غزہ: کھدائی کے دوران ملبے سے ناکارہ فاسفورس بم برآمد

غزہ: کھدائی کے دوران ملبے سے ناکارہ فاسفورس بم برآمد

غزہ کی پٹی میں ایک مکان کے ملبے کی صفائی کے دوران عملے کو ناکارہ فاسفور بم ملا ہے جس نے اس بات پرمہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی جنگوں میں عالمی سطح پر ممنوعہ ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے غزہ کی پٹی میں پولیس کےزیرانتظام بم ڈسپوزل شعبے کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیاہے کہ وسطی غزہ میں جنگ سے مسمار ایک مکان کے قریب سے ملبہ ہٹانے کے دوران زمین میں گھسا ایک بم ملا ہے جس کی تحقیق کے بعد پتا چلا ہے کہ وہ وائیٹ فاسفورس بم ہے جسے سنہ 2008 ء اور 2009 ء کے دوران غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی جنگ کے دوران گرایاگیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ناکارہ فاسفور بم اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی میں شہری آبادی پر عالمی سطح پر ممنوعہ اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانےوالے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ وسطی غزہ میں النیصرات کالونی میں کھدائیوں کا کام جاری تھا کہ اس دوران عملے کو مشکوک بم دکھائی دیا، انہوں نے پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس اور بم ڈسپوزل اسکواڈ نے موقع پر پہنچ کر بم کا معائنہ کیا تو پتا چلا کہ یہ بم 155 ملی میٹر دھانے والی توپ سےداغا گیا ہے۔ بم ناکارہ ہونے کے باعث شہریوں کے لیے خطرے کا باعث نہیں تھا کیونکہ اس کےاندر سے وائیٹ فاسفورس ختم ہوچکا تھا۔
خیال رہے کہ سنہ 2009 ء میں اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر فاسفورس بموں کی بارش کی تھی جس پر پوری دنیا میں سخت رد عمل سامنے آیا تھا۔ وائیٹ فاسفورس کے استعمال سے غزہ میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ وائیٹ فاسفورس بم انسانی جلد، گوشت اور ہڈیوں تک کو جلا کر راکھ کردیتا ہے۔
سنہ 2008-09 ء میں اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کے نتیجے میں 1440 فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہوگئے تھے۔

فلسطینی نوجوان کو بلا جواز گولیاں مار کرشہید کیا گیا:اسرائیلی فوج کی رپورٹ
اسرائیلی فوج کی جانب سے حال ہی میں مغربی کنارے میں ایک فلسطینی نوجوان کو گولیاں مار کرشہید کیے جانے کے واقعے کی تحقیقات کی رپورٹ جاری کردی گئی ہے جس میں صہیونی فوج کے اس دعوے کو مسترد کردیا گیا ہے کہ شہید فلسطینی کے پاس دھماکہ خیز مواد یا اسلحہ تھا اور وہ اسرائیلی فوجیوں کے لیے خطرہ بن سکتا تھا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی فوجی تحقیق کاروں نے اپنے پیٹی بھائیوں کے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے کہ فلسطینی نوجوان عبدالفتاح الشریف کے پاس کسی قسم کا دھماکہ خیز مواد موجود تھا، یاس کے اس کے پاس باوردی جیکٹ یا دیگر کسی قسم کا اسلحہ موجود تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہید فلسطینی کے قبضے سے ایسی کوئی بھی چیز برآمد نہیں ہوئی ہے جس سے یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ وہ اسرائیلی فوجیوں کے لیے خطرہ بن سکتا تھا۔
خیال رہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے جمعرات کو مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں تل ارمیدہ کے مقام پر ایک فلسطینی نوجوان کو گولیاں مار کر زخمی کردیا تھا۔ بعد ازاں زخمی نے خود کو سنھبالنے کی کوشش کی تو ایک فوجی نے اس کے قریب جا کر اس کے سرمیں اندھا دھند گولیاں برسادیں جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی شہید ہوگیا تھا۔
اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے’’بتسلیم‘‘ نے اسرائیلی فوج کی وحشیانہ دہشت گردی کی فوٹیج حاصل کی اور اسے میڈیا پر نشر کردیا گیا جس کے بعد اسرائیلی فوج نے بھی اس واقعے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا تھا۔ زخمی فلسطینی کے سرمیں گولی مارنے والے اسرائیلی درندے کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق قاتل فوجی انتہا پسند یہودی گروپوں سے بھی قربت رکھتا ہے اور اس کا شمار دائیں بازو کے شدت پسندوں میں ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینی شہریوں کے قتل کی تحقیقات کے لیے کمیشن بہت قائم کیے جاتے ہیں مگرصہیونی فوج ہمیشہ دہشت گرد فوجیوں کو بچاتے ہوئے معصوم فلسطینیوں ہی کو قصور وار قرار دیتی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کے ان چند واقعات میں سے ایک ہے جب اسرائیلی فوج نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ فوجی اہلکار نے فلسطینی نوجوان کو بلا جواز گولیاں ماریں۔
یہ تحقیقاتی رپورٹ اپنی جگہ مگردوسری جانب اسرائیل میں اعلیٰ سطح پرایک مہم بھی جاری ہے جس میں گرفتار اسرائیلی فوجی کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہاہے۔ اس مہم میں سیاست دان، فوجی افسر اور انتہا پسند یہودی گروپوں کے لیڈر بھی پیش پیش ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں