ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

حسب معمول جب میں گھر سے یونی ورسٹی کے لیے نکلا تو گلی میں کھڑے چند پولیس اہلکاروں کو دیکھ کر یہ گمان ہوا کہ آج شاید پھر کسی معصوم شہری کی شامت آئی ہے۔ جیسا کہ گزشتہ دنوں سے یہ روایت چل پڑی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پیسوں کی اشد ضرورت کی وجہ سے کسی بے گناہ شہری کو اٹھا کرلے جانا اور پھر ۲۰ سے ۳۰ ہزار لے کر چھوڑدینا۔۔۔ جب قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ ان پولیس اہلکاروں کے ساتھ کچھ خواتین اور مرد حضرات بھی کھڑے ہیں۔ ان میں سے ایک خاتون اپنے کندھوں پر آئس باکس Ice Box لٹکائے ایک دروازے پر دستک دے رہی تھی، پتا چلا کہ یہ پولیو ورکرز ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے پولیس اہلکار نہیں تحفظ Protection دے رہے ہیں۔ میں نے مزید وہاں رکنا وقت کا زیاں سمجھتے ہوئے موٹر سائیکل کی رفتار بڑھادی۔ میں بذات خود تو وہاں سے روانہ ہوچکا تھا مگر میرا ذہن بار بار مجھ سے یہ سوال کررہا تھا کہ آخر انہیں پولیو کے چند قطرے پلانے میں پولیس پروٹیکشن کی ضرورت کیوں پڑی؟ اور ان قطروں میں ایسا کیا ہے جو یہ اپنی جان پر کھیل کر لوگوں کے گھروں میں جاکر پلارہے ہیں؟
کیا یہ قطرے بچوں کو اسپتالوں میں نہیں پلائے جاسکتے؟ جیسا کہ دوسری بیماریوں کے لیے دیکسنیشن کی جاتی ہے۔ کیا ہمارے ملک میں پولیو ایک وباء کی طرح پھیل رہا ہے؟ جسے ختم کرنے کے لیے یہ لوگ سروں پر کفن باندھ کر نکلے ہیں؟
کیا ہمارے ملک میں دوسری مہلک بیماریاں ختم ہوگئی ہیں؟ جنہیں سے سے نظرانداز کیا جارہا ہے۔ آخر پولیو کو ہی اتنا اہمیت کیوں دی جارہی ہے؟
میں ان سوالات کے جواب سوچتا ہوا آگے بڑھتا جارہا تھا یہاں تک کہ اپنے ریسرچ سینٹر جا پہنچا اور خیالوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔
کام سے فراغت کے بعد ان سوالات کے جوابات پر ریسرچ کی جس پر حیرت انگیز نتائج سامنے آئے، چاہتا ہوں اسے آپ کے ساتھ شیئر کیا جائے۔
سب سے پہلے ایک نظر ہم اپنے ملک میں موجود دوسری بیماریوں پر ڈالتے ہیں اور اس بات کا تجزیہ آپ خود کرسکتے ہیں کہ ان بیماریوں کے خلاف ہماری حکومت اور ’’محب وطن‘‘ این جی اورز جو اپنے آپ کو اس ملک کا خیرخواہ ثابت کرنا چاہتی ہیں، کیا کارنامے انجام دے رہی ہیں؟
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن W H O کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ پائی جانے والی بیماریوں میں سرفہرست سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریاں ہیں جن کا تناسب ۵۱ فیصد ہے۔ ۲۰۰۶ء میں ان بیماریوں کے ایک کروڑ ۶۰ لاکھ ۵۶ہزار کیسز رپورٹ ہوئے جن میں ۶۔۲۵ فیصد پانچ سال سے کم عمر بچے شامل ہیں جن کی کل تعداد ۴۰ لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں سب سے زیادہ اموات نمونیہ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ بیماریاں جو پاکستان میں زیادہ ہیں ان میں ملیریا بھی شامل ہے۔ جس سے سالانہ ۴۰ لاکھ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ڈائریا ہے جس کے سالانہ ۴۵ لاکھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثرہ ایک کروڑ ۲۰ لاکھ اس ملک میں موجود ہیں جن میں سالانہ ۶۰ لاکھ لوگ ہیپائٹس کی وجہ سے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موجود ۵۰ سے ۶۰ فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں جس کی تعداد کا ایک محتاط اندازہ لگایا جائے تو یہ ۵ کروڑ سے زائد بنتی ہے۔
دیگر بیماریوں میں ٹی بی، انفلوئنزا، شوگر، کینسر، خوراک کی کمی کے باعث ہونے والی بیماریاں، ذہنی اور اعصابی امراض شامل ہیں۔
اب ایک نظر ہم پاکستان میں موجود پولیو کی صورت حال پر ڈالتے ہیں۔ پولیو ایک ایسی بیماری ہے جو صرف پانچ سال سے کم عمر بچوں میں پائی جاتی ہے۔ ۲۰۰ کیسز میں سے صرف ایک کیس فالج ہے جس کا علاج اب تک دریافت نہیں ہوسکا، کی صرت میں سامنے آتا ہے اور ان میں سے ۵ سے ۱۰ فیصد مریض اموات کا شکار ہوتے ہیں۔ اس بات کو اگر آسان الفاظ میں سمجھا جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہمارے ملک میں پولیو کے ۲ ہزار کیسز ہوں تو صرف ۱۰ مریض ایسے ہوں گے جنہیں فالج کا خطرہ ہوسکتا ہے اور ان میں سے صرف ایک مریض کی اپنی جان سے بازی ہارتے کے امکانات موجود ہیں۔ ایک پاکستانی انگریزی اخبار ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ۲۰۱۴ء میں ۲۰۰ سے زائد پولیو کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ مزید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ تر کیسز خیبر پختون خوا اور اس کے بعد کوئٹہ، چمن اور کراچی میں رپورٹ ہوئے۔ یہ تھی ہمارے ملک میں پولیو کی صورت حال۔۔۔
عام طور پر ہمارے معاشرے میں پولیو کے قطروں کے حوالے سے یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ یہ قطرے تولیدی نظام کو متاثر کرنے کا باعث بنتے ہیں اور مغربی ممالک مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ان قطروں کو بطور ہتھیار استعمال کررہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس مفروضے میں کتنی سچائی ہے؟
آیا پولیو کے قطرے واقعی پولیو کی انسداد کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں یا اس کے پس پردہ کچھ اور مقاصد ہیں؟ میں نے اس مفروضے کو غیر جانبدار ہوکر پرکھنے کی کوشش کی اور مندرجہ ذیل مشاہدات سامنے آئے:
۱۔ W H O کی رپورٹ کے مطابق فی الوقت تین ممالک پولیو کی زد میں ہیں جن میں پاکستان، افغانستان اور شمالی نائیجریا شامل ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے علاوہ نائیجریا کی قریباً ۵۰ فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے جو شمالی نائیجریا میں بستے ہیں۔
۲۔ پوری دنیا میں ۲۰۱۴ء میں پولیو کے ۴۱۶ کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے صرف ۱۶۰ کیسز ان تین ممالک میں رپورٹ ہوئے جب کہ ۲۵۶ کیسز کن ممالک میں رپورٹ ہوئے اس کا ذکر WHO کی ویب سائٹ پر موجود نہیں جو خود ایک سوالیہ نشان ہے؟؟؟
۳۔ کئی تحقیقی اداروں نے ویکیسن میں موجود ایک کیمیکل Tween-80 جو کہ شیرہ ساز Emulsifier کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کے مضر اثرات پر تحقیق کی تو اس سے پتا چلا کہ یہ کیمیکل الرجی، اور بانجھ پن کا باعث بن رہا ہے۔
۴۔ ایک انگریز صحافی کرسٹینا انگلینڈ نے ویکیسنز سے متاثرہ بہت سے لوگوں کی کیس اسٹڈی کی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ ویکسین بذات خود متعدد بیماریوں کا باعث بن رہی ہیں،اس کی تفصیل مندرجہ ذیل لنک سے پڑھی جاسکتی ہے۔

Vaccines Can Cause Infertility


http://vactruth.com/author/christina-england/
5۔ کئی ویب سائٹس جن میں پولیو کے خلاف مواد شائع کیے گئے وہ بلاک کردیے گئے۔ آخر ایسا کیوں؟
۶۔ ڈاؤیونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں ایک حالیہ ریسرچ کے مطابق خسرے کی ویکسینیشن کے بعد ۳۰ فیصد بچوں کے خون میں خسرے کے خلاف قوت مدافعت پائی گئی جب کہ ۷۰ فیصد بچوں میں اس مرض سے لڑنے کی طاقت نہیں تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو ویکسینز پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے پلائی جاتی ہے وہ پولیو کے خلاف کس حد تک مؤثر ہیں؟ اور یہ سوال ان تمام ویکسینز سے متعلق ہے جو ہمارے ملک میں کی جاتی ہے اس پہلو پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
مجھے ایک نامور انگریزی اخبار میں یہ خبر پڑھ کر حیرت ہوئی کہ ہمارے ملک کے ایک عالم دین نے فتوی جاری کیا کہ پولیو کی ویکسین میں ایسے اجزاء شامل ’’نہیں‘‘ ہیں جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوں۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آگر آپ کے پیٹ میں درد ہو تو آپ کسی ڈاکٹر سے علاج کرائیں گے یا کسی انجینئر کے پاس جا کر یہ فریاد کریں گے کہ میرے پیٹ میں بہت درد ہو رہا ہے شاید کوئی ’’نٹ بولٹ‘‘ لوز (ڈھیلا) ہوگیا ہوگا۔ بالکل اسی طرح جب ہمیں کوئی سائنسی یا طبی مسئلہ در پیش ہو تو بجائے تحقیقی اداروں کے ہم کسی عالم دین یا مفتی سے کیوں فتویٰ لیتے ہیں؟ اس بات کا سیدھا سا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ’’محب وطن‘‘ این جی اورز کو کسی بات کا خطرہ لاحق ہے جس کی وجہ سے وہ تحقیقی اداروں کی مدد لینے لے بجائے اپنی من پسند بات منوانے کے لیے ایسے افراد سے رجوع کرتے ہیں جو سائنس اور طب کی ’’الف ب‘‘ سے بھی ناواقف ہیں۔۔۔۔ (معذرت کے ساتھ)۔۔۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان تمام اعتراضات کا طبی بنیادوں پر حل تلاش کریں نہ کہ فتووں کا سہارا لیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ وہ بیماریاں جن سے سالانہ لاکھوں لوگ زندگیوں کی بازی ہار رہے ہیں اور جن سے کروڑوں لوگ بے انتہا درد اور تکالیف میں زندگیاں گزار رہے ہیں ان کی ہمیں کوئی فکر نہیں، ہم اپنا سرمایہ، اپنی قوت اور اپنی کوششیں ایک ایسی بیماری پر لگارہے ہیں جو ہمارے ملک کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ہمارے ملک کو کینسر کا مرض لاحق ہے اور ہم نزلہ کھانسی اور بخار کی فکر میں مبتلا ہیں۔ اگر پولیو کے چار کیسز سامنے آتے ہیں تو ہمارے ملک کا میڈیا انہیں اپنی شہ سرخیوں میں لگاتا ہے جب کہ دوسری طرف دیگر جان لیوا بیماریوں سے یومیہ سیکڑوں لوگوں کی خبریں قبروں میں ہی دفن ہوجاتی ہیں۔
ہمارے ملک کے سائنس دانوں کا حال بھی کچھ مختلف نظر نہیں آتا جن کی تحقیق کا مرکز اور محور صرف وہ مسائل ہوتے ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہی نہیں اور اگر کسی محب وطن سائنس دان کے دل میں ان دکھی لوگوں کا خیال پیدا ہوتا ہے تو ہمارا تجارتی طبقہ اس کے راستے میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے جن سے اس کی ساری کاوشوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر ریاض کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ان تمام صورت حال کے برعکس مجھے اس بات سے خوشی بھی ہوتی ہے ہمارے ملک میں چند ادارے اور ایسے سائنس دان جن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک مند، ڈاکٹر عطاالرحمن، ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری ودیگر شامل ہیں، جو ملک کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے محدود وسائل کے باوجود اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کرنے میں مصروف عمل ہیں لیکن وہ ایک ایسے چراغ کی مانند ہیں جن کی روشنی پورے ملک کو روشن کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
مگر مجھے اللہ کی ذات سے یہ امید ہے کہ
جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی

 

تحریر: ریحان احمد صدیقی۔یونورسٹی آف کراچی
دی نیوز ٹرائب


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں