نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت

خلوت اختیار کرنے میں نیت کیا ہو
مجھے صوفیہ کا اسی کے مناسب ایک لطیفہ نہایت پسند آیا کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی خلوت اختیار کرے تو اُس میں دوسروں کے ضرر سے بچنے کی نیت نہ کرے۔ بلکہ یہ نیت رکھے کہ میں اپنے شر سے خلقت کو بچاتا ہوں، اپنے کو سانپ سمجھ کر بھٹ میں رکھے اور واقعی اگر غور کرکے دیکھا جاوے تو ہم سے دوسروں کوزیادہ تکلیف پہنچتی ہے، کیوں کہ خدا تعالیٰ نے تو دشمن کو دوست بنانے کا نسخہ بتایا ہے کہ ﴿ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِیْ بَیْْنَکَ وَبَیْْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ﴾․ (سورہ فصلت:34) ترجمہ:” آپ نیک برتاؤ سے ٹال دیا کیجیے، یکا یک آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہو جاویے گا جیسے کوئی ولی دوست ہوتا ہے۔“

یعنی نرمی سے، پس یکا یک وہ شخص کہ تمہارے اور اس کے درمیان عداوت تھی ایسا ہو جاوے گا کہ مخلص دوست ہے۔ تو جب ایسا نہیں ہوا اورپھر بھی وہ تمہارا دشمن ہی رہا۔ تو معلوم ہوا کہ ہم سے اُس کو کوئی صدمہ پہنچا ہے یا آئندہ کسی ضرر کا اندیشہ ہے۔ بہرحال سبب اُس کی عداوت کا جو ہے وہ ہم سے ضرر پہنچنا ہے۔ خواہ وہ ضرر بالفعل ہو یا بالقوہ ، چاہے یہ نقصان اسی فعل سے ہو یا آئندہ ہونے کا احتمال ہو، پس یہ ثابت ہوا کہ زیادہ تکلیف ہم ہی سے دوسروں کو پہنچتی ہے۔ تو جب یہ بات واقع کے مطابق ہے تو سمجھ لے کہ میں چوں کہ صاحب شر ہوں اس واسطے خلوت اختیار کرتا ہوں، تاکہ مخلوق میرے شر سے مامون ہوجاوے۔ خلاصہ یہ کہ نقص اپنے اندر سمجھے، نہ دوسروں میں تو جیسے صوفیہ کی یہ تعلیم ہے۔ اسی طرح خواجہ بہاؤ الدین رحمة الله علیہ نے یہ نہیں کہ سنت میں کوئی کمی ہے، بلکہ اپنے کو ضعیف اور غیر متحمل فرمایا، پس اسی طرح ہم کو بھی مضر چیز کے چھوڑنے میں یہی نیت کرنی چاہیے۔ کہ ہم ضعیف ہیں، بہرحال ایسی شے کے ترک کی اجازت تو ہوئی خواہ تم میں تضرر کا مادہ زیادہ ہو یا اس میں اضرار کا مادہ ہو۔ باقی محض شان اور تفاخر کے لیے کسی چیز کا چھوڑ دینا یہ سمجھ کر کہ یہ تہذیب کے خلاف ہے جائز نہیں، چناں چہ بعض لوگ اس خیال سے انگلیاں نہیں چاٹتے کہ یہ خلاف تہذیب ہے حالاں کہ یہ سنت ہے تو ایسا سمجھنا نرا تکبر ہے، پس اس سے خیال سے کسی چیز کا چھوڑنا ہر گز جائز نہیں، ہاں! اگر مضر ہو تو چھوڑ دو اور اگر چھوڑنے میں کوئی ادب کی نیت نہ ہو تو مضر ہی ہونے کی نیت سہی ،ہم لوگوں کے لیے یہ بھی کافی ہے اور بڑے لوگوں کی حالت دوسری ہے۔ اُن کو ہر بات میں ادب کی رعایت لازم ہوتی ہے ۔ اگر ان سے ذرا بھی کوتاہی ہوتی ہے تو اس میں مواخذہ ہوتا ہے ۔ غرض یہ مضمون تو ویسے ہی بیان ہو گیا۔ میں یہ بیان کر رہا تھا کہ ان بزرگ پر جلے ہوئے ٹکڑے چھوڑنے پر عتاب ہوا، پس وہ اس سے کب خوش ہوں گے کہ تدبیر جو ان کے لیے ایک بڑی بھاری نعمت ہے اس کو بالکل چھوڑ دیا جاوے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ تدبیر حق تعالیٰ نے مشروع کی ہے، ہر کام کے اندر تدبیر کی رعایت رکھی ہے۔

ظہور معجزات میں رعایت اسباب
حتی کہ معجزات بھی جو کہ بلا اسباب ہوتے ہیں اکثر صورةً اُن کا بھی اقتران اسباب ہی سے ہوتا ہے۔ گووہ اسباب موثر نہیں ہوتے، مگر اقتران اُن کے ساتھ ضرور ہوتا ہے۔ چناں چہ حدیثوں میں موجود ہے کہ حضرت جابر نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی دعوت کی، انہوں نے غزوہٴ خندق میں دیکھا تھا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کو کچھ بھوک لگی ہے۔ بس وہ جا کر اپنی بیوی سے کھانا پکانے کو کہہ آئے اور آکر حضور سے عرض کیا کہ میں نے آپ کے لیے کھانا تیار کرایا ہے۔ تشریف لے چلیے۔ آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ جابر رضی الله عنہ نے دعوت کی ہے۔ اُن کے یہاں کھانے کے لیے چلو۔ یہ سن کر حضرت جابر رضی الله عنہ بہت گھبرائے۔ کیوں کہ انہوں نے کھانا تھوڑا ہی تیار کرایا تھا۔ اور آکر بیوی سے کہا کہ حضور مع صحابہ کے تشریف لارہے ہیں۔ اور کھانا ہے تھوڑا، اب کیا کرنا چاہیے؟ بیوی نے کہا کہ تم گھبراؤ نہیں۔ حضور کو ہماری حالت خوب معلوم ہے۔ آپ نے کچھ سمجھ ہی کر صحابہ کو ساتھ لیا ہو گا۔ غرض آپ تشریف لائے اور اپنا لعاب دہن آٹے میں اور ہنڈیا میں ڈال دیا۔ پھر فرمایا کہ اب پکانا شروع کرو۔ غرض روٹیاں پکتی گئیں اور سب لوگ کھاتے گئے۔ حضرت جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ تمام آدمی کھا چکے او رجتنا کھانا تھا اُس میں کچھ بھی کمی نہیں آئی۔ یہ معجزہ ہے۔ لیکن اس میں بھی یہ بات دیکھنے کی ہے کہ حضور صلی الله علیہ و سلم اگر دعا فرماتے کہ ویسے ہی روٹیاں پیدا کر دے تو کیوں قبول نہ ہوتی؟ ضرور ہوتی، چناں چہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی﴿ربنا انزل علینا مائدة من السماء﴾”اے ہمارے رب! آسمان سے ہم پر مائدہ نازل کیجیے“ اور وہ قبول ہوئی تھی تو اسی طرح اگر حضور دعا فرماتے تو روٹیاں یہاں بھی غیب سے آتیں۔ لیکن حضور صلی الله علیہ وسلم نے چاہا کہ انہیں روٹیوں میں سے نکلیں اور اسی سالن میں سے تو دیکھیے کہ خدا تعالیٰ کی حکمتوں کی آپ نے کتنی رعایت کی ہے کہ معجزہ میں بھی ایک گونہ تدبیر کی رعایت فرمائی تو چوں کہ تدبیر خداتعالیٰ کی مشروع کی ہوئی ہے اس وجہ سے حضور جنگ میں زرہ پہنتے تھے۔ نہ اس وجہ سے کہ آپ کو اندیشہ تھا یا اسباب پر نظر تھی۔ غرض کہ اُس کافر نے جب آپ سے کہا کہ من یمنعک منی؟ کہ”اب آپ کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا“ تو آپ نے بے دھڑک فرمایا کہ الله اس کہنے سے اس کافر کے بدن پر لرزہ پڑ گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ پس حضور نے تلوار اٹھالی اور فرمایا کہ من یمنعک منی؟ کہ اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ مگر اس کی زبان سے یہ نہ نکلا کہ الله تعالیٰ بچائیں گے، اُس کو اتنی ہمت نہ ہوئی کہ یہ جواب دے ،حالاں کہ اگر وہ یہ کہہ دیتا تو کیا الله تعالیٰ کا نام سن کر آپ اس کو قتل کرتے؟ ہر گز نہیں اور آپ کی تو بڑی شان ہے۔

اہلسنت پر حضرات اہل بیت کی محبت نہ ہونے کا شبہ اور اس کے متعلق حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمة الله علیہ کی حکایت
بعض اولیاء الله کی آپ کو حکایت سناتا ہوں، حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے وہم ہوا کرتا تھا کہ حضرات اہلِ بیت سے مجھے محبت نہیں ہے او راکثر اہلِ سنت کے متعلق لوگوں کا یہ خیال ہے بھی کہ ان کو جتنی محبت صحابہ سے ہے اُتنی اہل بیت سے نہیں ہے۔ چناں چہ ایک صاحب نے مجھ سے یہ شبہ کیا بھی تھا۔ میں نے کہا کہ وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں صحابہ کے منکر تو ہیں۔ اس لیے اُن کی نصرت او رحمایت میں اہتمام کیا جاتا ہے اور اہل بیت کے منکر نہیں۔ اس لیے ان کے متعلق اس قدر اہتمام نہیں کیا جاتا۔ اس وجہ سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ اہل بیت سے محبت نہیں تو جیسے اکثر لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے۔ حضرت مرزا صاحب کو بھی یہ خیال ہوا اور اس کی وجہ سے بہت پریشان ہوئے۔ آخر ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص نے آپ کے سامنے صحابہ کی شان میں گستاخی کی، آپ سن کر غصہ سے بے تاب ہو گئے اور تلوار نکال کر چاہا کہ اس کا کام تمام کر دیں۔ اس نے کہا کہ امام حسین رضی الله عنہ کے واسطے مجھ کو چھوڑ دو۔ بس امام حسین رضی الله عنہ کا نام سن کر آپ کی یہ حالت ہوئی کہ بدن پر لرزہ پڑ گیا اور پھر اس پر ہاتھ اٹھ نہ سکا۔ اس سے آپ کو تسلی ہوئی کہ مجھ کو اہل بیت کے ساتھ بھی محبت ہے۔ تو جب امام حسین رضی الله عنہ کا نام سن کر حضرت مرزا صاحب کی یہ کیفیت ہوئی تو کیا خدا کا نام سن کر حضور اس کو قتل کر دیتے؟ کبھی نہیں۔ اور یہ اس کو بھی معلوم تھا۔ مگر چوں کہ اُس کے دل میں خدا تعالیٰ پر بھروسہ نہ تھا، اس وجہ سے اُس کی زبان سے بھی نہ نکلا۔ غرض یہ حالت تھی انبیاء کی شجاعت کی کہ ایسے سخت سخت موقعوں میں بھی ذرا نہ ڈرتے تھے۔ حالاں کہ اس وقت تبلیغ کا وقت بھی نہ تھا۔

انبیاء کا سکونت حجت ہے
تو اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ تبلیغ کے اندر وہ کسی سے کیا اندیشہ کریں گے؟ پس اگر ان کے سامنے کسی کا قول نقل کیا جاوے اور وہ ساکت ہو جاویں تو ان کا سکوت اس وجہ سے ہو گا کہ وہ قول ان کے نزدیک صحیح ہے، ان کی نسبت دب جانے کا احتمال ہر گز نہیں ہو گا۔ غرض یہ مسئلہ ثابت ہے کہ اگر خدا رسول کسی کلام پر سکوت فرمادیں تو وہ دلیل اُس کی صحت کی ہے۔

حدیث تقریری
چناں چہ جس کو حدیث تقریری کہتے ہیں وہ یہی ہے کہ اگر کسی بات کو دیکھ کر حضور صلی الله علیہ وسلم انکار نہ فرما ویں تو محدثین اُس کی نسبت کہتے ہیں کہ یہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی حدیث ہے اور اسی طرح اگر خدا تعالیٰ نقل فرما کر انکار نہ فرما ویں تو وہ خدا تعالیٰ ہی کا قول ہے۔ پس یہ مقولہ گوجنوں کا ہے، مگر جب حق تعالیٰ نے نقل فرماکر انکار نہیں فرمایا تو یہ حق تعالیٰ ہی کا ارشاد ہوا۔ یہ میں نے اس لیے کہا کہ شاید ترجمہ دیکھ کر کسی کو شبہ ہو کہ استدلال جنوں کے قول سے کیا ہے تو سمجھ لو کہ یہ خدا تعالیٰ ہی کا قول ہے ۔غرض وہ جن قرآن سن کر اپنی قوم کے پاس گئے اور جاکر وہ مقولہ کہا جو یہاں مذکور ہے او راب وہ ارشاد ہو گیا خدا تعالیٰ کا تو فرماتے ہیں کہ کہنا مانو خدا کی طرف سے پکارنے والے کا۔ آگے ”اجیبوا“ کی تفسیر ہے کہ آمنوا بہ تصدیق کرو آپ کی۔ یہ نہیں کہ زبان سے کہہ لیا کہ ہاں صاحب اور آگے کچھ بھی نہیں۔ بہت سے لوگوں کی اجابت اس قسم کی ہوتی ہے کہ زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، لیکن جب احکام سنے تو ہٹنے لگے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ آمنوا بہ کہ دل سے مانو اگر ایسا کرو گے تو کیا ثمرہ ملے گا۔ یہ ملے گا کہ ”یَغْفِرُلَکُمْ ذُنُوْبِکُمْ“ تمہارے گناہوں کو بخش دیں گے ”وَیُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْم“ اور تم کو درد ناک عذاب سے پناہ دیں گے۔ یہ مضمون گو ظاہراً اس مجلس کے مناسب نہ تھا، اس لیے کہ آیت میں تو خطاب اُن کو تھا جو ایمان نہیں لائے تھے اور یہاں تو سب مومن ہی ہیں۔ مگر میں نے اس کو اس لیے اختیار کیا کہے کہ مجھے لفظ داعی سے ایک مرض کا ازالہ کرنا ہے، جو بعض مومنوں میں بھی ہے۔

احکام شرعیہ پر نکتہ چینی کا مرض
وہ یہ کہ آج کل احکام شرعیہ میں نکتہ چینی کی جاتی ہے۔ بعض تو کرتے ہیں اُن کو احکام اجتہادیہ سمجھ کر، رد کرنے کے لیے اور بعض محققانہ طور پر سمجھنا چاہتے ہیں۔ چناں چہ ہر چیز کا فلسفہ اور راز معلوم کرنا چاہتے ہیں اور علماء کو مکلف کرتے ہیں کہ احکام کے اسرار بتلائیں اور یہ مرض عام ہو رہا ہے، مگر اس کا الزام جیسا زیادہ حصے میں مریض پر ہے، تھوڑا سا طبیب پر بھی ہے، کیوں کہ مرض بڑھتا ہے، کبھی تو مریض کی بد پرہیزی سے او رکبھی طبیب کی بیجارعایت سے، مثلاً اگر کسی کو مٹھائی مضر ہو اور مریض کی دخواست پر طبیب اس کو مٹھائی کی اجازت دے دے تو ظاہر ہے کہ مرض بڑھے گا او رایسی رعایت یا تو اپنی مصلحت سے ہو گی یا اخلاق کی وجہ سے کہ کوئی یہ نہ کہے کہ بڑے سخت ہیں۔ اس الزام سے بچنے کے لیے طبیب کہے کہ اچھا بھائی! کھالو۔ سوخوب سمجھ لو کہ طبیب کو اس کی کچھ پروانہ کرنی چاہیے کہ مجھے کوئی خوش اخلاق کہے گا یا نہیں؟ پس طبیب اگر اس قصد سے مریض کو مضر چیز کی اجازت دے دے تو مرض بڑھنے کا الزام خود اُسی پر ہے او راگر یہ قصد نہیں، بلکہ وہ اس کو مضر نہیں سمجھتا تو وہ اس قسم کی تو غلطی نہیں ہو گی ۔ مگر طبابت کی غلطی ضرور ہو گی۔

فضول سوالات کے جواب سے احتراز
اب سمجھیے کہ میرا مقصود اس وقت بیان کرنا یہ ہے کہ عوام نے تو یہ شیوہ اختیا رکیا ہے کہ ہر چیز کے اسرار تلاش کرتے ہیں، خواہ اُن کا مقصود اس سے کچھ ہی ہو، رد کرنا ہو یا تحقیق اور علماء نے اپنے اخلاق سے اُن کے ساتھ چلنا شروع کیا ہے کہ جو کچھ انہوں نے پوچھا وہ بتلانے لگے، یہ کہنا ہی نہیں جانتے کہ یہ سوال فضول ہے۔ تو اس کے دو سبب ہیں اور دونوں میں غلطی ہے، کبھی تو یہ سبب ہوتا ہے کہ علماء یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر میں نے اس کو تسلی کا جواب نہ دیا اور کہہ دیا کہ یہ سوال فضول ہے تو یوں سمجھے گا کہ علماء کچھ نہیں جانتے، مجھے سمجھا نہ سکے۔ اس خیال کاا ثر اچھا نہ ہو گا۔ تو علماء اس مصلحت کے خیال سے عوام کے ساتھ ہو لیتے ہیں اور یہ علماء کی وہ نیت ہے کہ ممکن ہے کہ دینی نیت ہو۔ یعنی اُن کو یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر میں نہ بتلاؤں تو دین کا ضرر لازم آئے گا۔ اس لیے ایسا کرتا ہوں تو سمجھ لو کہ اگر کوئی جاہ کے لیے ایسا کرتا ہے وہ تو برا ہے ہی۔ لیکن اگر دینی مصلحت کی نیت سے کرتا ہے ۔ جب بھی غلطی ہے، کیوں کہ حفظت شیئا وغابت عنک شیئا ”تمہاری ایک مصلحت کی رعایت سے بہت سی مصلحتیں فوت ہو گئیں۔“ اس مصلحت کی رعایت سے دوسری دینی خرابیاں جو پیدا ہوتی ہیں اُن کو بھی تو دیکھنا چاہیے، وہ یہ کہ ایسا کرنے سے باب سوال وسیع ہوتا ہے اور اس قدر وسیع ہوتا ہے کہ بعض اوقات آپ بھی تحمل نہ کر سکیں گے، یعنی جب آپ نے ان کو ہر بات کا جواب دے دے کر اور اسرار بتلا بتلا کر عادی کر دیا، سوال کا تو ممکن ہے کہ کل وہ یوں کہیں کہ زکوٰة چالیسواں حصہ کیوں مقرر ہوئی تو اس وقت آپ کو بھی یہی کہنا پڑے گا کہ یہ تو ہم کو معلوم نہیں اور یہ سوال فضول ہے تو جب آخر ایک مرتبہ یہ کہنا ہی ہے تو ایسے سوال کی کیوں نوبت آنے دی جائے۔ ابھی سے کیوں نہ ایسا کیجیے؟ اور اس وقت ان کو عادی بنا کر اس طرح کہنے میں تو بڑی مشکل ہو گی ۔ اس وقت تو ان کو یقین ہو جائے گا کہ آپ اس کی مصلحت نہیں جانتے، ورنہ جیسے اور چیزوں کی مصلحتیں بتلائی تھیں۔ اس کی مصلحت بھی بتلا دیتے۔

ہر حکم کی دلیل قرآن سے مانگنا درست نہیں
او راسی کا ایک شعبہ یہ ہے کہ اکثر لوگ ہر حکم کی دلیل قرآن سے طلب کرتے ہیں ۔ چناں چہ داڑھی کے متعلق ایک استفتاء چھپا تھا کہ داڑھی رکھنا قرآن سے ثابت کرو ؟میں نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے کہ قرآن ہی سے ثابت ہو؟ ضرورت تو دلیل صحیح کی ہے ۔ خواہ قرآن سے ہو یا حدیث سے یا قیاس سے یا اجماع سے ،کیوں کہ یہ چاروں ادلہ شرعیہ ہیں تو جس دلیل سے بھی ثابت کر دیا جاوے اس کے بعد کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ اس دلیل سے نہیں، فلان دلیل سے ثابت کرو، جیسے عدالت کے گواہ کہ وہاں ضرورت اس کی ہے کہ معتبر گواہوں سے دعوے کو ثابت کیا جائے ۔ پس جب معتبر گواہوں سے دعوے کو ثابت کر دیا تو مدعا علیہ اگر یوں کہے کہ میں تو ان کی گواہی نہیں جانتا، فلاں ہی شخص گواہی دے گا تو مانوں گا تو یہ بات اس کی ہر گز نہیں سنی جائے گی۔ کیوں کہ گواہ معتبر ہونے چاہییں، یہ کیا واہیات کہ گواہ ہیں تو معتبر، مگر میں توان کی نہیں مانتا تو اسی طرح شرعی ادلہ گواہ ہیں۔ ہم کو اختیار ہے کہ خواہ قرآن سے ثابت کریں خواہ حدیث سے ۔ خواہ قیاس سے۔ خواہ اجماع سے ۔ سائل کو حق نہیں ہے کہ وہ فرمائش کرے کہ قرآن ہی سے ثابت کرو۔

ہر مسئلہ کو قرآن سے ثابت کرنے کا خبط
اور سائلوں کو تو خبط ہے ہی ،جواب دینے کا بھی خبط ہے، وہ بھی اس کی کوشش کرتے ہیں کہ ہر بات کو قرآن سے ثابت کر دیں۔ چنا چہ ایک صاحب ملے، کہنے لگے کہ مجھ سے ایک شخص نے یہ سوال کیا کہ داڑھی کا ثبوت قرآن سے ہونا چاہیے۔ تو میں نے داڑھی کو قرآن سے ثابت کر دیا، وہ اس طرح کہ حضرت ہارون علیہ السلام کے قصہ میں ہے”لاَ تَاْخُذُ بِلِحْیَتِیْ“ یعنی میری داڑھی نہ پکڑیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہارون علیہ السلام داڑھی رکھتے تھے۔ میں نے کہا کہ اس کو سن کر وہ سائل کیا بولا۔ کہنے لگے کہ وہ مان گیا، میں نے کہا کہ اس سے تو داڑھی کا وجود ثابت ہوتا ہے، وجوب کہاں ثابت ہوا؟ تو آپ کیا جواب دیتے؟ کہنے لگے کہ اس کو اتنی عقل کہاں تھی کہ یہ پوچھتا؟ سو آج کل جواب دینے والوں نے یہ طرز اختیا رکر کھا ہے ۔ مگر سمجھو کہ یہ بنیاد کو کھوکھلی کرنا ہے، اگر ایسی بنیاد پر مکان بنائیں گے تو بہت جلد مکان گر پڑے گا۔ مثلاً اگر وہ اُسی وقت یہ کہہ دیتا ہے کہ اس سے تو داڑھی کا صرف وجود ثابت ہوا وجوب کیسے ثابت ہوا؟ تو اب اُن کے پاس کیا جواب تھا؟ تو اگر ایسے جواب دیے جاویں گے تو اس پر شبہات ہوں گے اور اس سے سائل سمجھے گا کہ شریعت کے دلائل ایسے ہی ہوتے ہیں، سو اس طرز کے اختیار کرنے میں یہ ضرر ہے۔ پس اصلی جواب یہ ہے کہ تم کو اس کے کہنے کا منصب نہیں ہے کہ قرآن سے ثابت کرو۔ ہم چاروں دلیلوں میں سے جس دلیل سے چاہیں گے ثابت کریں گے۔

ایک جماعت آج کل نکلی ہے کہ اس نے دعویٰ کیا ہے کہ قرآن سے ہر چیز ثابت ہے، حدیث کچھ نہیں پہلے ایک جماعت فقہ کی منکر نکلی تھی۔ یہ حدیث کے منکر نکلے اور عجب نہیں کہ کچھ دنوں میں لوگ کہنے لگیں”لولا یکلمنا الله“ الله تعالیٰ خود ہم سے کیوں نہیں کلام فرماتے؟ کہ ہم اُس وقت مانیں گے جب کہ الله تعالیٰ ہم سے خود کلام کریں۔

ہر مسئلہ کو قرآن سے ثابت کرنے کا بے ڈھنگا انداز
ایک مرتبہ ایسے شخص، جو کہ اس بات کے مدعی ہیں کہ ہر چیز قرآن سے ثابت ہے، ایک صاحب نے پوچھا کہ رکعات کی تعداد کہاں سے ثابت ہیں؟ تو وہ نہ بتلا سکے۔ لیکن ایک دوسرے صاحب نے بتلایا ﴿الْحَمْدُ لِلَّہِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِکَةِ رُسُلاً أُولِیْ أَجْنِحَةٍ مَّثْنَی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ﴾․(فاطر، آیت:1) ترجمہ:” تمام تر حمد الله کے لائق ہیں، جو آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، جو فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا ہے، جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر دار بازو ہیں۔“ کہ اس میں اعداد رکعت کی طرف اشارہ ہے کہ بعض نمازیں دو رکعت والی ہیں اور بعض تین اور بعض چار رکعت والی۔ میں نے کہا کہ فضول اتنی دور گئے، اول ہی کے پارے میں ہے ﴿فَانکِحُواْ مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاء مَثْنَی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ﴾․(نساء:3) ترجمہ:” نکاح کرو عورتوں سے، جتنی کہ اچھی معلوم ہوں تم کو، دو دو اور تین تین اور چار چار۔“ اگر ایسا ہی ثبوت ہے تو اس کو پیش کر دیا ہوتا۔ پھر اس کو تو کچھ جوڑ بھی ہے کہ جیسے نماز ہمارا فعل ہے ایسے ہی نکاح بھی ہمارا فعل ہے، اگرچہ یہ جوڑ ایسا ہے جیسے ایک مولوی نورالحسن واعظ تھے، انہوں نے کہیں وعظ کہا، وعظ میں ایک دیہاتی بھی شریک تھا۔ اس نے پوچھا کہ مولوی تیرا کیا نام ہے؟ انہوں نے کہا نور الحسن۔ اُس نے کہا اور باپ کا کیا نام ہے؟ کہا مہدی الحسن۔ یہ سن کر آپ کہتے کیا ہیں کہ نون لہسن کا تو جوڑ ہے، مگر مہدی لہسن کا تو کچھ جوڑ نہیں۔ تمہارے نام میں تو جوڑ ہے، لیکن تمہارے باپ کا نام بے جوڑ ہے ۔ تو ایسا ہی یہ جوڑ ہے۔ غرض کہ ہر بات کا ثبوت قرآن سے دیں گے تو کہیں نہ کہیں تو ضرور تھکیں گے اور ایسا تھکیں گے کہ اتنا بھی نہ بنے گا۔ مثلاً کہ چالیسواں حصہ زکوٰة میں اس کو قرآن سے کس طرح ثابت کریں گے؟ غرض علماء جو ہر بات کا جواب دیتے ہیں ۔ تو بعضوں میں تویہ وجہ ہوتی ہے کہ ہم کو کوئی بے علم نہ سمجھے۔

طالب علم کے ہر سوال کا جواب دینے کا نقصان
جیسے بعض پڑھانے والوں نے بھی یہ وتیرہ اختیار کرر کھا ہے کہ بعض مرتبہ طالب علم محض اپنی ذہانت ظاہر کرنے کے لیے سوال کرتا ہے تواس کو برابر جواب دیے جاتے ہیں تو یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ اول تو وقت ضائع ہو گا۔ دوسرے وہ طالب علم بھی برابر جواب دینے کا سبق لے کر جاویں گے۔ حتی کہ اگر کبھی کوئی غلط مسئلہ منھ سے نکل جاوے گا تو اس کے اندر بھی وہ تاویلیں کریں گے۔ اپنی غلطی کا اقرار کبھی نہ کریں گے۔ چناں چہ ایک صاحب نے رضاعت کے مسئلہ میں غلطی کی او رجب اور علماء نے اُس پر متنبہ کیا تو آپ نے اس غلطی پر اصرار کیا اور اس کی تائید میں ایک رسالہ لکھا اور اپنے استاد کے پاس لے گئے کہ اس پر دستخط کر دیجیے ،ان کے استاد نے کہا کہ یہ مسئلہ تو غلط ہے، کہنے لگے کہ اب تو منھ سے نکل گیا ہے، اب تو تصدیق کر ہی دیجیے، میری آبرو رکھ لیجیے، انہوں نے کہا کہ شاگرد کی خاطرایمان تو نہیں کھویا جاتا۔ غرض یہ کہ مجیب کو چاہیے کہ سائل کے مذاق کا اتباع نہ کرے ،مصلحت دینیہ کو دیکھے۔

بعض علماء کے اسرار بتلانے کی وجہ
غرض بعض تو اس لیے بات کا جواب دیتے ہیں تاکہ ان کو کوئی بے علم نہ سمجھے اور بعض کو یہ وجہ ہوئی ہے کہ یوں سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی تسلی نہ کی تو یہ ہم کو خلیق نہ سمجھیں گے، مگر یہ بھی غلطی ہے اور بعض لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ طریقہ مضر ہے، بلکہ وہ اس کو مفید سمجھتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سائل کی تسلی ہو جاوے، اگر یہ ہے تو طبابت (حکمت) کی غلطی ہے۔ کیوں کہ اس سے مصالح مستقبلہ ضائع ہوتے ہیں اور فساد کی جڑ پیدا ہوتی ہے تو ایسا نہ کرنا چاہیے تو یہ مرض عوام میں کچھ تو بڑھا ہوا تھا ہی کچھ جواب دینے والوں کی خوش اخلاقی سے بڑھا تو ان کو چاہیے کہ دلائل ہر گز نہ بتلاویں۔ ہاں! اگر کسی کو اس میں شبہ ہے کہ یہ خدا کا حکم ہے یا نہیں؟ تو اس کو سمجھا دے۔

داعی کے معنی
خلاصہ یہ ہے کہ یہ مرض چوں کہ بہت بڑھ رہا ہے اس لیے اس کا علاج کرنا مقصود ہے اور وہ علاج مذکور ہے، لفظ داعی میں اس لیے اس کو بیان کرنے کی ضرورت پڑی ،ورنہ اس مجمع میں ،اس کو بیان کرتے ہوئے شرم آتی ہے، کیوں کہ جب آپ اس کو سنیں گے تو معلوم ہو گا کہ اس کے مخاطب آیت میں کفار ہیں، جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو منادی نہ سمجھتے تھے، پس مسلمانوں کو اس کا مخاطب بنانا جو کہ آپ کو منادی سمجھتے ہیں نہایت درجہ شرم کی بات ہے ۔ کیوں کہ منادی اعتقاد کرنے والے کو اس خطاب کی ضرورت ہی کیا ہے؟ غرضکہ داعی کے معنی ہیں منادی کے، چناں چہ دوسرے مقام پرمنادی فرمایا ہے اور یہ خدا کافضل ہے کہ ایسا لفظ مل گیا کہ ترجمہ اپنی زبان میں کرنے کی ضرورت نہیں ہوئی، کیوں کہ اردو میں لفظ منادی خود مستعمل ہے۔ سودوسرے مقام پر فرماتے ہیں:﴿رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیْاً یُنَادِیْ لِلإِیْمَان﴾․(آل عمران:193) یعنی وہ یوں کہتے ہیں کہ اے الله! ہم نے ایک منادی کرنے والے کو سنا کہ وہ ندا کر رہا ہے اور منادی کرنے والے اس واسطے کہا کہ ہمارے محاورے میں منادی مصدر کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔ تو دیکھیے اس آیت میں منادی فرمایا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ منادی اور داعی ایک ہی بات ہے۔

اکرامِ منادی
منادی سے مراد بھی حضور صلی الله علیہ وسلم ہیں او ریہاں بھی حضور ہی مراد ہیں تو لفظ داعی سے اس بات کو بتلا دیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کے ساتھ کیا عمل کرنا چاہیے؟ ایک مختصر لفظ میں بہت بڑی بات بتلائی اور وہ ایسی صاف بات ہے کہ روز مرہ دیکھتے ہو۔ مثلاً ابھی کوئی شخص سامنے سے یہ کہتا ہوا نکلے کہ صاحب کلکٹر کا یہ حکم ہے۔ تو آپ کی کیا حالت ہو گی؟ ظاہر ہے کہ دو حالتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اُس شخص کو جھوٹا سمجھا اور سرکاری حکم ہونے کا یقین نہ ہوا۔ دوسرے یہ کہ اس کو سچا سمجھا اور یقین ہو گیا کہ یہ سرکاری حکم ہے۔ خواہ یہ یقین کسی وجہ سے ہو، عقل سے ہو یا اس وجہ سے کہ اُس کو آپ جانتے ہیں کہ معتبر شخص ہے یا اس وجہ سے کہ اس کو کہتے ہوئے پولیس سن رہی ہے او رکسی نے اس کو روکا نہیں یا کلکٹر کے بنگلہ سے کہتا ہوا نکلا تو معلوم ہوا کہ یہ سرکاری منادی ہے۔

خبر واحد پر عمل کرنے کی وجہ
اور یہاں سے ایک او ربات یاد آگئی، حدیث میں ہے کہ جب تحویل قبلہ ہوا تو قبا میں اس وقت خبر ہوئی جب کہ لوگ صبح کی نماز میں تھے، ایک شخص نے آکر خبر دی کہ اب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہو گیا ہے۔ وہ سنتے ہی کعبے کی طرف پھر گئے، یہاں ایک شبہ ہوتا ہے کہ پہلا حکم تو قطعی تھا۔ اور یہ دوسرا خبر واحد سے معلوم ہوا جو کہ ظنی ہوتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ حکم ظنی حکم قطعی کا ناسخ نہیں ہو سکتا، پھر اہل قبا نے اس خبر پر کیسے عمل کیا؟ تو میری اس تقریر سے اس کا جواب ہو گیا کہ کلکٹر کے بنگلہ سے کہتا ہوا نکلا۔ خلاصہ جواب کا یہ ہے کہ یہ خبر بھی قطعی تھی، کیوں کہ قطعیت صرف خبر دینے والوں کی تعداد ہی سے نہیں ہوتی، بلکہ قرائن مقامیہ سے بھی ہوتی ہے اور وہ قرینہ اس جگہ یہ ہے کہ عہد نبوت میں ایک شخص علی الاعلان حضور صلی الله علیہ وسلم کی نسبت ایسا کہے کہ آپ نے یہ حکم دیا ہے۔ اس طرح جھوٹ کہنے کی کسی کوہمت نہیں ہوسکتی۔ (جاری)

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ
ماہنامه الفاروق
جمادی الاول 1437ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں