ویلنٹائن ڈے (یوم عشاق) کیا حقیقت کیا فسانہ

ویلنٹائن ڈے (یوم عشاق) کیا حقیقت کیا فسانہ

مغرب زدہ، ہواس باختہ ٹولہ اس کو محبت کرنے والوں کا عالمی دن کہتا ہے جبکہ باشعور، سنجیدہ اور مذہبی طبقہ اس کو اوباشوں اور بے حیاؤں کا عالمی دن کہتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس دن کا تعلق ویلنٹائن نامی پادری سے ہے جس کو ایک راہبہ سے عشق ہوگیا۔ اب مشکل یہ درپیش تھی کہ عیسائیت میں راہب اور راہبہ دونوں کا نکاح ممنوع ہے۔ ایک دن ویلنٹائن پادری نے اپنی محبوبہ (راہبہ) کو بتایا کہ اسے خواب میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ اگر 14 فروری کو کوئی راہب یا راہبہ عشق و مستی میں ایک دوسرے سے ملاپ کرلیتے ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
لہذا انہوں نے کلیساء4 کی تمام روایات کو بالائے طاق رکھ کر وہ سب کچھ کیا جو ہمیشہ نام نہاد عشق میں ہوا کرتا ہے۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں قتل کردیا گیا۔ تب سے بعض نوجوانوں نے اس دن کو ویلنٹائن ڈے کے نام سے منانا شروع کردیا۔

اس دن کو کیسے منایا جاتا ہے؟
* لڑکے لڑکیوں کو اور لڑکیاں لڑکوں کو عید کارڈ ارسال کرتی ہیں۔
* نوجوان اپنی محبوبہ کو پھولوں کا گفٹ دیتے ہیں۔
* ٹیلی فون اور موبائل کے ذریعے محبت کی اور ویلنٹائن ڈے کی مبارکباد دی جاتی ہیں۔
* 14 فروری کو پھول اتنی کثرت سے فروخت ہوتے ہیں کہ بازار میں پھولوں کی قلت ہوجاتی ہے۔
چوتھی صدی عیسوی تک اس دن کو تعزیتی انداز میں منایا جاتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس دن کو محبت کی یادگار کا رتبہ حاصل ہوگیا اور برطانیہ میں اپنے منتخب محبوب اور محبوبہ کو اس دن محبت بھرے خطوط، پیغامات، کارڈز اور سرخ گلاب بھیجنے کا رواج پاگیا۔
* برطانیہ سے رواج پانے والے اس دن کو بعد میں امریکہ اور جرمنی میں بھی منایا جانے لگا۔
* تاہم جرمنی میں دوسری جنگ عظیم تک یہ دن منانے کی روایات نہیں تھی۔ برطانوی کاؤنٹی ویلز میں لکڑی کے چمچ 14 فروری کو تحفے کے طور پر تراشے جاتے اور خوبصورتی کے لئے ان کے اوپر دل اور چابیاں لگائی جاتی تھیں جو تحفہ وصول کرنے والے کے لئے اس بات کا اشارہ ہوتیں کہ تم میری بند دل کو اپنی محبت کی چابی سے کھول سکتے ہو۔
* کچھ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کو اگر کوئی چڑیا کسی عورت کے سر پر سے گزر جائے تو اس کی شادی ملاح سے ہوتی ہے اور اگر کوئی چڑیا دیکھ لے تو اس کی شادی کسی غریب آدمی سے ہوتی ہے جبکہ زندگی بھی خوشگوار گزرے گی۔ اور اگر عورت ویلنٹائن ڈے پر کسی سنہرے پرندے کو دیکھ لے تو اس کی شادی کسی امیر کبیر شخص سے ہوگی اور زندگی ناخوشگوار گزرے گی۔
* امریکہ میں روایات مشہور ہے کہ 14 فروری کو وہ لڑکے اور لڑکیاں جو آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں، سٹیم ہاؤس جاکر ڈانس کریں اور ایک دوسرے کے نام دہرائیں، جونہی رقص کا عمل ختم ہوگا اور جو آخری نام ان کے لبوں پر ہوگا، اس سے ہی اس کی شادی قرار پائے گی جبکہ زمانہ قدیم سے مغربی ممالک میں یہ دلچسپ زبان زدعام ہے کہ اگر آپ اس بات کے خواہشمند ہیں کہ یہ جان سکیں کہ آپ کی کتنی اولاد ہوگی تو ویلنٹائن ڈے پر ایک سیب درمیان سے کاٹیں، کٹے ہوئے سیب کے آدھے حصے میں جتنے بیج ہوں گے، اتنے ہی آپ کے بچے پیدا ہوں گے۔
* جاپان میں خواتین ویلنٹائن ڈے پر اپنے جاننے والے تمام مردوں کو تحائف پیش کرتی ہیں۔ اٹلی میں غیر شادی شدہ خواتین سورج نکلنے سے پہلے کھرکی میں کھڑی ہوجاتی ہیں اور جو پہلا مرد ان کے سامنے سے گزرتا ہے، ان کے عقیدے کے مطابق وہ ان کا ہونے والا خاوند ہوتا ہے۔
* ڈنمارک میں برف کے قطرے محبوب کو بھیجے جاتے ہیں۔ تحریری طور پر ویلنٹائن کی مبارکباد دینے کا رواج چودھویں صدی میں ہوا۔ ابتداء4 میں رنگین کاغذوں پر واٹر کلر اور رنگین روشنائی سے کام لیا جاتا تھا، جس کی مشہور اقسام کروسٹک ویلنٹائن، کٹ آؤٹ اور پرل پرس ویلنٹائن کارخانوں میں بننے لگے۔ 19 ویں صدی کے آغاز پر ویلنٹائن کارڈز بھیجنے کی روایت باقاعدہ طور پر پڑی جو اب ایک مستقل حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
ان روایتوں کے سرسری مطالعے سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں نے اپنی خوابیدہ تمناؤں کو لفظوں کے کوزے میں کفنا دیا ہے۔ انسانی جذبات کی ناکامیاں ، محرومیاں زندگی کے اداس لمحے، کچلی ہوئی خواہشات، دبے ہوئے ارمان جنہیں غلط سلط، رسم و رواج کے باعث فطری نشوونما، ارتقاء4 اور اظہار کا موقع نہیں ملا، اس معاشرے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ویلنٹائن ڈے کے پیرہن میں اپنی تمام شرارتیں لے کر سماگئیں۔

کسی قوم کی مشابہت رکھنے والا
«من تشبہ بقوم فہو منہم»
(ابو داؤد / کتاب اللباس / حدیث 4031)
جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت کی، وہ انہیں میں سے ہے

ہمیں اس سے غرض نہیں کہ تہوار کس کا ہے؟
ملت کے نوجوان فقط کہیں سے سن لیں کہ فلاں تاریخ کو مغرب کی جدید و جواں نسل کوئی تہوار منا رہی ہے تو وہ بھی ان کے نقش قدم پر چلنا شروع کردیتے ہیں

دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلمان کا خسارہ
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا

اے نوجوان! تو کس عشق مجازی میں کھوگیا؟ تیری منزل یہ نہیں، تو کس نام نہاد ویلنٹائن میں کھوگیا؟ تو کن بے ہودہ رسموں کا شکار ہوگیا؟ تو فحاشی کی کس روایت کو زندہ کررہا ہے؟ تو کس رسم پر اپنے مال کو برباد کررہا ہے؟ تیری منزل عشق مجازی نہیں بلکہ تیری منزل عشق حقیقی ہے۔
اپنا چہرہ دیکھ ، تو کس ہستی کا غلام ہے؟ تو کس ہستی کا اْمّتی ہے؟ تجھے کس ہستی سے نسبت ہے؟
ارے تو محمد کا متبع ہے۔ تیرا دل تو محبت رسول کا امین ہے، مگر تو اپنے دل میں کس کو سمائے ہوئے ہے۔
اللہ تعالی ہم تمام مسلمانوں کو دین کی سہی فہم عطا فرمائے.آمین۔


شرف الدین عبدالرحمن
فکر و خبر 


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں