ختم نبوت اسلام کا اساسی عقیدہ

ختم نبوت اسلام کا اساسی عقیدہ

اس کرہٴ ارض پر جہاں اچھے، نیک سیرت، نیک عادات لوگ پیدا ہوئے وہاں ، بدسیرت، بد خصلت اور چور بھی پیدا ہوئے، چوروں میں بھی فرق ہوتا ہے۔ کوئی مال کا چور، کوئی کسی خزانے کا چور، کوئی نبوت کا چور۔

جس طرح ہر قسم کے چور ہر زمانہ میں پائے گئے ہیں، اسی طرح نبوت کے سارق بھی مختلف وقتوں میں ظاہر ہوتے آرہے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ الحمدلله ہر دور میں سر اٹھانے والے یہ سارق اپنی چوری میں کام یاب ہونا تو درکنار، الٹا شرمندہ اور بے عزت ہو کے جہنم کے ایندھن بن چکے ہیں۔

اگر چوری کا خطرہ نہ ہو تو خزانے کا مالک بالکل بے فکر ہو جاتا ہے اور اس صورت میں پھر ایک اجڈ چور کے لیے بھی چوری کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ جس چیز کی جتنی مالیت ، وقعت واہمیت ہوتی ہے، اتنا ہی اس کی چوری کے سد باب کے لیے اوزار وہتھیار بھی مضبوط استعمال کیے جاتے ہیں اور چوکیدار کو بھی ہر وقت چوکنا ہو کے رہنا پڑتا ہے، تا کہ کسی وقت کوئی کہنہ مشق چور بھی اپنے ناپاک عزائم میں کام یاب نہ ہو سکے۔

گزشتہ ایک صدی سے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی لعنة الله علیہم جیسا ایک اور کاذب اور سارق مزرا پنجاب غلام احمد قادیانی کی شکل میں نمودار ہو کر نبی بننے کی کوشش میں سر گرم عمل ہوا۔ جیسا کہ ہر چور کا چوری کرنے کا اپنا طریقہ واردات ہوتا ہے ،اسی طرح مسیلمہ پنجاب اور اسود ہندی نے بھی سرقہ کا اپنا طریقہ واردات ڈھونڈ نکالا۔ شاید وہ یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اس طرح وہ مسلمانان عالم کو جُل دینے میں کام یاب ہو گا۔ جس طرح عام چوروں کے سروں پر ایک طاقت ور شخص کا ہاتھ ہوتا ہے، بالکل اسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی انگریز استعمار کی آشیر باد حاصل تھی، بلکہ اب تک ہے۔

یہ بات سب جانتے ہیں کہ آج سے تقریباً ڈھائی سو سال پہلے برصغیر پاک وہند میں انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی (East India Company) کی شکل میں تجارت کے بہانے سے آئے او رپھر مسلم حکومت گرا کرخود قابض ہوئے۔ انگریز کو اگر کوئی خطرہ محسوس ہو رہا تھا تو وہ مسلمانوں سے تھا کیوں کہ دیگر مذاہب کے پیروکار سکھ ہندو وغیرہ تو ویسے بھی اقلیت میں تھے۔ تحریک احمدیت کے مؤلف کے مطابق استعمار کے جاسوسوں نے انگریز حکومت کو اطلا ع دی کہ ہندوستان کے مذہبی پیروکار اپنے بزرگوں کی بات بہت مانتے ہیں، جب وہ انہیں بتاتے ہیں کہ یہ برطانوی عیسائی کافر ہیں او رہمارے ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ انہیں یہاں سے مار بھگاؤ تو وہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ، کیوں کہ ان کا یقین ہے کہ ان عیسائیوں کے ساتھ لڑنا جہاد کا درجہ رکھتا ہے۔ لہٰذا اس جذبہ کو سرد کرنے کے لیے ایسے شخص کی ضرورت ہے جو نبوت کا دعویٰ کرے اورپھر جہاد کی حرمت کا اعلان کرے۔

لہٰذا انہوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ مسلمانوں کے عقیدہ میں کسی طرح شگاف پیدا کیا جائے کہ ان کا مذہبی اور روحانی تعلق خاتم النبیین والمرسلین حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم سے کم زور کیا جائے ۔ چناں چہ اسی شرم ناک سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے کسی مناسب شخص کو تلاش کرنا شروع کیا، جو بہترین کاذب ہو اور جس سے جھوٹی نبوت کا اعلان جاری کرایا جائے اور بحیثیت نبی اس سے جہاد کی منسوخی کا اعلان کرایا جائے، تاکہ برطانوی سام راج پورے خطے میں بلا خوف وخطر حکومت کر سکے۔ اس ناپاک عزم کی تکمیل کے لیے مرزا قادیانی کی خدمات حاصل کی گئیں۔

مرزا قادیانی کا طریقہ واردات یہ رہا کہ پہلے مجدد، پھر مہدی، پھر مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا اور پھر ظلی وبروزی نبوت کا دعویٰ کیا اور اس کے بعد باقاعدہ تشریعی نبی ہونے کا دعوی کیا۔ آخر میں اپنی نبوت کو سید الکونین، خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی نبوت سے افضل قرار دینے لگا۔ (نعوذ بالله من ذالک)

حضورنبی کریم حضرت محمد عربی صلی الله علیہ وسلم نے پیشن گوئی کرکے ارشاد فرمایا تھا:”عن ثوبان رضی الله عنہ قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم إنہ سیکون فی امتی کذابون ثلاثون، کلھم یزعم انہ نبی وانا خاتم النبیین، لانبی بعدی․“(رواہ مسلم)

ترجمہ:” عنقریب میری امت میں تیس بڑے دجال اور کذاب پیدا ہوں گے، ان میں سے ہر ایک دعوی کرے گا کہ وہ نبی ہے، لیکن میں ہی آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔“

اس پیشن گوئی کے مطابق نبی العرب والعجم صلی الله علیہ وسلم کے مبارک زمانہ ہی میں متعدد لوگوں نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا۔ ان میں سے کچھ تو تائب ہوگئے او رکچھ اپنے جرم کی سزا پا کر جہنم رسید ہوئے۔ مضمون کی طوالت سے بچنے کی خاطر صرف ایک واقعہ نقل کرتا ہوں، صرف یہ اجاگر کرنے کے لیے کہ عقیدہ ختم نبوت کس قدر اہمیت کا حامل ہے او رحضرات صحابہ کرام رضی الله عہنم اجمعین نے اس امانت بار گراں کے لیے کتنی قربانیاں دی ہیں۔

ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والا سب سے پہلا چور مسیلمہ کذاب تھا۔ جناب خاتم الانبیاء والمرسلین، شفیع المذنبین صلی الله علیہ وسلم نے اس کے ایک بے معنی اور فضول خط کے جواب میں فرمایا:

”بسم الله الرحمن الرحیم
منجانب محمد رسول لله بنام مسیلمہ کذاب
سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اس کے بعد معلوم ہو کہ زمین الله کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا مالک بنا دیتا ہے اور عاقبت کی کام یابی متقیوں کے لیے ہے۔“

اس طرح اس بدبخت کو پہلی مرتبہ یہ نام دربار نبوت صلی الله علیہ وسلم سے دیا گیا۔ مسیلمہ کذاب کو حضرت وحشی رضی الله عنہ نے جہنم واصل کیا۔

اس کے بعد ایک دوسرا سارق اسود عنسی کی شکل میں نمودار ہوا۔ یہ شخص یمن کا باشندہ تھا۔ جسے فیروز دیلمی نے انجام تک پہنچایا۔ چوروں کی چوری کا یہ سلسلہ دور مسعود سے شروع ہو کر تاحال جاری ہے۔ ابھی تک احقر کے علم کے مطابق اکیس سارق النبویة جہنم واصل ہو چکے ہیں او ربائیسواں مرزا پنجاب اور اسود ہندی غلام احمد پرویز کی صورت میں ہیضہ کے وبائی مرض سے ہلاک ہو چکا ہے۔

مسیلمہ کذاب نے بھی مسیلمہ پنجاب کی طرح خزانہ نبوت چرانے کے لیے اس پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی اور ایک بہت بڑی فوج بھی تیار کر رکھی تھی۔ رئیس الصدیقین سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی الله تعالیٰ نے اس سارق اور کاذب کی سرکوبی کے لیے لشکر جرار بھیجا۔ یمامہ کے مقام پر زبردست لڑائی ہوئی، جس میں جھوٹی نبوت کا دعویدار مسلیمہ کذاب اپنے بائیس ہزار پیروکاروں سمیت واصل جہنم ہو گیا۔ اس معرکہ خون آشام میں آسمان نبوت کے بارہ سو درخشندہ وتاباں ستاروں نے اپنی مطہر جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور علم ختم نبوت سید المرسلین کو لہرائے رکھا۔

الله جل شانہ کا قرآن مبین میں ارشاد مبارک ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ مَن یَرْتَدَّ مِنکُمْ عَن دِیْنِہِ فَسَوْفَ یَأْتِیْ اللّہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ أَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ أَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ یُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَلاَ یَخَافُونَ لَوْمَةَ لآئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللّہِ یُؤْتِیْہِ مَن یَشَاء ُ وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾․(المائدہ:54)

ترجمہ:” اے ایمان والو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو خدا ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں، خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔ یہ خدا کا فضل ہے، وہ جسے چاہتاہے، دیتا ہے اور خدا بڑا کشائش والا او رجاننے والا ہے۔“

اس آیت میں مرتدین کے ساتھ مقابلہ کرنے والوں کے چھ اوصاف بیان کیے گئے ہیں:
1..وہ الله تعالیٰ کے محبوب بندے ہیں۔
2..وہ الله تعالیٰ سے سچی محبت رکھتے ہیں۔
3..وہ مومنوں کے ساتھ تواضع سے پیش آئے ہیں۔
4..وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں۔
5..وہ الله کے راستہ میں جہاد کرتے ہیں۔
6..وہ دینی معاملات میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کرتے۔

حضورعلیہ الصلوٰة والتسلیم نے فرمایا:” قال النبی صلی الله علیہ وسلم إنہ سیکون فی آخر ھذہ الامة قوم لھم مثل اجر اولھم، یامرون بالمعروف، وینھون عن المنکر، ویقاتلون اھل الفتن․“ (دلائل النبوة، ج6ص:513)
ترجمہ:” نبی مصطفی صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس امت کے آخری دور میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے ، جنہیں ان کے اعمال کا ثواب پہلے دور کے لوگوں کی شرح کے مطابق ملے گا۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جوامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہوں گے او راہل فتن سے معرکہ آرائی کرتے ہوں گے۔“

مذکورہ بالاآیت قرآن او رحدیث رسول صلی الله علیہ وسلم سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو مسیلمہ کذاب سے لے کر مسیلمہ پنجاب سارق النبوت مرزا قادیانی تک ہر جھوٹے نبی اور اس کے پیروکاروں کے ساتھ مصروف جہاد رہے۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ جہاد کا مفہوم عام ہے ۔ باطل کا مقابلہ خواہ زبان سے کیا جائے خواہ قلم یا تلوار سے کیا جائے، یہ سب اقسام جہاد کے تعریف اور مفہوم میں شامل ہیں۔

قارئین کرام کے علم میں اس مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کے متعلق تعارف اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ اکثر لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ کون تھا؟ کہاں سے آیا او رکہاں آباد ہو کر کہاں اور کیسے اس دنیا سے آنجہانی ہوا؟!

غلام احمد مرزا کے باپ کا نام مرزا غلام مرتضیٰ تھا۔ مرزا پنجاب1839-40 میں بھارت کے مشرقی پنجاب کے ضلع گورداس پور تحصیل بٹالہ کے ایک قصبہ قادیان میں پیدا ہوا۔ عربی فارسی کی دو چار کتابیں پڑھ کر نیم ملا بن بیٹھا او راپنی علمیت کے گن خود گانے لگا اور صحیح طور پر نیم ملا بن کر نہ صرف اپنے لیے، بلکہ اپنے پیروکاروں کے لیے بھی مکمل خطرہ ایمان بن گیا۔

تقسیم ہندوستان کے دوران قادیانیوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ شمار کرتے ہوئے اپنی علیحدہ فائل ریڈکلف کمیشن کے سامنے پیش کی، تاکہ انہیں الگ ریاست دی جائے۔ اس میں ناکام ہو کر انہوں نے وطن عزیز کے صوبہ پنجاب ضلع جھنگ تحصیل چنیوٹ میں دریائے چناب کے پاس ایک مقام 90 سالہ لیز پر حاصل کی، جس کا نام انہوں نے”ربوہ“ رکھا اور اسے اپنا عالمی ہیڈکوارٹر بنایا۔

مرزا قادیانی نے سارے دعوے بیک وقت نہیں کیے،بلکہ 1883ء سے 1908 تک وقتاً فوقتاً بتدریج کیے۔ سب سے پہلے مناظر اسلام کے روپ میں ظاہر ہوا، پھر مجدد اور ملہم من الله ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کے بعد بلند وبانگ دعاوی محدث ، مامور من الله، مہدی ، مسیح بن مریم نبی وغیرہ کرکے ضلالت او رکفر کا نشان بن گیا۔ اس نے قرآن کریم کی مختلف آیتوں میں پیوندکاری کرکے انہیں الہامات کا نام دیا اور خود صاحب الہام ہونے کا دعوی کیا۔26/مئی1908ء کو لاہور میں وبائی ہیضہ سے اس کی ہلاکت ہوئی۔

اس کے بعد مرزا پنجاب کا ایک پیروکار حکیم نور دین اس کا جانشین اول بنا۔3/مارچ1914ء کو حکیم نور دین کے مرنے کے بعد قادیانی پارٹی دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی۔ قادیان کے اصل مرکز پر مرزا غلام احمد کے بیٹے مرزا محمود نے قبضہ جما لیا اور پارٹی کے دوسرے حصے کی سربراہی مرزا کے ایک وفادار مولوی محمد علی نے سنبھال کر قادیان کے بجائے لاہور کو اپنا مرکز منتخب کیا، 1965ء میں مرزا کے جانشین دوم مرزا محمود کے مرنے پر اس کے بیٹے مرزا ناصر نے مرزا قادیانی کے جانشین سوم کا منصب سنبھالا۔ 9/جون1982ء کو مرزا ناصر کے مر جانے پر اس کا چھوٹا بھائی مرزا طاہر اس مسند پر جماعت کے چوتھے سربراہ کے طور پر متمکن ہوا۔

جب 7/ستمبر1974ء کو پاکستان کی نیشنل اسمبلی نے قادیانیوں کے ہر دو گروہ کے نمائندوں مرزا ناصر اور لاہوری پارٹی ( مولوی محمد علی ( مرزا) گروپ) کے سربراہ صدر الدین کے بیانات سننے کے بعد قادیانیوں کے ہر دو گروہوں کو خارج از اسلام اور خارج از جماعت مسلمین قرار دینے کا آئینی فیصلہ کیا۔ اس واضح آئینی فیصلہ کے باوجود مرزائی نہ صرف اپنے آپ کو مسلمان او رباقی ساری دنیا کے مسلمانوں کو غیر مسلم قرار دیتے رہے، بلکہ اپنے عقائد باطلہ کی اسلام کے نام سے تبلیغ بھی کرتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس وقت کے وطن عزیز کے صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم نے قادیانیوں کی ان مذموم حرکات کو قید کرنے کے لیے 26/اپریل1984ء کو امتناع قادیانیت آرڈیننس( Anti-Islamic Activites of the Quadiani Group, Lahore Group and ahmadis. (Prohibition and Punishment) Ordiance,1984) جاری کیا ۔ جس کی رو سے قادیانیوں کو مسلمانوں کی مخصوص مذہبی اصطلاحات کے اس ناجائز استعمال سے روکا گیا۔ قادیانی سربراہ مرزا طاہر نے اس آرڈیننس کو قبول نہ کیا اور چپکے سے یکم مئی1984ء کو ملک سے فرار ہو کر لندن چلا گیا۔

مرزائی اپنے آپ کو احمدی کیوں کہتے ہیں؟
قرآن کریم کی ایک سورة ، سورة الصف میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک بشارت کا ذکر ہے۔ انہوں نے بشارت دی تھی﴿وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَأْتِیْ مِن بَعْدِیْ اسْمُہُ أَحْمَد﴾․( آیت:6)
یعنی میں (عیسیٰ) اس پیغمبر کی بشارت سناتا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہو گا۔

اس خوش خبری کے صحیح او رحقیقی مصداق حضرت محمدمصطفی خاتم النبیین والمرسلین صلی الله علیہ وسلم ہیں ، مگر قادیانی اس پیشن گوئی کا مصداق مرزا غلام احمد قادیانی کو قرار دیتے ہیں، اس وجہ سے وہ اپنے آپ کو احمدی اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو غیر احمدی ( نعوذ بالله) قرار دیتے ہیں، جو ان کا بڑا دھوکہ اور صریح کفر ہے۔

قادیانیوں کے فاسد عقائد میں سے ایک اور عقیدہ یہ بھی ہے کہ وہ مرزا غلام احمد کو نبی کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ دین مردہ دین ہے جس میں سلسلہ نبوت بند ہو، نیز ان کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام سولی پر لٹکائے گئے اور وہ زندہ بچ کر کشمیر چلے گئے اور وہیں فوت ہو گئے۔

قادیانیوں کے عقیدہ باطلہ کے مطابق قادیان (انڈیا) مکة المکرمہ کی طرح ارض حرم ہے۔

قادیانیوں کے ہاں اطاعت انگریز واجب ہے، ان کے نزدیک عقیدہ جہاد منسوخ ہو گیا ہے۔ ان کے نزدیک اب جو مسلمان جہاد کے نام پر کسی سے لڑے گا و ہ بغاوت اور غدر کامرتکب گردانا جائے گا، مرزا کے مطابق تلوار اور بندوق کا جہاد ختم ہو گیا ہے اور اب صرف قلم اور زبان سے جہاد ہو گا۔

ایک انگریز ڈبلیو ڈبلیو ڈی ہنٹر(W.W.D. Hunter) نے اپنی کتاب ”Our Indian Mussalmans ”میں واضح طور پر لکھا ہے کہ مسلمانوں کا جذبہ جہاد ان کی سلطنت کے لیے مستقل خطرہ ہے او رانگریز کا یہی مشن لے کر مرزا قادیان نے اپنی جھوٹی نبوت کی داغ بیل ڈالی کہ انگریز کا وفادار رہ کر اس کا حق نمک ادا کر سکے۔

مرزا غلام احمد قادیانی پر کفر کا فتویٰ سب سے پہلے علمائے لدھیانہ نے 1301ھ میں دیا، اس کے بعد حضرت مولانا غلام دستگیر قصوی نے 1302ھ میں کفر کا فتوی جاری کیا۔ اس فتوی کو1303ھ میں بلاد عرب میں بھیجا گیا اور وہاں سے علمائے حرمین شریفین سے مرزا قادیانی پر کفری فتوی کی توثیق پاکر1305ھ میں واپس ہوا۔ اس کے بعد تو اسود ہندی پر فتاویٰ کفر کی ایک قطار لگ گئی۔ جن میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی، حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع، حضرات علمائے دیوبند، سعودی عرب کے مفتی اعظم اور وائس چانسلر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ رئیس ریاسة البحوث الاسلامیہ دارالافتاء والدعوة والارشاد الشیخ عبدالعزیز بن عبدالله بن باز اور علمائے مصر وشام وغیرہم نور الله مراقدہم کے قابل قدر فتاوی جات شامل ہیں۔

قلت صفحات کی وجہ سے مضمون کو سمیٹتے ہوئے اتنا عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ کفر والحاد کی دشمنی اسلام کے ساتھ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے دور مسعود سے لے کر آج تک اور آج سے لے کر تا قیامت ہے، لیکن من حیث المومن او رمن حیث الامة المحمدیہ ہم سب مسلمانوں پر لازم ہے کہ جس پیغمبر نے سفر معراج کے موقع پر اپنی امت کو یاد رکھا اور جس مشفق پیغمبر نے اس امت کے لیے تکلیفیں اٹھائیں ، اس پیغمبر اور محبوب خدا صلی الله علیہ وسلم کی اہانت کرنے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے دین مبین کی حفاظت کریں۔ اگر ایسا نہ کیا تو یہ چند روزہ زندگی ختم ہو کر، کل کو روز محشر الله اور اس کے محبوب کے سامنے شرمندہ کھڑے ہوں گے۔ اس وقت کس منھ سے کہیں گے کہ روز قیامت جان جلا دینے والی تپش کی پیاس کی وجہ سے حساب کے لیے انتظار میں کھڑا ہونا مشکل ہے، مجھے حوض کوثر سے چند گھونٹ عطا فرمائیے کہ پیاس نہیں بجھتی ؟ کس منھ سے کہیں گے کہ شدت کی ناقابل برداشت گرمی ہے عرش کے سایہ کے نیچے جگہ چاہیے؟ کس منھ سے کہہ سکیں گے جہنم کی تپیش برداشت نہیں ہو سکتی، میری شفاعت فرما دیجیے؟

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ختم نبوت اسلام کا اساسی اور بنیادی عقیدہ ہے او راس کی حفاظت فرض اولین ہے۔

محترم گوہر الرحمن نقش بندی
ماہنامه الفاروق
جمادی الاول 1437ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں