہنے لگے کہ مسلمان سے سلام علیک تو ضرور کر لینی چاہیے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ میں تم کو مسلمان نہیں سمجھا تھا۔ وہ کہنے لگے کیوں میرے اندر کون سی ایسی بات ہے جس سے آپ مجھ کو مسلمان نہیں سمجھے؟ مولوی صاحب نے کہا کہ بھلے آدمی! داڑھی تمہاری منڈی ہوئی ہے۔ کوٹ پتلون پہنے ہوئے ہو، کتا بغل میں ہے ساری وضع تو کافروں کی سی ہے، پھر میں مسلمان کس طرح سمجھتا؟ کہنے لگے کہ کتا ساتھ رکھنے کی تو یہ وجہ ہے کہ آپ ہی لوگ فرماتے ہیں کہ جہاں کتا ہوتا ہے وہاں ملائکہ نہیں آتے تو میں کتے کو اس لیے پاس رکھتا ہوں، تاکہ ملک الموت میرے پاس روح قبض کرنے کے لیے نہ آویں۔ یہ جواب دے کر وہ بہت خوش ہوئے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ صاحب! آخر کتے بھی مرتے ہیں، اُن کی روح بھی تو کوئی فرشتہ قبض کرتا ہو گا، وہی آپ کی کرے گا، اگر انسان کا ملک الموت آپ کے پاس نہ آسکے گا تو کتے کا ملک الموت تو آسکے گا۔ آپ کتے کی موت مرنا پسند کرتے ہیں؟!

کتاپالنے کی حرمت کی وجہ
غرض آج کل کتا رکھنا داخل فیشن ہو گیا ہے۔ سو اُن صاحب کے پاس ملازم کتا پہنچا گیا تھوڑی دیر کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ صاحب کتا ایسا وفادار جانور پھر کیا وجہ کہ اس کا پالنا ناجائز ہے؟ میں نے کہا کہ اس کی دو وجہ ہیں، ایک وجہ تو یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر قومی ہم دری نہیں ہے۔ پہلا جواب تو ان کو پسند نہ آیا۔ لیکن دوسرا جواب سن کر پھڑک گئے، کہنے لگے کہ ہاں صاحب یہ ہے جواب۔ میں نے کہا خاک پتھر ہے۔ جواب تو اصل وہی ہے کہ ” نھانا عنہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم“ کہ ہم کو اس سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
اور ہماری یہ حالت ہونی چاہیے #
زندگی کنی عطائے تو وربکشی فدائے تو
دل شدہ مبتلائے تو ہر چہ کنی رضائے تو
زندگی عطا کریں تو آپ کی مہربانی ہے اور اگر قتل کریں تو آپ پر قربان ہیں دل آپ پر فریفتہ ہے جو کچھ تصرف کریں ہم ہر طرح راضی ہیں۔

اتباع کی ضرورت
یہ تو ایک موٹی سی بات ہے کہ بدون اتباع محض کے کام نہیں چلتا، مثلاً عساکر لڑ رہے تھے ،اگر عین موقع پر افسر لڑنے کاحکم دے اور سپاہیوں کے ذہن میں یہ آوے کہ اس وقت مناسب نہیں تو کیا اس صورت میں افسر کی عدول حکمی سپاہی کی جائز ہو جاوے گی؟ ہر گز نہیں۔ حضرت! اگر اس مذاق پر فوج کے لوگ عمل کریں تو کیا درست ہے؟ اگر یہ درست ہے تو کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ اس کو سپاہ میں پھیلا دیا جائے کہ بے سمجھے ہر گز کوئی کام نہ کرو؟ اگر فوج اس پر عمل کرنے لگے تو کبھی فتح یاب نہ ہو پس معلوم ہوا کہ دنیا کا بھی کوئی کام بے اتباع کے نہیں چل سکتا اور آپ دین میں بھی اتباع نہیں کرتے، حالاں کہ دنیاوی معاملات میں تو خلاف کی کسی قدر گنجائش بھی ہے، دیکھیے! بعض مرتبہ سپاہی افسر سے زیادہ سمجھتے ہیں، چناں چہ بعض مرتبہ ایک ہی تاریخ میں افسر ماتحت اور ماتحت افسر ہو جاتا ہے تو ماتحت علم میں بڑھا ہوا ہے یا اتنا متساوی کہ اسی تاریخ میں افسر ہو گیا۔ تو جب ماتحت کو باوجود مساوی ہونے یا بڑھے ہوئے ہونے کے چون وچرا کرنے کی اجازت نہیں تو ہمارے علم کو تو خدا تعالیٰ کے علم کے ساتھ کوئی مناسبت ہی نہیں۔ جب سمجھنے والے کو مزاحمت کا منصب نہیں تو نہ سمجھنے والے کو کیا ہو گا؟ احکام خداوندی میں ہم کو وہی معاملہ کرنا چاہیے کہ جو اس وقت سرکاری منادی کے ساتھ کرتے ہیں۔ اگر اسی وقت حکم ہو کہ بارہ بجے کے بعد سب منتشر ہو جاؤ تو بلاچون وچرا سب منتشر ہو جاویں تو منادی دنیا کے ساتھ جب یہ معاملہ کرتے ہیں تو منادی دین کے ساتھ کیوں یہ معاملہ نہیں کرتے؟ تو لفظ داعی سے اس مرض کا علاج کیا ہے۔

موضوع وعظ کی ضرورت واہمیت
اب آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ مجھے اس مضمون کے بیان کرنے سے کیوں شرم آتی تھی، ایسی موٹی بات کو سمجھانے کی ضرورت پڑی جس کو عام لوگ اپنے حکام کے ساتھ برت رہے ہیں، واقعی کہتے ہوئے حیا آتی ہے۔ مگر ضرورت مجبور کرتی ہے۔ آج کل لوگوں کا مذاق فاسد ہو رہا ہے۔ اس لیے اس کا بیان کرنا ضروری معلوم ہوا تو الحمدلله لفظ داعی علاج ہے اسی مرض کا۔ کتنا بڑا مرض اور ایک لفظ کے اندر اس کا علاج! جب اطبائے کا ملین مفرد دوا سے علاج کرتے ہیں تو خدا کے کلام میں کیوں نہ ہو گا“ خلاصہ یہ کہ علماء کو منادی دین سمجھیے او ر ان کے ساتھ وہ برتاؤ کیجیے جو سرکاری منادی کے ساتھ کیا جاتا ہے اور مخالف کو سمجھانے کے عذر کا میں جواب دے چکا۔

اب ایک شبہ جو کہ مجھ پر سندھ میں کیا گیا تھا، آج کل لوگ عقل پرستی کا زمانہ بتلاتے ہیں، مگر میں کہتا ہوں کہ اکل پرستی کا زمانہ ہے، فہم کی اس قدر کمی ہے کہ ایک معمولی بات بھی نہیں سمجھ سکتے، غرض انہوں نے عقل سے نکال کر یہ شبہ کیا کہ آپ نے جو مثال دی ہے گورنمنٹ کی تو آپ کو خبر نہیں کہ گورنمنٹ کے قانون میں اول ایک مسودہ ہوتا ہے، اُس میں سب کو اجازت دی جاتی ہے کہ اپنی رائے ظاہر کریں، اُس وقت جو میں نے جواب ان کو دیا تھا وہ تو مجھ کو یاد نہیں، مگر اب کہتا ہوں کہ میں نے جو مثال دی گورنمنٹ کے قانون کی وہ اس تشبیہ کے معنی نہیں سمجھے، مطلب میرا یہ ہے کہ جہاں حکم قطعی ہوتا ہے گورنمنٹ کا وہاں نہیں بولتے اور جہاں بولتے ہیں وہاں بولنے کی اجازت ہوتی ہے اور اگر کوئی سا بہادر ہو کہ باوجود حکم قطعی کے بھی اُس میں چون وچرا کرے تو پھر میں کہتا ہوں کہ حق تعالیٰ کے احکام میں تب بھی چون وچرا نہیں کی جاسکتی ہے، آپ نے دونوں کو برابر سمجھ لیا ہے، حالاں کہ دونوں میں بڑا فرق ہے”حفظت شیئا وغابت عنک اشیاء“! کیوں کہ یہاں تو احتمال ہے کہ شاید گورنمنٹ نے ہماری مصالح کی رعایت نہ کی ہو، اس لیے چون وچرا کرتے ہیں، لیکن اگر یہ معلوم ہو جاوے کہ مصالح کی پوری رعایت کی ہے تو پھر بولنے کی گنجائش نہیں تو کیا خدا تعالیٰ پر بھی یہ شبہ ہے؟ اگر ہے تو ﴿بئسما یامرکم بہ ایمانکم ان کتنم مومنین﴾پس اس مثال پر اگر شبہات ہوتے ہیں تو لیجیے میں مثال بدلے دیتا ہوں، ایک باپ اور دو سالہ بچہ ہے، باپ حکم دیتا ہے دودھ چھڑا دینے کا، بوجہ ماں کے مرض کے ، جب دودھ چھوٹتا ہے تو بچہ کیسا مچلتا ہے؟ اور ماں کو دشمن سمجھتا ہے اور ماں کیا کرتی ہے کہ ایلوا لگاتی ہے او راگر نہیں مانتا تو مارتی ہے۔ اُس وقت بچہ سمجھتا ہے کہ پکی دشمن یہ ہے اور وہ شخص جو بچہ کا دشمن ہو او رکہے کہ پلا دو تو بچہ اس کو دوست سمجھے گا۔ تو اگر بچہ کا یہ سمجھنا غلط ہے تو کیا وجہ غلط ہونے کی؟ اگر آپ کو اور کوئی وجہ معلوم نہ ہو تو محض اس وجہ سے کہ باپ بچہ کی مصلحت کو زیادہ سمجھتا ہے، بچہ کی رائے کو غلط سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ باپ بھی بشر ہے، اس سے غلطی ہونا ممکن ہے تو خدا تعالیٰ کا علم تو ہم سے بہت ہی زیادہ ہے کہ ہمارے علم کو اس کے ساتھ کچھ نسبت ہی نہیں ہے، اتنے تھوڑے تفاوت میں تو آپ نے فیصلہ کر لیا کہ بچہ غلطی پر ہے او راتنے بڑے تفاوت میں آپ فیصلہ نہیں کرتے!! غضب کی بات ہے اور جب آپ وہیں کہتے ہیں کہ اگر بچہ شخص بھی چاہے تو نہیں سمجھ سکتا تو پھر آپ یہاں یہ کیوں نہیں خیال کرتے کہ مصالح اور علل احکام کے ہم نہیں سمجھ سکتے #
حدیثِ مطرب ومی گو راز دہر کمتر جو
کہ کس نکشود نہ کشاید بحکمت ایں معمار
محبت ومعرفت احکام الہٰی پر عمل کرنے کی طرف متوجہ ہو اور اسرار حکم احکام میں تلاش نہ کرو۔ حکمت سے یہ معمہ نہ کسی سے حل ہوا اور نہ ہو گا۔(جاری)

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ
ماہنامه الفاروق
جمادی الثانی 1437ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں