ممتاز قادری کی سزائے موت۔ چند قابل غور پہلو

ممتاز قادری کی سزائے موت۔ چند قابل غور پہلو

سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مجرم ممتاز قادری کو گزشتہ روز علی الصباح راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

ممتاز قادری کو دی جانے والی سزائے موت کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ واضح رہے کہ ممتاز قادری کے خلاف پہلے انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سزائے موت کا حکم دیا، پھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا اور پھر گزشتہ برس دسمبر میں سپریم کورٹ نے بھی ممتاز قادری کی درخواست مسترد کردی۔ صدر ممنون حسین نے بھی چند روز قبل ممتاز قادری کی رحم کی اپیل مسترد کردی تھی۔
ممتاز قادری کی سزائے موت نے ملک کے اندر انتشار اور بے چینی کی جس لہر کو جنم دیا ہے، اسے ملک و قوم کے مستقبل کے لیے اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نہیں کہا جاسکتا کہ اس صورت حال کے بطن سے ملک و ملت کے لیے آئندہ کس نوعیت کے حالات و واقعات نمودار ہوں گے اور قوم کو کن کن آزمائشوں اور بحرانوں سے مزید گزرنا پڑے گا۔ ممتاز قادری کی سزائے موت بادی النظر میں جرم و سزا کی معمول کی کاروائی لگتی ہے لیکن اتنی سادہ اور معمولی نہیں جتنی کہی، سمجھی اور سمجھائی جارہی ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ یہ سارا معاملہ ہشت پہلو حیثیت رکھتا ہے اور ملک کے سنجیدہ حلقے اس پر کئی حوالوں سے غور و فکر کررہے ہیں۔ چناں چہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ریاست قانون و انصاف کے متعین پیمانے رکھتی ہے اور معاشرے میں قیام امن اور فتنہ و فساد کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے، جب ہر عام و خاص ملکی قوانین اور ریاستی ضوابط کا احترام اور پاس داری کرے گا۔ ممتاز قادری نے جس پس منظر کے تحت ریاست کے اہم منصب دار کا قتل کیا، یقیناً قانون اور آئین کے تحت اس کی گنجائش نہیں نکلتی، لیکن ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلمان تاثیر نے جس آئین اور قانون کی پاس داری کا حلف اٹھایا تھا، اسے ان کی جانب سے ’’کالا آئین‘‘ کہنے کی کتنی اور کس حد تک گنجائش ہے۔ اگر ممتاز قادری محض اس بنا پر گردن زدنی ٹھہرا کہ اس نے ریاستی قانون کو دن دہاڑے چیلنج کیا تھا تو سلمان تاثیر کے ’’اقبالی جرم‘‘ کا ریاست اور عدلیہ نے کس حد تک نوٹس لیا تھا۔ پھر یہ بھی سامنے کی بات ہے کہ کراچی سمیت ملک کے طول وعرض میں سیکڑوں جید علماء کرام کا خون ناحق بہایا جا چکا ہے، لیکن آج تک کسی ایک کے قاتل کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔ قوم ارباب اقتدار سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ علماء کرام اور جید مشایخ عظام کے قاتلوں کو قانون کا شکنجہ اپنی گرفت میں نہیں لے سکا، لیکن ایک گورنر کے قاتل کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا؟ یہ تفریق کیوں کرروا رکھی جارہی ہے؟ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ملکی عدالتوں میں قتل کے ہزاروں مقدمات سالہا سال سے زیر التوا ہیں اور کتنے ایسے ہیں جن کے فیصلوں کو ایک طویل عرصہ بیت چکا، لیکن عمل درآمد کا دور دور تک نام و نشاں نظر نہیں آرہا۔ اس کے برعکس سلمان تاثیر قتل کیس میں تیزی سے عدالتی مراحل کو طے کیا گیا اور قاتل کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا، جس نے واضح کردیا کہ یہاں امیر و غریب، حاکم اور محکوم اور اعلی و دنیٰ کی تفریق کا رنگ بہت گہرا ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب انصاف کے لیے مارا مارا پھرتا رہتا ہے اور اسے انصاف مل کر نہیں دیتا، لیکن کسی مقتدر شخصیت کے ساتھ ہونے والے زیادتی کا نہ صرف اعلیٰ سطح پر نوٹس لیا جاتا ہے بلکہ حسب موقع رد عمل بھی دیا جاتا ہے۔ یقیناً یہ طبقاتو تفاوت ریاستی نظم کے آگے بڑا سوالیہ نشان ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بطور خاص مد نظر رکھی جانی چاہیے کہ اس وقت پوری دنیا میں عالمی طاقتیں سزائے موت کے خاتمے کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں، لیکن پاکستان سمیت دنیا بھر میں اسلام پسندوں کو دی جانے والی سزائے موت پر ان طاقتوں کو نہ صرف سانپ سونگھ جاتا ہے بلکہ الٹا ان کی جانب سے اس پر اطمینان و خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر پائی جانے والی یہ منافقت غماز ہے کہ دنیا بھر میں اسلام اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کے خلاف چھیڑی جانے والی جنگ کے شعلے مملکت خداداد کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں اور یہ عمومی تاثر تقویت پاتا جا رہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے مقتدرطبقہ محب وطن عوام کے جذبات و احساسات اور ترجیحات کے علی الرغم ملک کو لبرل ازم بنانے کی منزل درجہ بہ درجہ طے کررہا ہے۔ چناں چہ قوم کی غالب اکثریت اس پر شدید تشویش و خلجان میں مبتلا ہے۔ حکمرانوں، سیاست دانوں، افواج پاکستان اور ملک کے تمام سنجیدہ و فہمیدہ طبقات کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ منفی تاثر وطن عزیز کے استحکام اور بقا کے لیے سخت خطرے کی گھنٹی ہے۔ اسلام پاکستان کی بنیاد اور ذریعہ بقا ہے۔ اگر حکمران آئین و قانون کی بالادستی یقینی بنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آئندہ کسی کو آئین پاکستان کو کالا آئین کہنے کی جوأت ہوسکے۔ عقیدہ ختم نبوت آئین پاکستان کا جزو لاینفک ہے اور روز اول سے دین بیزار لابی کی کوشش رہی ہے کہ وہ کسی طرح اس شق کو ختم یا غیر مؤثر بنادے۔ 2011ء میں ایسی ہی ریشہ دوانیاں کے نتیجے میں پورا ملک سراپا احتجاج بن چکا تھا۔ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہییں کہ جن کے نتیجے میں آئیں کی یہ شق مزید مؤثر اور محفوظ بن سکے، کیوں کہ یہ براہ راست ہمارے عقیدے اور ایمان کا تقاضا ہے۔ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہر صاحب ایمان پر اپنی جان و مال کی حفاظت سے بڑھ کر لازم ہے۔ اگر اب بھی حکمرانوں نے مؤثراقدامات کی بجائے زبانی جمع خرچ سے کام لیا اور اس باہت سستی اور عدم توجہ سے کام لیا گیا تو آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی نظریاتی اساس پر زد لگانا عالمی طاقتوں کا مقصد اولیں ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام قومی طبقات کو ہوش مندی اور عاقبت اندیشی سے کام لینا ہوگا۔ کسی بھی طرح کا تصادم اور باہمی جنگ و جدل کے ماحول سے معاملات سمجھنے کے بجائے بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ حکومت کے اسلام بیزار اقدامات کے خلاف احتجاج کے لیے سنجیدہ اور پر حکمت راستہ اختیار کرنا ناگزیر ہے۔ اس کے لیے اولاً علماء کرام کو میدان میں آنا چاہیے اور قوم کو فکری ارتداد کے طاغوتی منصوبے کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے اپنے حصہ کا کام پہلے سے بڑھ چڑھ کرنا چاہیے۔ یہ امر قابل اطمینان ہے کہ ان ساعتوں میں اگر ایک طرف عالمی طاقتوں کے مقامی آلہ کار اپنی کوششوں میں پیش رفت کررہے ہیں تو دوسری طرف دین اور اہل دین سے ایک عام مسلمان کا تعلق اور ربط ضبط بھی پہلے سے بڑھ رہا ہے۔ ثانیاً محب دین و وطن سیاست دان، با اثر شخصیات اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والے طبقات تک فوری رسائی اور ان کی ذہن سازی اور انہیں اس ضمن میں اپنے فرائض و واجبات کی بجا آوری کی یاد دہانی ضروری ہے۔ ثالثاً عامۃ المسلمین کا بھی فرض ہے کہ وہ ملک و ملت کے خلاف کی جانے والی گہری سازشوں کا ادراک کریں اور اپنے دین و ایمان پر زد لگانے والے عناصر و طبقات سے ہوشیار و باخبر رہیں۔

اداریہ روزنامہ اسلام
یکم ؍مارچ ؍2016ء


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں