عصرِ حاضر میں اسلامی صحافت کی ضرورت واہمیت

عصرِ حاضر میں اسلامی صحافت کی ضرورت واہمیت

دنیا کے حالات پر نظر رکھنے والا ادنی شعور کا حامل انسان بھی اس بات سے بے خبر نہیں کہ سائنس، ٹیکنالوجی اور فلسفہ نے ترقی کے جو منازل طے کیے، گزشتہ صدیوں میں ان کا تصور بھی ایک عجوبہ نظر آتا تھا، برقی مقناطیسی لہروں سے ابلاغ کے میدان میں جو مراحل طے ہوئے ہیں، ہوا میں اڑنے اور زمین میں دوڑنے والے ذرائع کی ایجادات میں جو کام یابیاں بنی نوع انسان نے حاصل کی ہیں، اس نے دنیا کے مشرق ومغرب ، شمال وجنوب کے طویل فاصلوں کو سمیٹ لیا اور اس طرح پوری دنیا ایک ایسے ”عالمی گاؤں“ کی شکل اختیا رکر گئی ہے کہ جس کے کسی ایک گوشے میں واقع ہونے والے حادثے کی دوسرے گوشہ میں اطلاع چند لمحوں کی بات ہے ۔

اس صورتِ حال میں صحافت نے جو اہمیت اختیار کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، بلکہ اظہر من الشمس ہے، تاہم، بدقسمتی سے ہر میدان کی طرح صحافت کے میدان میں بھی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جن کی پوری زندگی اسلام دشمنی سے عبارت ہے اور اس میدان پر بھی اغیار پوری طرح سے حاوی ہوگئے، ادھر مسلمان قوم اسلام سے ٹھیٹھ تعلق رکھنے والے صحافیوں کی ایسی کھیپ تیار کرنے میں کام یاب نہ ہو سکی جو ایک طرف علم وعمل، پیشہ ورانہ امور میں مہارت اور صحافت کے اصولوں کی نشیب وفراز کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر عالمی صحافت پر اثر انداز ہو اور اپنے اثر ورسوخ، جو کہ ان سے زائل ہو چکا تھا کو بحال کرے اور دوسری طرف عملی طور پر اسلام کے ساتھ اس کی محبت اور عقیدت ایسی مضبوط ہو کہ زمانہ جو کہ آزادی کا نعرہ لگا کر اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلی کرنا چاہتا ہے اس کو ان اصولوں کا پابند بنائیں کہ #
زمانہ با تو نہ سازد تو با زمانہ ستیز
اس وقت میدانِ صفحات میں موجود مسلمان صحافیوں کی ایک کثیر تعداد اس طبقے پر مشتمل ہے جو ہے تو مسلمان لیکن تہذیب فرنگ کی ظاہری چمک دمک سے ان کی نگاہیں خیرہ اور حیرت زدہ ہیں، ان کے ایمان کی بنیادیں متزلزل ہیں ،اس لیے مسلمان ہونے کے باوجود ان کی صحافت پر کوئی خاص اسلامی رنگ نظر نہیں آتا، حد تو یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں صحافت کے پلیٹ فارم پر اسلامی صفحات کے حوالے سے جن صحافیوں کو قدرے شہرت حاصل ہے اور جن پر بنیاد پرستی کا لیبل لگایا گیا ہے ان کی زیرِ ادارت شائع ہونے والے اخبارات ورسائل میں عورتوں کی نیم عریاں تصویریں دیکھ کر افسوس کے ساتھ ساتھ حیرت بھی ہوتی ہے کہ ایک جانب ان کی اسلام پسندی کا یہ شہرہ اور دوسری جانب بے حیائی کی ترویج میں یہ حصہ !! عجیب…

صحافت کی اس سیاہ فضا میں امید کی ایک کرن دینی رسائل کی صورت میں نظر آتی ہے ، پاکستان میں دینی رسائل کی تعداد کاتناسب غالباً تمام ممالک سے بڑھ کر ہے، مختلف اداروں ، مدارس اور شخصیات کی زیر نگرانی شائع ہونے والے یہ رسائل اپنے اپنے انداز میں قلم کے ذریعے دعوت وتبلیغ کا فریضہ ادا کر رہے ہیں، ہمارے یہ اخبارات ورسائل فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں ، لیکن افسوس کہ کام یابی او رمیدانِ صحافت پر ان کا تسلط بہت کم زور ہے، اس لیے کہ دیگر اخبارات ورسائل کی طرح ان کے قارئیں کی تعداد اس حد تک نہیں کہ ان میں شائع ہونے والی خبر آناً فاناً اطرافِ عالم میں پھیل جائے اور ایک دو رسالوں کے علاوہ اکثر کا یہی حال ہے، حالاں کہ کسی بھی معیاری رسالہ کی ضرورت اور بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اس کا حلقہ اشاعت وسیع سے وسیع تر ہو، اس کی ایک عام وجہ جہاں عام پڑھے لکھے لوگوں میں افسانوی اور رومانی لٹریچر کی طرف میلان، ٹھوس علمی اور تحقیقی مضامین سے عدمِ لگاؤ ہے تو دوسری طرف خود ان دینی رسائل وجرائد کا معیار بھی ہے کہ دین اسلام کی اشاعت وتبلیغ کی غرض سے شائع ہونے والے اکثر رسائل وجرائد یا تو خالصتاً علمی اور تحقیقی مضامین پر مشتمل ہوتے ہیں یا پھر سلبی اور مناظرانہ انداز کی تحریریں شائع کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عام طبقہ تو اسے دیکھتا ہی نہیں، پڑھنا تو در کنار اور صرف یا تو دین دار طبقہ پڑھتا ہے یا پھر لائبریریوں اور الماریوں کی زینت بن جاتے ہیں۔

پھر آج کا دور پبلسٹی کا دور ہے، حلقہٴ اشاعت کو عام سے عام تر ہونا چاہیے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں مشرق وسطی اور برصغیر میں مسلمانوں کی صحافت واقعی ایسی صحافت تھی، جو ایک موثر دینی واسلامی صحافت کے لیے آئیڈیل اور نمونہ قرار دی جاسکتی ہے، اس نے ایک طرف دین اسلام کی اساسی تعلیمات کی حفاظت کی آواز اٹھائی تو دوسری طرف مغرب کے بڑھتے ہوئے بے حیائی کے سیلِ رواں کے سامنے بند باندھا اور مادر پدر آزاد مغربی صحافت سے پھیلنے والے تمام تر مفاسد کا قلع قمع کیا، لیکن بیسویں صدی کے وسط سے صحافت پر اسلامی چھاپ کا اثر دھیما اوردینی گرفت ڈھیلی پڑ گئی، مغربی صحافت اپنی راہ بلکہ شاہ راہ بنانے میں کام یاب ہوئی اور مسلمان ”آزادی صحافت“ کے نام سے یہودیوں کی اس مذموم سازش کا شکار ہو گئے۔

یہ وقت کا تقاضا ہے کہ دینی رسائل اور جرائد کو اس قدر معیاری بنا یا جائے کہ ان کو مقبولیت کا پروانہ حاصل ہو جائے اور ہر عام وخاص اس کے قارئین کی صف میں شامل ہو جائے۔

متعلم محمد عارف، جامعہ فاروقیہ کراچی
ماہنامه الفاروق
جمادی الاول 1437ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں