عقل اللہ کی عظیم نعمت ہے، اس کی قدرکیجیے

عقل اللہ کی عظیم نعمت ہے، اس کی قدرکیجیے

اچھائی یابرائی اور نفع نقصان میں تمیز اور فرق سمجھنے اور اسی کے مطابق عملی اقدام کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کوعقل سے نوازا ہے، عقل حقیقت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، اس کا صحیح استعمال کرکے اپنے دین اور دنیا دونوں کو بہتر اور اپنے لیے کامیاب بناسکتاہے، جبکہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہمارے معاشرے میں اور اردگرد پائے جاتے ہیں جواپنی عقل اورسمجھ کوغیرشرعی، غیرقانونی سرگرمیوں میں استعمال کرتے اور اس کے نتیجے میں اپنی عدنیا بھی تباہ کرتے ہیں اور آخرت بھی برباد کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے باربار انسان کو تلقین کی ہے اپنی عقل کو استعمال کرو اور اللہ کی نشانیوں میں غور و تدبر کرکے اس کے احکام کی اتباع اور فرماں برداری کرو اور اس کی منہیات سے پرہیزکرو۔ متعدد مقامات پر ان لوگوں کا ذکر ہے جواپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے جہنم میں داخل کیے جائیں گے اور انھیں اپنے کیے ہوئے کا اس وقت بہت افسوس ہوگا، مگر وہ وقت افسوس کرنے نہیں ہوگا، اس وقت تو بس اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’ اور وہ کہیں گے کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزاواروں میں نہ شامل ہوتے‘‘ ۔ (سورۂ ملک :10)
دوسری جگہ عقل والوں اور بے عقلوں کے درمیان واضح فرق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا: ’’بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے رب کی اس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہے، ا ور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے اندھا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں، نصیحت تو دانشمند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں‘‘۔ (سورۂ رعد:19)
جو لوگ آنکھ، کان اور عقل و شعور ہوتے ہوئے بھی نافرمانی کرتے اور احکامِ الہی سے سرتابی کرتے ہیں، ان کے بارے میں فرمایا گیا: ’’ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے اور ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں‘‘۔ (سورۂ حج:46)
احادیث ِ مبارکہ میں ہمارے محبوب نبیﷺنے بار بارعقل کی فضیلت و اہمیت کو بیان فرمایا اور اسے مفید کاموں میں صرف کرنے کی ہدایت دی ہے، حضرت عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ایسی بہترین عقل جو انسان کی راہ ِ صواب کی جانب رہنمائی کرے اور ہلاکت و برائی سے اس کو روک دے، اس سے بہتر کوئی اور چیز اس کو نہیں ملی، اور کسی بندے کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا ہے، نہ ہی اس کا دین درست ہو سکتا ہے جب تک کہ اس کی عقل مکمل نہ ہو‘‘۔(مسند الحارث:813)
عقل ایک ایسا ملکہ ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کائنات کی دیگر مخلوقات کے مقابلہ میں امتیاز عطا کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ خاص تحفہ عطا کیا ہے، اسلام نے اس کی حفاظت کا اہتمام کیا ہے اور زندگی کے ہر شعبے اور ہر موقعے پر اس کی قدرکرنے، اس کے صحیح استعمال کرنے اور اس کو نفع بخش امور میں صرف کرنے پرزوردیاہے، اگرانسان اپنی عقل و شعور کومحفوظ رکھتاہے، تو اس طرح خود انسان مختلف نقصانات اور مضرتوں سے محفوظ رہ سکتاہے، قابلِ احترام چیزوں کو محفوظ رکھا جا سکتاہے، عبادات اور تمام دینی، معاشرتی و خاندانی ذمہ داریوں کو ادا کیا جا سکتاہے اور معاشرہ ترقی اور بلندی کی منزلیں طے کر سکتاہے۔
یہی وجہ ہے کہ شرعی و قانونی امور کا مکلف ٹھہرانے کے لئے ہمارے دینِ متین نے عقل کو ایک بنیادی شرط قراردیا ہے، اسی لئے بہت سی آیات کریمہ اور احادیث شریفہ میں عقل کی حفاظت کرنے، علم و معرفت کے ذریعے اس کو پروان چڑھانے اور اس کو معطل کرنے، یا اس کو خراب کرنے اور اس کی صلاحیت کو کمزور کرنے والی ہر چیز سے اجتناب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، شریعت نے کھانے، پینے، سونگھنے یا جسم میں داخل کرنے والی ہر اس چیز کو حرام قرار دیا ہے جو عقل کو ضرر پہنچائے یا اس کو معطل کرکے رکھ دے، اسلام نے علماء، مفکرین اور مجتہدین جیسے عقلِ سلیم رکھنے والے انسانوں کو بلند مقام عطا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘۔(سورۂ مجادلہ:11)
بلاشبہ عقل کا خیال رکھنا، اس کی عافیت و سلامتی کی حفاظت کرنا انسان کے لئے متوازن و مضبوط اور مفید و کار آمد عمل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے جس سے خود انسان کی اپنی ذات کو اور پورے ملک و قوم کو فائدہ ہوتا ہے، وہ انسان جس پر صحیح دین اور عقلِ سلیم کا کنٹرول ہو، جو ہر قسم کے شوائب سے پاک ہو، اس کے تمام اعمال و تصرفات صحیح بنیادوں پر انجام پاتے ہیں، وہ خواہشِ نفس، جلد بازی، اور جذباتیت سے دور رہتا ہے، اس لئے عقل ہی وہ چیز ہے جو افراد اور قوموں کو خیر کی جانب لے جاتی ہے، افراد کی کامیابی، قوموں اور امتوں کی ترقی، روشن و سلیم عقلوں کی حفاظت کی مرہونِ منت ہے، جو ہر چیز میں وسطیت و اعتدال پر یقین رکھتی ہوں، دین و دنیا کے درمیان توازن قائم کرتی ہوں، اس کے نتیجے میں ایک معاشرہ مضبوط و مستحکم اور باہم مربوط ہوجاتا ہے جو اپنی اور پوری انسانیت کی سعادت و کامیابی کے لئے کوشاں رہتا ہے۔
موجودہ وقت میں جہاں تعلیم کے ذرائع اور وسائل مسلسل روزافزوں ہیں اور انسان اپنی عقل اور قوتِ فہم کو استعمال کر کے مادی اعتبار سے ترقیات کے نئے نئے مدارج طے کر رہاہے اور کامیابیوں کی بڑی سے بڑی منزل سرکر رہاہے، وہیں ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلسل بھاگ دوڑوالی اور مصروف زندگی سے اکتاکر بہت سے لوگ غلط راہ پربھی چل پڑتے اور کھانے پینے کی بہت سی ایسی چیزوں کا بھی استعمال کر بیٹھتے ہیں، جن سے وقتی طور پر ہی سہی ان کی عقلیں مخبوط ہوجاتیں اور ان کی سمجھ ختم ہوجاتی ہے اور اس کے نتیجے میں بہت سے غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر شرعی جرائم بھی رونما ہوجاتے ہیں۔ اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ اپنی قوتِ کار اور صلاحیتوں کو نفع بخش امور میں صرف کریں اور ساتھ ہی ان کو اپنی اخلاقی و روحانی ترقیات کے حصول میں بھی صرف کریں، جہاں ہم دنیاوی مراتب اور کامیابیوں کے حصول کے لیے اپنی عقلوں کا استعمال کرتے ہیں، وہیں ہمیں اپنی سمجھ بوجھ کا استعمال دین کی سمجھ، دنیا کی حقیقت کو جاننے اور شریعت کو سمجھنے میں بھی صرف کرنا چاہیے، جب ہمارے سامنے دنیا کی حقیقت واضح ہوگی اور اپنی زندگی کا مقصد واضـح ہوگا، تو پھر ہماری زندگی میں توازن آئے گا اور ہم اپنی عقل کو مادی ترقیات کے حصول میں استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ روحانی ترقیات کے حصول میں بھی صرف کریں گے۔ بہت سے نوجوان تعلیم یافتہ ہونے اور مالی آسودگی سے ہم کنار ہونے کے باوجود نشہ خوری جیسی لعنت کے شکار ہوجاتے ہیں اور اس طرح اپنی عقلوں کو ضائع کرتے اور نتیجتاً مختلف بری عادتوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، حالاں کہ ایسا کرنا نہ صرف یہ کہ خود اپنی ذات، خاندان، معاشرہ اور ملک کے لیے نقصان دہ ہے؛ بلکہ ہماری شریعتِ مطہرہ میں بھی اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے اور ہر اس کھانے پینے کی چیزسے روکا گیاہے، جس کی وجہ سے انسان کی عقل ضائع ہوجاتی ہے اور انسان برے اعمال و اخلاق کا ارتکاب کرنے لگتاہے۔ عقل اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک نہایت ہی عظیم اور بے مثال نعمت ہے، اس کی قدر ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اور ہر موڑ پر کرنی چاہیے اور اس سلسلے میں ہمیں قرآنِ مقدس احادیثِ نبویہ سے ہدایت حاصل کرکے اپنی عملی زندگی کو اِس دنیا میں بھی کامیاب بنانے کی فکر کرنی چاہیے اور آخرت کے لیے بھی کامیاب بنانا چاہیے۔

مولانا اسرارالحق قاسمی
بصیرت فیچرس


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں