ایک اُستاذ ومربی کا والہانہ تذکرہ قابلِ فخر شاگرد کی زبان سے

شیخ الحدیث مولانا عبدالمتینؒ

شیخ الحدیث مولانا عبدالمتینؒ

شیخ الحدیث مولانا عبدالمتین کی وفات حسرتِ آیات پہ تعزیت کے لیے ملکی سطح کے جید علمائے کرام کی آمد کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے، صدرِ وفاق، شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان مدظلہ بھی گزرے ہفتے اپنے مایہ ناز شاگرد کی تعزیت کے لیے تشریف لائے اور ہمارے اداس ، غم زدہ اور ٹوٹے ہوئے دلوں کو ایک حوصلہ دیا کہ یہ غم آپ ہی کا نہیں، ہم سب کا ہے، اس حادثہ پہ جامعہ جابر بن عبدالله ہی نہیں، جامعہ فاروقیہ بھی اداسی کی لپیٹ میں ہے۔ ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا مدتوں پورا نہیں ہو گا، ان کے بعد قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے صاحب زادہ مولانا محمد انس کو کال کی اور فرمایا کہ مولانا عبدالمتین سے میرا تعلق بہت پرانا اور گہرا تھا، وہ میرے بھائیوں کی طرح تھے، ان کی وفات سے ہم سب رنجیدہ ہیں، ان کی دینی خدمات قابلِ تحسین ہیں، ہم سب ان کے اعلیٰ درجات کے لیے دعا گو ہیں، یہ ہم سب کا مشترکہ سانحہ ہے۔

گزشتہ جمعرات کو حضرت استاجی مولانا عبدالمتین کے شاگرد خاص مولانا منظور احمد مینگل کراچی سے تعزیت کے لیے تشریف لائے، آپ نے اپنی آمد سے جہاں حضرت کے متعلقین کو تسلی دی ، وہاں حضرت کی زندگی کے کچھ ایسے چھپے گوشوں پہ بات کی، خود بھی روتے رہے او رہمیں بھی رلاتے رہے، بہت محبت ان کے انداز میں دیکھی، حضرت استاجی کے تینوں صاحب زادوں اور آپ کے بھائی قاری عبدالرشید سے معانقہ کیا، بوسہ لیا اور تعزیتی کلمات کہے، کمرے میں بیٹھتے ہی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور سسکیوں میں دعا کی، دعا کے بعد جن خیالات کا اظہار انہوں نے کیا ان سے استاذ شاگرد کے بے مثال تعلقات کا بخوبی اندازہ ہوتاہے، آپ نے مولانا انس سے فرمایا کہ ”عبدالمتین آپ ہی کا والد نہیں، میرا بھی والد تھا، وہ ایک باکمال شخص تھا، میں اسی وقت حاضر ہوتا، لیکن دبئی میں تھا۔ وہاں پہ مجھے اس حادثہ کی اطلاع ملی، استاد جی کے جانے سے ہم سب یتیم ہو گئے ( آپ روپڑے، خاموش رہے)۔ تب میں نے اس غم ناک خاموشی کو توڑا ، پوچھا کہ، حضرت! آپ نے استادجی سے کون سی کتب پڑھی ہیں؟ فرمایا، حماسہ، شرح جامی اور مشکوٰة ثانی، آپ کو معلوم ہے کہ وہاں جامعہ فاروقیہ میں استادجی کو متنِ متین کہا جاتا تھا، کتاب اس طرح پڑھاتے کہ حق ادا کر دیتے، وہ ایک جید مدرس تھے اور حضرت شیخ سلیم الله خان کے بہت ہی خاص، میں چار سال کا تھا ، جب میرے والد کا انتقال ہوا، ہم خانہ بدوش لوگ تھے؟ میرا والد ایک چرواہا تھا، مجھے اپنا والد یاد نہیں، چار سال کی عمر میں کیا یاد رہتا ہے، میں نے پنے والد کے روپ میں ایک ہی آدمی کو دیکھا ہے اور وہ (استادجی) عبدالمتین ہے، (آپ روپڑے)، استاجی میرا بہت خیال کرتے تھے، میں بہت ذہین تھا، وفاق کے امتحانات میں پورے ملک میں پہلی پوزیشن حاصل کرتے تھے، استاجی مجھے افلاطون کہتے تھے، جب میں سادسہ میں پہنچا تو چوں کہ میں اذان تو پہلے ہی سے دیا کرتا تھا، حضرت شیخ سلیم الله خان نے مجھے فاروقیہ میں امام بنا دیا، استاجی کو معلوم ہوا تو شیخ سے سخت اختلاف کیا، ان سے کہا بھی کہ آپ اس کو امام بنا کے ضائع کردیں گے، یہ پڑھائی سے نکل جائے گا، لیکن شیخ صاحب اپنے فیصلے پہ قائم رہے، آپ نے مجھے سے بھی اور میرے بھائی مولانا صادق  سے بھی کہا کہ امامت اس وقت درست نہیں، ہم سے ناراض بھی رہے، ایسا کون پرائی اولاد کے لیے کرتا ہے؟ لیکن اس کے بعد آپ کی اور توجہ میرے حصہ میں آگئی، مجھے ایک دن سادسہ والے سال بلایا اور فرمایا کہ اگر تیری اول پوزیشن نہ آئی تو میں تمہیں ذبح کردوں گا، الله کے فضل سے پھر پوزیشن آگئی، اتفاق سے ایک دن ایسا ہوا کہ اتفاق سے مجھ سبق نہیں یاد تھا، مجھے کہا کہ کتاب اٹھاؤ اور باہر کھڑے ہو جاؤ، اب مجھ سب دیکھ رہے ہیں، طلباء بھی، اساتذہ بھی اور محلے والے بھی، لیکن حضرت نے میری بہتری کے لیے یہی ضرور سمجھا، میں اپنے بھائی سے نہیں ڈرتا تھا، بھائی نے کسی روز آکے استاجی کو بتا دیا کہ یہ خارجی کتب زیادہ پڑھتا ہے ، درسی کتب پہ دھیان نہیں دیتا، استاجی نے مجھے بلایا اور اپنا سر نیچے ہی جھکائے رکھا، جیسا کہ آپ کی عادت تھی، فرمایا کہ اگر اس سال تیری اول پوزیشن نہ آئی تو میں قبر تک تجھے معاف نہیں کروں گا، تیرے لیے بد دعائیں کروں گا، میں نے کہا کہ استاجی میں کوشش کر رہا ہوں فرمایا خاک کوشش کر رہے ہو، مجھے معلوم ہے سب کچھ اور جب اخبار میں امتحانات کے نتائج آئے، تو میری پہلی ہی پوزیشن تھی، اخبار اٹھا کے شیخ صاحب کو مبارک باد دینے گئے، پھر مجھے کمرے میں بلایا، آپ نے اپنی نشست سے کھڑے ہو کر میرا استقبال کیا، مجھے سینے سے لگایا اور فرمایا کہ اس دن ہی کے لیے میں تم پہ سختی کرتاتھا، جاؤ، اب تم آزاد ہو، دین کی خدمت میں لگ جاؤ، پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا، پھر آپ نے ہی مجھے تدریس پہ لگایا، میرے بھائی کو آپ نے شیخ سلیم الله خان سے زبردستی کرکے تدریس پہ لگایا تھا، حضرت شش پنج میں تھے، استاجی نے فرمایا کہ اگر آپ کو عبدالمتین پہ اعتبار ہے تو محمد صادق کو مدرس رکھ لیں۔

آپ کی نظر مال پہ کبھی نہیں تھی، آپ ہم جیسے یتیموں سے محبت کرتے تھے، میرے پھٹے پرانے کپڑے ہوتے تھے، ڈیڑھ روپے کا ایک صابن ملتا تھا اس دور میں ، اس کا نام تھا”ایک سو ایک“ اسی سے پورے مہینہ میں کپڑے بھی دھوتا اور نہاتا بھی اسی سے تھا، والدہ ٹوپیاں بناتی تھیں، بیس تیس روپے میں وہ ٹوپی بکتی اور ہمارا خرچہ چلتا، استاجی کی محنت، ان کی جوتیاں اٹھانے کی برکت کہ میں آج اس مقام پہ ہوں کہ جہازوں کے ٹکٹ بھی واپس کر رہاہوں، کبھی کھانے کو بھی نہیں ہوتا تھا، میں نے جب پہلے سال قرآن مجید سنایا تو پورے قرآن مجید میں کوئی غلطی نہیں آئی، آخر میں سورہ مطففین میں پھنس گیا، استاجی کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ تمہارے اندر تکبر پیدا ہو گیا تھا، اس لیے فوری علاج بھی ہو گیا، آپ نے فرمایا کہ جب دو سال قبل میں یہاں آیا تھا تو (ساتھیوں کو یاد ہے، حضرت نے میری طرف اشارہ کیا) استاجی نے مجھے اپنی نشست پہ بٹھادیاتھا، اس دن میں بھی روتا رہا اور استاجی بھی روتے رہے، وہ ہمارے والد تھے، میں آج تعزیت کے لیے نہیں آیا، اس کا حق دار تو میں ہوں، کوئی مجھ سے تعزیت کرے، میری آپ حضرات ( حضرت استاجی کے صاحب زادوں کو خصوصاً مخاطب کیا) سے یہی گزارش ہے کہ جواں مردی سے استادجی کے مشن سے جڑے رہیں، ایک دن میں کوئی آدمی عبدالمتین نہیں بنتا، ایک ہفتہ میں کوئی شیخ سلیم الله بھی نہیں بنتا، اس کے لیے مسلسل محنت درکار ہوتی ہے، اپنے علاقے اور ملک کے دیگر اکابر علما سے اپنا تعلق برقرار رکھیں، شیخ سلیم الله خان کو خط لکھا کریں ، اپنے خاندان کے بڑوں اور استاجی کے متعلقین سے قریبی روابط رکھیں، استاجی مولانا عبدالمتین  نے ساری زندگی الله کے دین کی خدمت کی، مجھے امید ہے کہ الله آپ کو ضائع نہیں کرے گا، بس آپ میرے بھائی ہیں، آپ کی والدہ میری بھی والدہ ہیں، میری طرف سے تعزیت بھی کریں اور دعاؤں کی درخواست بھی، انہیں بتانا کہ آپ کا بیٹا آیا تھا، اس دوران آپ بھی روتے رہے، محفل میں موجود دیگر حضرات بھی روتے رہے، اس کے بعد استاجی کی قبر پہ گئے، فاتحہ پڑھی، قبرستان سے نکلتے وقت مجھ سے فرمایا کہ آپ نے ”سوانح وافکار علمائے چھچھ“ میں استا جی کا ذکر بہت مختصر کیا ہے، میں نے عرض کیا کہ حضرت استاجی اول تو اس کام کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے تھے، بڑی مشکل سے میں نے انٹرویو کے لیے ان کو راضی کیا تھا، کتنی بار تو ڈانٹ دیا تھا انہوں نے مجھے، پھر یہ کہ اس کتاب میں ہر آدمی کی اپنی کہی ہوئی باتیں اور تحریریں تھی، میں اضافہ بھی نہیں کر سکتا تھا، اب حضرت کی وفات کے بعد روزنامہ اسلام سمیت دیگر جگہوں پہ تین کالموں میں تفصیل سے ان کے حالات بیان کیے ہیں، ایک کالم تو پانچ اقساط میں تھا، آپ نے فرمایا کہ خیر اب استاجی تو چلے گئے، آپ مزید کام کریں اور کوئی مفصل کام ان کی زندگی کے حوالے سے کریں، میں نے وعدہ کیا کہ ان شاء الله یہ کام ضرور ہو گا، آخر میں حضرت مدرسہ جامعہ جابر بن عبدالله گئے، اس موقع پر مولانا منظور احمد مینگل نے طلبا سے کچھ دیر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور طلباء کو محنت کی تلقین کی، استاجی کے مشن سے جڑے رہنے کا درس دیا اور پھر اجازت لی اور واپس رورانہ ہو گئے۔

محترم محمد عزیر عاصم
ماہنامه الفاروق
جمادی الاول 1437ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں