وحدتِ امت– وقت کی بڑی ضرورت

وحدتِ امت– وقت کی بڑی ضرورت

اتحاد امت، شرعی اور سماجی ضرورت ہے جب کہ اختلاف رائے کا وجود فطری ہے، اس لیے ہم شرعی ضرورت کے پیش نظر اتحاد امت کے پابند ہیں اور فکر ونظر کے اختلاف کے باوجود اتحاد امت اور وحدت امت کو اپنی ایمانی اور اسلامی زندگی کا نصب العین سمجھتے ہیں، اختلاف کلمۂ واحدۃ کے ماننے والوں کے درمیان عقائد کا ہویا فروعی مسائل کا ، ان اختلافات کو عملی زندگی میں برتنے کے بھی کچھ شرعی اصول وحدود ہیں، حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ فرمایا کرتے تھے کہ اختلاف کی سر حدوں کو پہچاننا چاہیے اور اعتدال وتوازن کے ساتھ احکام ومسائل کے بیان کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
یہاں اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اتحاد امت کا مطلب تمام مذاہب ومسالک کا ادغام یا تمام مذاہب ومسالک سے مشترکہ چیزوں کو لے کر نیا مذہب بنانا نہیں ہے؛ بلکہ اتحاد امت کا مطلب اپنے مسلک ومذہب پر عامل رہتے ہوئے دوسرے مسلک ومذہب والوں کا احترام اور فروعی مسائل کو نزاعی بنانے سے اجتناب ہے؛ اسی طرح اختلاف رائے سے مراد وہ اختلاف وافتراق ہے جو امت اجابت کے درمیان ہے،امت دعوت یعنی غیر مسلموں سے اتحاد مراد نہیں ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مسلمان ایک امت ہیں، ان کے اتحاد کی بنیاد کلمہ ، قبلہ، کتاب اور رسول کا ایک ہونا ہے،ان کے علاوہ عقیدۂ آخرت ،دخول جنت وجہنم، نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ کی فرضیت ، جہاد اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی مشروعیت میں سبھی متحد ومتفق ہیں؛ اس لیے مسلمان ایک امت ہیں؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو دو آسمانی مذاہب کے ماننے والے یہودی اور نصرانی تک کو بعض امور مشترکہ کی وجہ سے ایک امت کہہ کر ان کے خلجان اور خدشات کو دور کیا ،جس کا حاصل یہ ہے کہ جو دین اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا اور انبیاء سابقین جس دین کے حامل رہے، وہ ایک ہی دین، دین توحید ہے اور جس ملت کے داعی رہے وہ ملت اسلام ہے، لوگوں نے پھوٹ ڈال کر اصل دین کو پارہ پارہ کر دیا اور الگ الگ راہیں نکال لیں، نفسانی خواہشات اور اتباع ہویٰ کی وجہ سے لوگ فرقوں اور ٹکڑوں میں بنٹ گیے اور ہر فرقہ اپنے کو اچھا اور دوسرے کو گھٹیا اور ذلیل سمجھنے لگا، رسولوں کی واضح ہدایات کو پس وپشت ڈال کر دین کو بازیچۂ اطفال بنادیا اور اپنے عقائد وخیالات کو اصل دین کی جگہ دے کرہر گروہ مسرور وشادماں اور اپنی غفلت، ضلالت اور جہالت کے نشے میں سرشار ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اس امت میں جو اختلاف وانتشار وتفرقہ بازی ہے وہ بڑی حد تک یہود ونصاریٰ کے باہمی تفرقہ واختلاف کی طرح ہے اور جس سے اللہ رب العزت نے سختی سے منع کیا ہے۔
ہم اس سے باز نہیں آئے تو جتنی مصیبتیں آئیں، تھوڑی ہیں، آلام ومصائب ، قتل وغارت گری سب ہمارے اس افتراق وانتشار کا شاخسانہ ہے، اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ان حالات کے سلسلے میں متنبہ کیا تھا، لیکن ہم نے اس پر غورنہیں کیا، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے؛ آپ کہیے کہ اس پر بھی وہی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے یاکہ تم کو گروہ گروہ کرکے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھادے، آپ دیکھیے تو سہی، ہم کس طرح دلائل مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں، شاید وہ سمجھ جائیں‘‘۔
لیکن ہم سمجھ نہیں سکے، ہم الجھے او ر الجھتے چلے گیے، معتزلہ اور خوارج کے جھگڑے تو اب قصۂ پارینہ بن چکے ہیں؛ لیکن شیعہ، سنی، سلفی، غیر سلفی، دیوبندی، بریلی، مذہبی اور غیر مذہبی، اسلام پسند اور لبرل طبقوں کے اختلافات نے ہمارا جینا دو بھر کر دیا ہے، یہ عذاب کی اندرونی اور داخلی قسم ہے، جو پارٹی بندی، باہمی جنگ وجدال اور آپس کی خوں ریزی کی شکل میں امت مسلمہ پر مسلط ہے، پورے عالم اسلام اور خود ہندوستان میں اس اختلافات کی وجہ سے جنگ وجدال ہی نہیں، قتل وغارت گری تک کی نوبت آگئی ہے، مسجدوں میں بندوقیں چل رہی ہیں،پڑوسی ملک میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں، شام، عراق یمن وغیرہ میں کئی لاکھ اپنے ملک اور علاقہ کو چھوڑ کر پناہ گزیں کیمپوں میں ہیں اور خانہ بدوشوں کی زندگی گذار رہے ہیں، ان کی بنیادی انسانی ضرورتیں بھی پوری نہیں ہو پا رہی ہیں، بہت سارے ملک ان کو پناہ بھی دینے کو تیار نہیں ہیں، ماضی میں کئی ملکوں کی سرحدوں سے انہیں کھدیڑا گیا اور کئی کشتیاں غرق آب ہو گئیں اور اس پر سوار پناہ گزیں سمندر کی کوکھ میں سما گیے،بعض بچے کوپانی نے ساحل سمندر پر ڈال دیا اور بعض کی لاشوں کا پتہ نہیں چل سکا اور ہمیں اب بھی ہوش نہیں آ رہا ہے۔ پس اصلاً دین ایک ہے اور امت مسلمہ بھی ایک ہے، نسلی، لسانی،مسلکی اختلافات اور ملکوں کی سرحدوں کا کلمۂ واحدہ اور دین کی بنیاد پر متحد ہونا امر مستبعد نہیں ہے، اللہ نے دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا ہے اور جس قدر اس میں مضبوطی آئے گی، اختلاف وانتشار دور ہوں گے۔
واقعہ یہ ہے کہ اعتصام بحبل اللہ اور افتراق سے اجتناب؛ یہ اتحاد امت کی دو قرانی بنیادیں ہیں، ان بنیادوں سے گریز ان اختلافات کوجنم دیتا ہے جو مذموم ہیں، اور جن کی وجہ سے ملت میں انتشار پیدا ہو گیا ہے، حبل اللہ سے مراد بعضوں نے دین اور بعضوں نے قرآن کریم لیا ہے، مقصود ایک ہی ہے، آج مسلمانوں کے درمیان جو افتراق وانتشار ہے، وہ قرآن کریم احادیث رسول اور شریعت مطہرہ سے دوری کا نتیجہ ہے، اگر قرآن کریم ہماری زندگی میں آجائے اور وہ ہمارے سارے اعمال کا محور بن جائے تو اس امت کو ایک امت بننے سے نہیں روکا جا سکتا اور فروعی اختلافات اتحاد کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
اختلافات قرونِ اولیٰ میں بھی تھے، لیکن یہ آپسی مخالفت ، بغض وعناد ،کینہ کدورت اور جدال وقتال کی بنیاد نہیں بنتے تھے، خود صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے جزوی اور فروعی مسائل میں اختلافات منقول ہیں، حضرت عائشہؓ غسل میں عورتوں کے جوڑا کھولنے کی قائل نہیں تھی اور اوپر سے پانی بہانا وہ بھی تین چلو کافی سمجھتی تھیں، بعض صحابہ سماع موتیٰ کے قائل تھے ، بعض مردوں پر نوحہ کرنے سے مردے پر عذاب کی بات کہا کرتے تھے، جبکہ بعض دوسروں کا استدلال «وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃً وِزْرَ اُخْرَیٰ» (النجم : ۳۸) یعنی کسی دوسرے کابوجھ کوئی اٹھانے والا نہیں اٹھاتا،سے تھا کہ دوسرے کے گناہ کا بوجھ مُردے پر نہیں ڈالا جا سکتا؛ کیونکہ ہر ایک کو اپنی اپنی جواب دہی خود کرنی ہوگی؛ ان اختلافات کے باوجود ایک دوسرے پر اعتماد اور ایک دوسرے کے احترام میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا؛ بلکہ صحابہ کرام کے درمیان ہونے والے اختلافات باعث رحمت سمجھے جاتے تھے، اس لیے کہ اس کی وجہ سے عمل کے دائرہ میں وسعت پیدا ہوتی تھی۔
یہیں سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ شیعہ سنی کے بعض اختلافات اور تنازعات بنیادی اور اساسی ہونے کے باوجود اور شیعوں کے بعض فرقوں کے خارج ازاسلام اور بعض کے گمراہ قرار دینے کے باوجود کسی فریق کی طرف سے بے دریغ قتل وغارت گری، بد ترین جنگ وخوں ریزی کی اجازت شریعت اسلامیہ نہیں دیتی، ایک دوسروں کی مساجد، ادارے اور اور اہم مذہبی شخصیات کی توہین وقتل اسلامی مزاج سے میل نہیں کھاتا، اس لیے عالم اسلام کے مختلف ملکوں میں شیعہ سنی آویزش کو ختم کرنے اور بقاء باہم کے اصول کی روشنی میں میثاق مدینہ کو سامنے رکھ کر صلح وآشتی کا معاہدہ کرنا چاہیے، اس معاملہ میں اصحاب فکر ودانش اور عام مسلمانوں کی اپنے حلقۂ اثر میں کام کی استطاعت کے اعتبار سے الگ الگ ذمہ داری ہے، علماء امن وآشتی کی راہ ہموار کرنے میں کلیدی رول ادا کریں اور عوام اپنے جذبۂ سمع وطاعت سے اس مہم کو کامیابی سے ہم کنار کریں۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے، جن ملکوں میں سنی اور شیعہ کی مشترک آبادیاں ہیں، وہ اپنے اپنے مسلک ومذہب پر عمل کریں اور بقاء باہم کے اصول پر کوئی معاہدہ کرلیں، شریعت نے پڑوسیوں ، ضعفاء اور انسانوں کو جو حقوق بحیثیت انسان عطا کیا ہے، اس کا پاس ولحاظ رکھیں تو باہمی منافرت اور جنگ وجدال کو روکا جا سکتا ہے؛ چونکہ مختلف ملکوں کے احوال الگ الگ ہیں، اس لیے وہاں کے احوال کے واقفین علماء و مذہبی پیشواؤں کو اصول وآداب بنانے چاہیے، در اصل علماء کے اختلاف کا ہی یہ سب شاخسانہ ہے، عوام پہلے بھی علماء کی مانتی تھی اور اب بھی ماننے کو تیار ہے؛ حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ امت کا اتحاد علماء کے اتحاد پر موقوف ہے، علماء اور مذہبی پیشوا جب تک کسی بات پر اور کسی معاہدہ پر متفق نہیں ہوں گے، یہ سلسلہ دراز ہوتاہی رہے گا، یہ سارے معاملات اور چپقلش کی وجہ یہ ہے کہ اب لوگوں نے ’’بقاء باہم‘‘ کے بجائے ’’تنازع للبقاء‘‘ کو محور ومرکز مان لیا ہے، اسی لیے ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل جانا چاہتی ہے اور اپنے خلاف قوتوں سے مزاحم ہو کر اپنے وجود کو مستحکم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں، اس لیے علماء کو عوام کے ذہن سے یہ بات نکال کر بقاء باہم کی اہمیت اجاگر کرنی ہوگی اور بتانا ہوگا کہ جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے، یہ مسئلہ کا حل کیا نکالے گی، خون کسی کا بہے، نسل انسانی کا خون ہے آخر، سب کو سمجھانا ہوگا تبھی مختلف مذاہب اور مسلک کے لوگ پر امن زندگی گذار سکیں گے؛ ورنہ برتری او رقبضہ کی جنگ میں سب کچھ خاکستر ہوتا چلا جائے گا، اس کا مطلب حق کے لیے جہاد سے انکار نہیں ہے، جہاد کے جو شرائط شریعت میں مذکور ہیں اس کی ان دیکھی کرکے لڑی جانے والی جنگ کو جہاد قرار دینا شرعی طور پر صحیح نہیں ہے، اس لیے اختلاف رائے کے باوجودہم سب کو ایک امت بن کر رہنا ہے۔
وحدت امت اور اختلاف رائے بڑا حساس اور سلگتا ہوا موضوع ہے، اسی اہمیت کے پیش نظر ۵؍ تا ۷؍ فروری ۲۰۱۶ء کو اسلامک فقہ اکیڈمی نے اپنے پچیسویں سیمینار منعقدہ بدر پور آسام میں بڑے اہم فیصلے لئے تاکہ امت کے اندر اتحاد پیدا کیا جا سکے اور فروعی مسائل میں الجھنے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کے بجائے وحدت امت کے اسلامی تصور کو عام کیا جائے اور مختلف طبقات سے گذارش کی جائے کہ وہ اس حقیقت کو مان کر چلیں کہ مسلک عمل کے لئے ہے اور دین اسلام دعوت وتبلیغ کے لئے۔

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
فکر و خبر ڈاٹ کام


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں