وفاق المدارس کیا کررہا ہے؟

وفاق المدارس کیا کررہا ہے؟

وفاق المدارس العربیہ مکتب دیوبند کا نمائندہ تعلیمی بورڈ ہے۔ اس ادارے کی بنیاد مولانا خیرمحمد جالندھری رحمہ اللہ نے اپنے ہم عصر علماء سے مل کر رکھی تھی، وفاق المدارس کے پہلے صدر مولانا شمس الحق افغانی رحمہ اللہ سے لیکر مولانا سلیم اللہ خان تک یہ ادارہ اپنی آب و تاب سے جاری ہے۔ موسم خزاں کا ہو یا بہار کا، یہ نغمہ توحید گاتا جارہا ہے۔ اس ادارے کے زیر اہتمام ہزاروں مدارس کام کررہے ہیں اور لاکھوں طلباء زیر تعلیم ہیں جبکہ لاکھوں فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔ مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد کا کوئی انکار نہیں کرستکا۔ وفاق کی ترقی بھی دن بدن بڑھتی جارہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ادارہ کامیابی کی طرف جارہا ہے یا ناکامی کی طرف؟ اس ادارے کی خوبیاں کیا ہیں اور خامیاں کیا ہیں؟ یہ اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوا ہے؟ کیا وفاق کا نظام معاشرے سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟ کیا اس کے فارغ علماء معاشرے میں کوئی فعال کردار ادا کررہے ہیں یا نہیں؟ یہ تمام سوال غور طلب ہیں۔ ان پہ بحث کی ضرورت ہے۔
کسی ادارے یا جماعت پہ تنقید کرنے سے وہ جماعت یا ادارہ کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوتا ہے، ادارے یا جماعت کو اپنی پالیسیوں پہ نظرثانی کا موقع ملتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک عجیب روایت یہ چلی ہے کہ بندہ سوال اٹھائے تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ آپ زیادہ سمجھتے ہیں یا اکابر زیادہ سمجھتے ہیں؟ اکابرین کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب جواب بن نہ پائے تو فوراً گستاخ کا ٹھپہ لگادیا جاتا ہے۔ میں چاہوں گا کی میرے سوالات پہ بجائے گستاخ کا فتویٰ لگانے کے انہیں زیرِ بحث لایا جائے۔ اگر مجھ سے سوال کیا جائے کہ وفاق المدارس کا نظام معاشرے کی ضروریات کو پورا کررہا ہے یا نہیں، تو میرا جواب نفی ہوگا۔ میں وفاق المدارس کے نصاب کو ناقص سمجھتا ہوں۔ اس نصاب میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں مفتی تقی عثمانی صاحب کا ایک بیان سنا جس میں وہ فرما رہے تھے کہ والد گرامی مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ ہمیں پاکستان میں نہ دیوبند کے نظام کی ضرورت ہے نہ ندوہ کے نظام کی ضرورت ہے اور نہ ہی علی گڑھ کے نظام کی۔ یہ نظام فطری نہیں تھے بلکہ ردّ عمل کے طور پر سامنے لائے گئے۔ انگریز کے اس خطے سے جانے کے بعد جو تفریق علی گڑھ کے طلباء اور مدارس کے طلبا میں پیدا ہوئی اسے ختم کرنے کی ضرورت تھی لیکن بدقسمتی سے اس تفریق کو گہرا کیا گیا۔ دونوں کے درمیان مشرق و مغرب جتنی دوریاں پیدا کی گئیں اور یہ ستم ابھی تک جاری ہے۔ کسی نے بھی اس دوری کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس نظام نے دوریوں کی دیواریں ہی نہیں بلکہ بلند و بالا عمارتیں کھڑی کردی ہیں۔ یہ معاشرہ ابھی تک تقسیم ہے اور اس تقسیم کی ذمہ داری جہاں حکومت پہ عائد ہوتی ہے وہاں اہل مدارس بھی اس کے پورے پورے ذمہ دار ہیں۔
وفاق المدارس کا نظام معیشت کے اعتبا ر سے انتہائی ناقص ہے۔ مدارس کے فضلاء معیشت کی وجہ سے سخت پریشان رہتے ہیں۔ معاشی لحاظ سے ان کی حال مزدوروں سے بھی ابتر ہے۔ مزدور معاشرے کا وہ طبقہ ہے جس پر ہر کوئی ترس کھاتا ہے جبکہ مزدور بھی دیہاڑی پانچ سو روپیہ لیتا ہے جو پندرہ ہزار روپے مہینہ بنتی ہے، جبکہ مدرسین کی تنخواہ پانچ ہزار سے بھی کم ہوتی ہے۔ مدرسین کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ طبی سہولت کے نام پر انہیں ڈسپرین کی گولی بھی میسر نہیں ہے۔ افسوس کہ مدارس کے طلباء کو کوئی ہنر بھی نہیں سکھایا جاتا۔ پہلے نصابی کتب کے علاوہ طب کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں، اب وہ بھی نہیں پڑھائی جاتیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ مدارس کا ذہین طالب علم کسی اور کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ وہ طلباء جنہیں مکھن کہا جاتا تھا وہ کوئی اور لے اڑا۔ اب یہ ذہین طبقہ جب پالیسیوں کو نشانہ تنقید بناتا ہے تو اسے گستاخ کہا جاتا ہے، اور مدارس کا یہ طبقہ دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ یہ طبقہ اب سوال اٹھاتا ہے اورپوچھتا ہے کہ آخر کب تک عقیدت کی وجہ سے نچلے طبقے کا استحصال ہوتا رہے گا؟
وفاق المدارس کے لوگوں سے تیسری بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ یہ فقط تعلیمی سرگرمیوں تک محدود نہ رہ سکے انہوں نے حکومتوں کو اپنے کندھے فراہم کیے جس کا نقصان یہ ہوا کہ مدارس کا امیج دنیا بھر میں خراب ہوا۔ دنیا نے مدارس کو کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ اور کٹہرے میں کھڑا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ جہاد افغانستان میں ہمارے مدارس استعمال ہوئے۔ ہمارے تقریباً تمام اکابرین وفود کے وفود لیکر افغانستان گئے۔ وہاں جنگ لڑی واپس آکے کتابیں لکھیں۔ طلباء کو ترغیب دی کہ افغانستان خلافت راشدہ کے نظام کا مرکز ہوگا۔ جائیں اور جاکے لڑیں۔ مدارس کے طلباء نے جہادی تنظیمیں بنائیں۔ فنڈز لیکر افغانستان گئے۔ پورے ماحول کو جذباتی بنایا۔ یہ لوگ دیانت داری کے ساتھ لڑے۔ جونہی ریاست نے یوٹرن لیا تو اہل مدارس پریشان ہوگئے۔ وہ طلباء جن کو خلافت کے نام پر تیار کیا گیا ان سے کہا گیا کہ آپ اسلحہ رکھ دیں۔ جن انہوں نے اسلحہ نہ رکھا تو ان کے خلاف کاروائی کی گئی۔ انہیں مدارس سے نکالا گیا اور سرکاری اداروں نے مدارس پہ چھاپے مارے۔ جب یہ کام ہوا تو اہل مدارس کو سمجھ آئی اوہ یہ تو غلط ہوگیا۔ کیوں نہ اب امن کی بات کی جائے؟ لیکن یہ امن کی باتیں بھی بیکار گئیں۔
جو کام ریاست کا تھا وہ مدارس نے شروع کیا تو ملک بھر میں مدارس مشکوک ٹھہرے۔ طلباء نے اسلحہ اٹھا لیا۔ مدارس حکومت اور طلباء دونوں کی نظر میں مجرم ٹھہرے ایک طرف ریاست تھی تو دوسری طرف وہ طلبا جن کو اسلحہ تھمایا گیا تھا۔ یہ طالب پوچھتا ہے کہ جہاد افغانستان جائز تھا تو جہاد پاکستان ناجائز کیوں ٹھہرا ہے؟ اس سوال کا جواب آج تک نہ ملا۔ ان پالیسیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا حسن جان رحمہ اللہ کو ان کے شاگرد نے ہی شہید کیا۔ مولانا فضل الرحمن پہ خودکش حملے کس نے اور کیوں کیے؟ وانا وزیرستان کے علماء کو کیوں مارا گیا؟ ان کا قصور یہ تھا کہ یہ لوگ رکاوٹ بن گئے تھے۔ چلو ماضی میں جو ہوا سو ہوا لیکن مدارس اب پھر کیوں استعمال ہونے جارہے ہیں؟ یہ استحکام مدارس و استحکام پاکستان جیسے جلسے کیوں منعقد کیے جارہے ہیں؟ مدارس کو اب کس سے خطرہ پڑ گیا ہے؟ مشکلات کا دور تو گزر چکاہے اب یہ پروگرام کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا دنیا کا اور بھی کوئی ایسا تعلیمی ادارہ ہے جو یوں جلسے کرتا پھرے؟ لاکھوں روپے کے اشتہارات اور روال چاکنگ کروانے کا مقصد کیا ہے؟ ان پیسوں سے غریب فضلاء کا نظام زندگی بہتر بنایا جاسکتا تھا۔ کوئی ٹرسٹ بنایا جاسکتا تھا۔ کوئی میڈیا چینل تشکیل دیا جاسکتا تھا۔ لیکن کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ مجھے یہ سب کچھ کسی کے اشارے کہ وجہ سے لگ رہا ہے۔
اگر وفاق کی یہی پالیسی رہی تو خاکم بدہن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وفاق ٹوٹ جائے گا۔ وفاق والوں نے مولانا سلیم اللہ خان اور مولانا فضل الرحمن کی جو گفتگو شائع کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وفاق جمعیت کو سائیڈ پہ کرنا چاہتا ہے؟ حکومتوں کیساتھ سودے بازے سیاسی جماعتیں کرتی ہیں نہ کہ تعلیمی ادارے۔ میری درخواست ہے کہ وفاق اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو بہتر بنائے۔ وحدت کی علامت کو سیاست کہ نذر نہ کیا جائے۔ وفاق سب کی سرپرستی کرے۔ وفاق کو فریق نہیں بننا چاہیے۔ اشاعت التوحید والوں نے اپنا وفاق بنا لیا ہے۔ تبلیغی جماعت تو پہلے ہی وفاق کے ساتھ نہیں۔ کراچی کے چند بڑے مدارس بھی وفاق المدارس سے اپنی راہیں جدا کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ ایسے حالات میں جمعیت کے ساتھ بھی پنگے بازی ٹھیک نہیں۔ کیونکہ جمعیت ہی بظاہر وہ پس منظر ہے جس کے بل بوتے پر وفاق المدارس کی وفاقی حیثیت برقرار ہے۔
میرے خیال میں وفاق المدارس کو اپنی تعلیمی حیثیت کا ادراک کرتے ہوئے ادارہ کو تعلیمی معاملات کے ساتھ خاص رکھنا چاہیے۔ کیونکہ وفاق ہی وہ ادارہ ہے جو تعلیمی نظام بھی درست کر سکتا ہے اور سب جماعتوں کو اپنے سائے تلے جمع کرسکتا ہے لیکن یہ ایسا کیوں نہیں کررہا، یہ مجھے نہیں معلوم۔ معذرت کے ساتھ مجھے استحکام مدارس و استحکام پاکستان جیسے جلسوں سے سیاست اور حصول طاقت کی بو آرہی ہے، اس لیے کہ اس سے پہلے سپاہ صحابہ بھی یہ کام کرچکی ہے۔ سپاہ صحابہ پر بھی ایسے ہی الزامات تھے۔ انہوں نے استحکام پاکستان و مدح صحابہ جلوس نکالے۔ دفاع پاکستان کونسل میں بھرپور طریقے سے آواز اٹھائی اور بعد ازاں پورے پاکستان سے سیاست میں حصہ لے لیا۔ سپاہ صحابہ کا سیاست میں حصہ لینا اچھی بات ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک جماعت تشدد والے ماحول کو چھوڑ کر سیاست کی طرف آتی ہے لیکن مجھے دکھ یہ ہے کہ اس سے اہل مذہب ہی کمزور ہوئے۔ اپنی ہی طاقت بکھری۔ دوسری جماعتوں کے لوگ تو ووٹ دیتے نہیں اور اپنے بھی تقسیم ہوجائیں تو یہ مہنگا سودا ہے۔ میری گزارش ہے کہ وفاق اپنا کندھا استعمال نہ ہونے دے۔ وفاق وحدت کی علامت ہے اور وہ اس علامت کو محفوظ رکھے۔ نجی باتوں کو پبلک میں نہ لائے، معیشت کے لیے، سوچے نظام تعلیم بہتر کرے۔ یہ جلسے جلوس نکالنا تعلیمی اداروں کا کام نہیں۔

تحریر: عامر ہزاروی
بلاگر آئی بی سی اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں