شام میں جنگی کارروائیاں روکنے کے معاہدے کا نفاذ

شام میں جنگی کارروائیاں روکنے کے معاہدے کا نفاذ

شام میں حکومتی افواج اور صدر بشار الاسد کے مخالف باغی گروپوں کے مابین جاری لڑائی کی عبوری بندش کے معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز ہوگیا ہے۔
اگر ’جنگی اقدامات اور کارروائیاں روکنے‘ کے معاہدے پر کامیابی سے عمل ہوتا ہے تو یہ عالمی طاقتوں کی کوششوں کے نتیجے میں شام میں گذشتہ پانچ برس سے جاری خانہ جنگی کے دوران آنے والا پہلا وقفہ ہوگا۔
جنگ بندی کا آغاز جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب بارہ بجے سے ہوا ہے اور اس سے قبل شام میں حکومت کے مخالف مرکزی گروہ نے کہا ہے کہتقریباً 100 متحارب گروپوں نے جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری پر اتفاق کیا ہے۔
اس عبوری جنگ بندی کے معاہدے میں سرکاری فوج اور باغی گروپ شامل ہیں لیکن اس کا اطلاق دولت اسلامیہ اور القاعدہ سے منسلک النصرہ فرنٹ جیسی شدت پسند تنظیموں پر نہیں ہوگا۔
النصرہ نے جمعے کو اپنے حامیوں اور اتحادیوں سے کہا ہے کہ وہ شامی صدر بشار الاسد کی افواج اور ان کے اتحادیوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لائیں۔
شام کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی سٹافن ڈی میستورا نے اعلان کیا ہے کہ اگر جنگی کارروائیاں رکی رہتی ہیں تو شام میں قیامِ امن کے لیے مذاکرات کا عمل سات مارچ کو دوبارہ شروع ہوگا۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی شام میں متحارب فریقین کی جانب سے جنگی اقدامات روکنے کے معاہدے کے حق میں امریکہ اور روس کی جانب سے تیار کی گئی ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی ہے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے شام اور اس کے اہم ترین حلیف روس پر زور دیا ہے کہ وہ بھی معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
انھوں نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’آنے والے دن بہت اہم ہیں اور دنیا کی نظریں ان پر لگی ہوں گی۔‘
تاہم شام سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق روسی فضائیہ کے طیاروں نے ملک میں مجوزہ جنگ بندی سے قبل حکومت مخالف مسلح گروہوں کے ٹھکانوں پر حملے تیز کر دیے تھے۔
روس کا کہنا ہے کہ وہ شام کے مختلف علاقوں میں ’دہشت گردوں‘ کے ٹھکانوں پر بمباری کرتا رہے گا۔
روس کے صدر ولادی میر پوتن نے کہا ہے کہ روس کی فضائیہ النصرہ فرنٹ اور دولت اسلامیہ سمیت ایسے شدت پسندگروہوں کو نشانہ بنا رہی ہے جنہیں اقوام متحدہ نے جائز ہدف قرار دے رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان گروپوں کے خلاف ’فیصلہ کن لڑائی بلا شک و شبہ جاری رہے گی۔‘
خیال رہے کہ عالمی طاقتوں نے 12 فروری کو ایک ہفتے کے اندر شام میں عارضی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن مقررہ وقت پر جنگ بندی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگا تھا۔
تاہم پھرروس اور امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ 26 اور 27 فروری کی درمیانی شب جنگ بندی کا آغاز ہوگا۔
خیال رہے کہ شام میں مارچ 2011 سے شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک ڈھائی لاکھ سے زیادہ شامی شہری ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ بےگھر ہونے والوں کی تعداد تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ ہے جن میں سے 40 لاکھ کو دوسرے ممالک میں پناہ لینا پڑی ہے۔

بی بی سی اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں