اسلامی تجارت

اسلامی تجارت

عقائد وعبادات کی طرح معاملات بھی دین کا ایک اہم شعبہ ہے، جس طرح عقائد اور عبادات کے بارے میں جزئیات واحکام بیان کیے گئے ہیں، اسی طرح شریعت اسلامی نے معاملات کی تفصیلات بھی بیان کرنے کا اہتمام کیاہے، حلال وحرام، مکروہ اور غیر مکروہ، جائز اور طیب مال کے مکمل احکام قرآن وحدیث میں موجود ہیں اور شریعت کی دیگر جزئیات کی طرح اس میں بھی مکمل راہ نمائی کی گئی ہے، جو لوگ نماز اور روزہ کا اہتمام کرتے ہیں، مگر صفائی معاملات اور جائز وناجائز کی فکر نہیں کرتے، وہ کبھی الله کے مقرب نہیں ہو سکتے، اس لیے ان کا عمل شریعت پر ناقص ہے، افسوس ہے کہ عرصہٴ دراز سے مسلمانوں کے درمیان معاملات سے متعلق جوشرعی احکام ہیں ان کی اہمیت دلوں سے مٹ گئی ہے اور دین صرف عقائد وعبادات کا نام سمجھا جانے لگا، حلال وحرام کی فکر رفتہ رفتہ ختم ہو گئی ہے اور دن بہ دن اس سے غفلت بڑھتی جارہی ہے، جس کے سبب مسلمان اقتصادیات میں پیچھے ہیں اور خاطر خواہ معاشیات میں انہیں ترقی نہیں مل رہی ہے۔

تجارت کسب معاش کا بہترین طریقہ ہے، اسے اگر جائز اور شرعی اصول کے مطابق انجام دیا جائے تو دنیوی اعتبار سے یہ تجارت نفع بخش ہو گی اور اخروی اعتبار سے بھی یہ بڑے اونچے مقام اور انتہائی اجر وثواب کا موجب ہو گی، تجارت اگرچہ دنیا کے حصول اور مالی منفعت کے لیے کی جاتی ہے، تاہم یہ خدا کا فضل ہے کہ زاویہٴ نگاہ اگر تھوڑا سا تبدیل کر دیا جائے اور تجارت کرنے والے یہ سوچ لیں کہ خدا کا حکم ہے، حلال روزی کی تلاش اور حلال پیسوں کے ذریعے اولاد کی پرورش ، بیوی اور والدین کی ضروریات کی تکمیل، اس لیے ماتحتوں کے حقوق ادا کرنے اور غریب ونادار افراد کی مدد کرنے کے لیے یہ کاروبار کر رہے ہیں او رپھر وہ کاروبار بھی اسلامی اصول کی روشنی میں کیا جائے تو ایسی تجارت کی بڑی فضیلت آئی ہے اور ایسے افراد کو انبیاء وصلحاء کی معیت کی خوش خبری دی گئی ہے، ایک موقع پر رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا:”التاجر الصدوق الأمین مع النبیین والصدیقین والشھداء“․ (سنن الترمذي، حدیث نمبر:1252)

”جو تاجر تجارت کے اندر سچائی اور امانت کو اختیار کرے تو وہ قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔“

ایک دوسری روایت میں ہے:”التجار یحشرون یوم القیامة فجاراً، إلامن اتقی وَبَرَّ وصدق“․(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر:4540)

”تجار قیامت کے دن فاسق وفاجر بنا کر اٹھائے جائیں گے، مگر جو لوگ تقوی وسچائی اور اچھی طرح سے معاملہ کریں گے، وہ اس میں شامل نہیں ہوں گے۔“

ان دونوں احادیث میں تجارت پیشہ افراد کی بظاہر دو حالتیں بیان کی گئی ہیں: ایک میں ان کی مدح بیان کی گئی ہے تو دوسری میں اس کی مذمت ، یہ دراصل تاجر کی الگ الگ قسموں کا بیان ہے، جو تاجر نیک نیت اور صالح ہو، تجارت سے کسب ِ حلال کا ارادہ کرتا ہو، ایسے لوگوں کا حشر بھی اچھا ہو گا اور وہ اپنی نیک نیتی اور صالحیت کی بنیاد پر قیامت کے دن اونچے مقام کے حامل ہوں گے اور جو لوگ تجارت اسلامی اصول سے ہٹ کر انجام دیتے ہیں، حلال وحرام کی تمیز کے بغیر صرف دولت جمع کرنا ان کا مقصد ہوتا ہے، فریب دے کر، جھوٹ بول کر، دغادے کر ، دوسروں کی جیب پر ڈاکہ ڈال کر، بس ایسے تجارت پیشہ افراد کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فاسق وفاجر کہا اور ان کا حشر بھی قیامت کے دن بُرے لوگوں کے ساتھ ہو گا۔

اس لیے اہل علم اور فقہائے کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں کام یاب اور نفع بخش تجارت کے لیے چند اصول بیان کیے ہیں، جن کی روشنی میں تجارت کی جائے تو دنیا میں بھی نفع ہو گا اور آخرت کے اعتبار سے بھی یہ تجارت بے انتہا اجر وثواب کا باعث ہو گی، یعنی ان کی یہ تجارت دین کی سرگرمیوں میں شامل ہو جائے گی، ایک تاجر کو چاہیے کہ تجارت کرتے ہوئے ضرور ان اصولوں کو پیش نظر رکھے، افادہٴ عام کے لیے نمبر وار ذیل کی سطروں میں ان اصول وضوابط کو لکھا جارہا ہے۔

1…کاروبار کو فروغ دینے کے لیے ہمیشہ سچائی اختیار کیجیے، جھوٹ بولنے اورجھوٹی قسمیں کھا کر جو لوگ اپنی تجارت کو فروغ دیتے ہیں، وقتی طور پر اگرچہ نفع معلوم ہوتا ہے، مگر درحقیقت ایسی کمائی اورایسی تجارت سے برکت اٹھالی جاتی ہے، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”فإن صدقا وبینا بورک لھما فی بیعھما، وإن کتما وکذبا محقت برکة بیعھما․“(صحیح بخاری حدیث:1937)

”خریدنے اور بیچنے والے اگر سچائی سے کام لیں او رمعاملے کو واضح کر دیں تو ان کی خرید وفروخت میں برکت دی جاتی ہے اور اگر دونوں کوئی بات چھپالیں اور جھوٹ بولیں تو ان کے کاروبار سے برکت اٹھالی جاتی ہے۔“

ایک دوسری روایت میں ہے:
” قیامت کے روز الله تعالیٰ تین شخصوں سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف منھ اٹھا کر دیکھے گا اور نہ ان کو پاک صاف کرکے جنت میں داخل کرے گا ( اس میں سے ایک وہ ہے) جو جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنے کاروبار کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔“ (صحیح مسلم حدیث:306)

اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک موقع پر یہ بھی فرمایا:
” اپنا مال بیچنے کے لیے کثرت سے جھوٹی قسمیں کھانے سے بچو! یہ چیز وقتی طور پر تو فروغ کی معلوم ہوتی ہے، لیکن آخر کارکاروبار سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔“(صحیح مسلم، حدیث نمبر:4210)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سودا بیچنے والوں کو جھوٹی قسمیں کھانے اور جھوٹ بولنے سے مکمل طور پر احتیاط کرنا چاہیے، جھوٹ کا سہارا لینا، خریدار کو دھوکہ دینا اور دھوکہ دہی بڑے گناہ اور فسادِ عظیم کا باعث ہے، جس سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔

2…مال کا عیب چھپانے او رخریدار کو فریب دینے سے پرہیز کیجیے، بسا اوقات مال بیچنے والے نقلی مال اصلی بتا کر بیچتے ہیں او رکبھی مال کے عیوب کو چھپالیتے ہیں، اس طرح مال فروخت کرنے پر وہ اپنے آپ کو ہو شیار، چالاک او ربہت عقل مند تصور کرتے ہیں، یاد رکھیے! یہ عقل مندی نہیں، انتہائی گھاٹے کا سودا ہے، یہ لوگ دنیا وآخرت دونوں جگہ خسارے میں رہیں گے۔

” ایک بار رسول الله صلی الله علیہ وسلم غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس ڈھیر میں ڈالا تو انگلیوں پر کچھ تری محسوس ہوئی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے غلے والے سے پوچھا یہ کیا ہے؟ دو کان دار نے کہا: یا رسول الله ! اس ڈھیر پر بارش ہو گئی تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تم نے بھیگے ہوئے غلے کو اوپر کیوں نہیں رکھ دیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے؟ جو شخص دھوکہ دے، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔“ (صحیح مسلم، حدیث:295)

شریعت کی رو سے تجارت کا اہم اصول یہ ہے کہ مال کا کوئی عیب نہ چھپایا جائے، صاف تمام چیزیں بیان کر دی جائیں، ایسے ہی کاروبار میں غیب سے برکت نازل ہوتی ہے اور وہ کاروبار فروغ پاتا ہے۔

3…کاروبار میں ہمیشہ دیانت وامانت اختیار کیجیے، مال اچھا ہے تو اچھابتائے اور خراب ہے تو اس کی بھی وضاحت کر دیجیے، کبھی کسی کو خراب مال دے کر یا مجبوری کے وقت عرف وعادت سے زیادہ نفع لے کر اپنی حلال کمائی کو حرام نہ بنائے، حرام رزق ساری برائیوں کی جڑ ہے، اس لیے تھوڑا کمائے، مگر حلال اور طیب مال حاصل کرنے کی کوشش کیجیے، سچے او ر امانت دار تاجروں کی حدیث میں بڑی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔

4…ناپ تو ل میں کمی نہ کیجیے، تجارتی معاملات میں یا عام لین دین میں حق دار کو اس کے حق سے کم دینا ہلاکت او رخسارہ کا باعث ہے، قرآن نے خاص طور پر اس سے دور رہنے کی ہدایت دی ہے اور ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو الله کیغضب سے بچنے کی تلقین کی:﴿وَیْْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ، الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُواْ عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ، وَإِذَا کَالُوہُمْ أَو وَّزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ ، أَلَا یَظُنُّ أُولَئِکَ أَنَّہُم مَّبْعُوثُونَ، لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ، یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ ﴾․(المطففین، آیت:6-1)
ترجمہ:” تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے، جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں پورا پورا لیتے ہیں، جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں کم دیتے ہیں، کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن یہ اٹھا کر لائے جانے والے ہیں، اس دن کہ سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔“

اپنا حق کسی کے ذمے ہو تو اسے حق سے زیادہ وصول کرنا اور دوسروں کا حق اپنے اوپر ہو تو حق سے کم دینا، یہ عام ذہن اور عام سوچ ہے، مگر یہ سوچ اور یہ طریقہٴ کار درست نہیں ہے۔ یہ طریقہ اور انداز غیر شرعی اور ناپسندیدہ ہے، ایسے افراد کے لیے خدا نے تباہی اور ہلاکت کی دھمکی ہے، ظاہر ہے، جس کام پر الله تعالیٰ ہلاکت کی دھمکی دے، اس میں خیر کا کوئی پہلو نہیں ہو سکتا ، وہ ہر اعتبار سے بُرا اور قابل نفرت ہے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں کو کم تولنے کے بجائے جھکتاتولنے کی نصیحت فرمائی ہے:”زن ورجح․“(ترمذی، حدیث نمبر1353)
”جب تم وزن کیا کرو تو زیادہ کرو۔“
دوسرے موقع پر فرمامایا:”إذا وزنتم فأرجحوا․“(ابن ماجہ، حدیث نمبر2307)

5…تجارت کرنے کے ساتھ حقوق الله کی ادائیگی کا خاص خیال رکھا جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کاروبار میں ڈوب کر خدا سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے، ایسے کاروبار میں کبھی الله کی رحمت نازل نہیں ہوسکتی، تجارت یقیناً اچھی چیز ہے ،مگر اس کے حدود میں رہتے ہوئے یہ کیا جائے، ضرورت سے زیادہ اس میں مشغولیت ہلاکت اور موجب خسارہ ہے، اس لیے علماء اور اہل تحقیق نے لکھا ہے کہ جب کبھی ایسا موقع آئے کہ ایک طرف معاشی تقاضے ہوں اور دوسری طرف دینی تقاضے تو ایک مؤمن کو چاہیے کہ معاشی تقاضے کو چھوڑ کر دینی تقاضے کی طرف دوڑ پڑے، اگر ایسا کیا تو دنیوی واخروی دونوں اعتبار سے وہ کام یاب ہو گا۔

اسی طرح تجارت پیشہ افراد کو چاہیے کہ ہاتھ پاؤں کاروبار میں مشغول رکھیں اور اپنے دل ودماغ کو خدا کی یاد میں بسائے رکھیں ، ان کی توجہ ہر آن خدا کی طرف لگی ہوئی ہو، جب کبھی اذان ہوتوفوری طور پر مسجد کی طرف دوڑ پڑیں، اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے خدا کی حمدوثنا او رعظمت وکبریائی کے کلمات زبان سے نکل رہے ہوں۔

معاش کی اہمیت لوگوں کو اس دھوکہ میں نہ ڈال دے کہ یہی سب سے بڑی چیز ہے اور یہی زندگی کا اصل مسئلہ ہے، بلکہ وہ خداکی رحمت اور اس کے اخروی انعام کو ہی اصل اور سب سے بڑی چیز سمجھیں اور کسی بھی حال میں دنیاسیل لونہ لگائیں۔

حضراتِ صحابہ تجارت کرتے تھے، مگر جب بھی الله کا حق سامنے ہوتا وہ تجارت کو چھوڑ کر اس کی ادائیگی میں مشغول ہو جاتے، حضرت قتادہ رضی الله عنہ کا بیان ہے ”کان القوم یتبایعون ویتحرون، ولکنھم إذانابھم حق من حقوق الله لم تلھھم تجارة ولا بیع عن ذکر الله، حتی یؤدوہ إلی الله․“(صحیح البخاری، کتاب البیوع، باب التجارة فی البر)

” صحابہٴ کرام رضی الله عنہم خرید وفروخت کرتے، تجارت کرتے تھے، لیکن جب انہیں الله کے حقوق میں سے کوئی حق پیش آتا تو تجارت اور بیع الله کے ذکر سے نہ روک سکتی، تا آں کہ وہ الله کے حق کو ادا کر دیتے۔“

صحابہ رضی الله عنہم کی زندگی ہمارے لیے قابلِ تقلید ہے، جن کی رسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خاص تربیت فرمائی تھی، ان میں ایمان اتنا راسخ تھا کہ ایمانی تقاضوں پر کسی شے کا غلبہ نہیں ہو سکتا تھا، وہ وہی کرتے جس کا مطالبہ ایمان کی جانب سے ہوتا ، دنیا اور دنیا کی خواہشات نے کبھی ان کے دل ودماغ کو آلودہ نہیں کیا، یقینا ہمارے لیے ان کی زندگی میں ہزارعبرتیں پوشیدہ ہیں۔

6…اپنے مال میں غربیوں کا حق تسلیم کیجیے، اگر آپ صاحبِ نصاب ہیں تو مکمل حساب وکتاب کرکے زکوٰة نکالیے اور صاحبِ نصاب نہیں ہیں تو بھی فقراء ومساکین کو خدا کے نام پر کچھ نہ کچھ دیتے رہیے، صدقہ وخیرات کی عادت ڈالیے کسی سائل کو اپنے در سے محروم نہ کیجیے اور نہ اسے ڈانٹیے اور بُرا بھلا کہیے، کیا معلوم الله تعالیٰ کب کس کی زبان سے نکلی ہوتی بات قبول کر لے؟ وہ شخص خوش ہو گا تو اس کی زبان سے دعائیں نکلیں گی اور نہ دینے پر ناراض ہو گا اور وہ بددعا کرے گا، اس لیے بہتر ہے کہ درپرآنے والا جیسا بھی ہوا سے خالی ہاتھ واپس نہ کریں، اسی طرح دینی اداروں اور ملی کاموں میں بھی مالی تعاون کے ذریعہ حصہ لے کر اپنی اجتماعی حوصلہ مندی اور دین کے لیے سب کچھ قربان کرنے کا ثبوت دیجیے۔

7…خریداروں کے ساتھ ہمیشہ نرمی کا معاملہ کیجیے، اچھے اخلاق، اچھی زبان اور میٹھے الفاظ کے ذریعہ خریداروں کو اعتماد میں لیاجاسکتا ہے، ان کا اعتماد جب آپ پر ہو جائے گا تو دوسری دکانوں کے بجائے وہ آپ کے پاس ہی آئیں گے، ایسے وقت کاروبار کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ ان کے ساتھ خیرخواہی کریں، کم سے کم نفع پر مال دے کر اچھے اخلاق کا ثبوت دیں، ان کو کبھی دھوکہ نہ دیں، اگر کبھی وہ آپ سے ادھار مانگیں تو اپنی گنجائش کے مطابق انہیں مایوس نہ کیجیے اور ادھار دینے کے بعد مطالبہ کے وقت سخت لب ولہجہ استعمال نہ کیجیے، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”رحم الله رجلا سمحا إذا باع، وإذا اشتری، وإذا اقتضی․“(صحیح البخاری حدیث نمبر:2076)

”خدا اس شخص پر رحم فرمائے جو خرید وفروخت اور تقاضا کرنے میں نرمی اور خوش اخلاقی سے کام لیتا ہے۔“

ایک موقع پر یہ بھی فرمایا:”من سرہ أن ینجیہ الله من کرب یوم القیامة فلینفس عن معسر أو یضع عنہ․“(صحیح مسلم حدیث نمبر4083)

”جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ خدا اس کو روز قیامت کے غم اورگھٹن سے بجائے تو اسے چاہیے کہ تنگ دست قرض دار کو مہلت دے یا قرض کا بوجھ اس کے اوپر سے اتار دے یعنی معاف کر دے۔“

کسی نے اگر قرض لیا ہو اس سے بھی نرم گفتگو اختیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ، کیا معلوم کہ وہ کس پریشانی او رتکلیف میں ہے؟ الله کا کرم اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم دوسروں کو قرض دے رہے ہیں، ورنہ ہمیں بھی وہ محتاج بنا سکتا تھا۔

8…حرام اشیاء کی تجارت نہ کیجیے، جو اشیاء اسلام نے حرام قرار دی ہیں، ان کو مال تجارت بنانا یا ان کی خرید وفروخت کرنا بھی حرام ہے، جیسے شراب، افیون، ہیروئن وغیرہ… اسی طرح لاٹری، سٹہ بازی، قحبہ گری، سودی لین دین، اخلاق سوز فلمیں اورآ ڈیوویڈیو کیسٹس، آلات موسیقی، گانے بجانے کے اسکول یا اکیڈمیاں، اخلاق سوز ناول، فحش لٹریچر اور رسالے وغیرہ اس ممانعت میں شامل ہیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”إن الله ورسولہ حرم بیع الخمر والمیتة والخنزیر والأصنام․“(صحیح البخاری حدیث نمبر:2236)

”الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے شراب، مردار، خنزیر اوربتوں کی خرید وفروخت کو حرام قرار دیا ہے۔“

ایک دوسرے موقع پر فرمایا:”إن الله إذا حرم شیئا حرم ثمنہ“۔ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر4938)

”الله تعالیٰ نے جس چیز کو حرام قرار دیا ہے، اس کی قیمت کو بھی حرام قرار دیا ہے ۔“

مذکورہ حدیث میں اگرچہ بعض چیزوں و کا تذکرہ ہے، مگر جتنے ناجائز امور ہیں، ان سب کا یہی حکم ہو گا، مسلمانوں کو چاہیے کہ حرام او رناجائز چیزوں کو بیع کا مال نہ بنائیں، اس میں گناہ اور عصیان پر تعاون لازم آئے گا، جو بجائے خود غضب الہٰی کو دعوت دیتا ہے۔

9…دکان کو وقت پر کھولیے، کوشش کیجیے کہ صبح کی اولیں ساعتوں میں کاروبار کا آغاز کیا جائے، اس لیے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے صبح کے وقت کیے جانے والے کاموں میں برکت کی دعافر مائی ہے ، خود رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب بھی آپ صلی الله علیہ وسلم چھوٹا دستہ یا بڑا لشکر روانہ کرتے تو دن کے ابتدائی وقت روانہ فرماتے، روایت میں ہے:

”حضرت صخر رضی الله عنہ ایک تاجر تھے، جب وہ اپنے آدمیوں کو تجارت کے لیے روانہ کرتے تو دن کے ابتدائی حصہ میں روانہ کرتے تھے، جس کی وجہ سے وہ صاحب ثروت ہوئے اور ان کے پاس مال کی کثرت وفراوانی ہو گئی۔“

آج مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ صبح سویرے سے تجارت وغیرہ کا آغاز کریں، اس طرح سنت پر عمل ہو گا او ربرکت کا ذریعہ بھی، سنتوں پر عمل کا اور غیب سے سامان فروخت ہونے کا انتظام ہو گا او راگر تمام مسلمان مل کر اس پر عمل شروع کردیں تو خود بخود صبح کاروبار شروع ہونے کا ماحول بن جائے گا، ایسی جگہ جہاں تجارت یا کوئی بھی عمل صبح کی اولین ساعت میں شروع کیا جاسکتا ہے، وہاں اس حدیث پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔

اب تک جن باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ان کا تعلق دنیوی تجارت سے تھا، ایک مسلمان کو دنیوی تجارت اور کاروبار سے زیادہ آخرت کی اس تجارت کی طرف توجہ دینی چاہیے جس کا نفع ابدی اور ازلی ہے، جس پر کبھی فنائیت طاری نہیں ہو گی، جس کی طرف خود الله تعالیٰ نے راہ نمائی کی ہے اور اس کے ذریعہ جہنم کے درد ناک عذاب سے نجات پانے کی تلقین کی ہے ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا ہَلْ أَدُلُّکُمْ عَلَی تِجَارَةٍ تُنجِیْکُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِیْمٍ،تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَتُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُون﴾․(الصف:11-10)

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچائے؟ ایمان لاؤ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم پر اورجہاد کرو الله کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے، یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔“

اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ دنیوی تجارت بھی اسلامی اصول وضوابط کے مطابق انجام دیں! اس لیے کہ ایمان والے اسلامی اصول کے پابند ہیں، اگر تجارت قرآن وحدیث کی روشنی میں بتائے گئے اصول کے مطابق انجام دیں تو یہ اسلامی تجارت کہلائے گی اور دنیوی سرگرمیاں بھی فکر آخرت کی دائرے میں شامل ہو جائیں گی، آج ہم اپنے کاروبار کا جائزہ لیں، کیا ہماری تجارت، دکانیں اور اقتصادی سرگرمیاں بتائے گئے اصول کے مطابق ہیں؟ آج ہر آدمی کی خواہش ہی مال ودولت جمع کرنا ہے، خواہ وہ حلال راستے سے ہو یا حرام طریقے پر، جس کے سبب مسلمان گھروں سے روحانیت ختم ہوگئی ہے، مال کی کثرت کے باوجود زندگی اور عمل میں خیر وبرکت نہیں، حقیقی سکون اور قلبی طمانینت سے ہم محروم ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ روح کو بالیدگی اورقلب کو سکون ملے، پُر لطف زندگی آپ کو پیاری ہے تو اسلامی تجارت کو اپنائیے اور اسی کے ساتھ اس تجارت کو کبھی ذہنوں سے اوجھل نہ ہونے دیجیے جو جہنم کی جھلسا دینے والی آگ سے نجات دلانے والی ہے کہ یہی کام یابی حقیقی کام یابی اور لازوال عیش ہے۔

مفتی تنظیم عالم قاسمی
ماہنامه الفاروق
جمادی الاول 1437ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں