خاک ہوجائیں گے تم کو خبر ہونے تک

خاک ہوجائیں گے تم کو خبر ہونے تک

اللہ تعالی نے عورت کو چار مختلف روپ عطا کرکے معتبر کیا۔ ہر روپ میں جداگانہ احساس اور منفرد خوشبو کے ساتھ محبت کے تمام رنگ پر ودیے اور عورت کو ماں کے روپ میں سب سے زیادہ فضیلت بخشی جس کا موازانہ کسی طور پر بھی بیوی سے نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ دونوں کا رتبہ اور حقوق و فرائض جدا جدا ہیں۔
مگر یہ عجیب بات ہے جب مرد حضرات مجازی خدا کے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں تو بیوی میں صرف ماں اور بہنوں کی شبیہ تلاش کرتے ہیں۔ انہی کے روپ میں بیوی کو دیکھنا چاہتے ہیں۔
تم میری ماں کی طرح نہیں سوچتی، تمہارا مزاج و انداز میری بہنوں سے مختلف ہے۔ و غیرہ و غیرہ

اب ہماری اماں کے مجازی خدا کی سینے:
ان کے سرتاج کو یہی شکایت تھی کہ وہ ان کی ماں کی طرح وقت کی پابند نہیں۔ حالانکہ ہماری اماں بے چاری نے تمام عمر اسی چیز کو ملحوظ خاطر رکھا مگر ان کے سرتاج کو کبھی ان میں اپنی ماں کی جھلک نظر نہیں آئی۔

اب جانیے ہماری سہیلی زہرا کے مجازی خدا کا حال:
اس کی نند صفائی کی کیڑا ہیں۔ ہر وقت ان کے ہاتھ میں جھاڑو یا ڈسٹر نظر آئے گا اب سہیلی کے سرتاج اس بات پر غمگین رہتے ہیں کہ ان کی بیوی، ان کی بہن کی طرح صفائی پسند نہیں، حالانکہ تمام سسرال والے زہرا کی سلیقہ مندی اور سگھڑاپے کی داد دیتے نہیں تھکتے مگر مجازی خدا کو بیوی میں بہن کی جھلک نظر نہیں آتے۔

اب زہرا کی نند کے مجازی خدا کا حال بھی جان لیجیے:
وہ ان کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی صفائی ستھرائی کی عادت سے سخت نالاں ہیں۔ انہیں اپنی بیوی میں ماں کا سگھڑاپا نظر نہیں آتا۔

ہمارے چھوٹے بھائی ابھی نئے نئے مجازی خدا بنے ہیں:
خود بھی ابھی کم عمر ہیں تو بیوی بھی کمسن ہے۔ چاہتے ہیں کہ بیوی کے ہاتھ کے پکے کھانے میں بہن کے ہاتھ کا ذائقہ ملے۔ ارے بھیا! ابھی تو ہمارے بھاوج سیکھنے کے مراحل سے گزر رہی ہے تو سیکھتے سیکھتے ہی کھانا پکانا آئے گا۔

اب چلتے چلتے ہمارے مجازی خدا کا حال بھی سن لیں:
شادی کے شروع میں اکثر ہمارے مجازی خدا دیر سے گھر آتے، یہاں تک کہ انتظار کرتے کرتے رات کے گیارہ، بارہ بج جاتے، جیب میں موبائل موجود کہ بندہ اک کال کرکے ہی بتادے کہ کیوں دیر ہوگئی مگر کبھی ایسا نہیں ہوا، ادھر پریشانی اور خوف سے ہمارے آنسو جاری رہتے اور لبوں پر دعاؤں کا ورد رہتا کہ وہ خیر و عافیت سے گھر لوٹ آئیں۔

جب ہمارے سرتاج گھر میں قدم رنجہ فرماتے تو سب سے پہلے یہ طعنہ سننے کو ملتا:
’’جب مجھے کبھی دیر ہوجاتی تو میری ماں پریشان ہوکر گھر سے باہر نکل آتیں اور میری فکر میں سڑک پر رونا شروع کردیتیں، تمہیں مگر میری کوئی فکر نہیں، تم میری ماں کی طرح مجھ سے محبت نہیں کرتیں، تم میری ماں کی طرح نہیں سوچتیں!‘‘
اس وقت میرے دل کا کیا حال ہوتا یہ تو رب تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
اب آپ ہی بتایئے فکر ماں کو بھی ہوتی ہے اور بیوی کو بھی مگر دونوں کے سوچنے کا انداز الگ، محبت ماں کو بھی ہے اور بیوی کو بھی مگر دونوں کا طریقہ اظہار الگ۔ اگر میں بھی ساس اماں کی طرح سڑک پر رونا شروع کردیتی تو کیا تماشا لگتا اتنا اندازہ تو آپ بھی لگا سکتی ہیں۔
ہمارے بھائی کی شادی کا معاملہ شروع ہوا۔ اس سلسلے میں ہم اپنی رائے کا اظہار اپنے سرتاج کے سامنے کر بیٹھے۔ تو وہ جھٹ بولے، میری بہنوں نے تو اس طرح نہیں سوچا۔ اب تم جو کچھ اپنے بھائی کے لیے سوچ رہی ہو میرے لیے بھی سوچو۔
کیا بھائی اور شوہر کے لیے Feeling ایک جیسی ہوسکتی ہیں۔ بے عیب صرف خدا تعالی کی ہی ذات ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور خاص طور پر عورت کو بہو، بیوی اور بھاوج کے روپ میں سسرال میں سخت تنقید کا سامنا رہتا ہے۔
مگر جب دوست احباب، محلہ، پڑوس اور خاص طور پر سسرال رشتہ دار آپ کی صلاحیتوں اور سگھڑاپے کے معترف ہوں اور زبان سے بھی اس کا اظہار کرتے ہوں تو وہ شخص جس کے نکاح میں آنے سے زندگی میں اک نئے جذبے کا احساس پیدا ہوا جو ہم سفر و شریک حیات ہے، جس کے ساتھ تمام زندگی بتانی ہے اگر وہ ہماری خوبیوں کو سراہے تو مزید کچھ اور اچھا اور نیا کرنے کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔
یہ قدرتی امر ہے کہ جب تمام لوگ آپ کی تعریف کررہے ہوں تو دل چاہتا ہے کہ آپ کا ہمسفر بھی آپ کو سراہے، آپ کی خوبیوں اور صلاحیتوں کی تعریف کرے۔
اس چاہ کا اظہار ہم نے غلطی سے اپنے سرتاج سے کردیا تو موصوفِ شان بے نیازی سے بولے۔
’’میں نہیں چاہتا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی طرح تمہاری کارکردگی کا گراف بھی گر جائے اور تمہارا دماغ بھی ان کھلاڑیوٹ کی طرح عرش معلی پر پہنچ جائے، اس لیے میں تعریف کرنے سے گریز کرتا ہوں‘‘
اف یہ مجازی خدا!
نہ جانے کیوں یہ اپنی بیویوں کی خوبیوں کے دل سے معترف ہونے کے باوجود اظہار کرنے میں کتراتے ہیں۔ اس کا جواب تو اماں کے پاس تھا نہ ہمارے پاس ہے۔ بہنو! اگر آپ اس کا جواب دے سکیں تو ضرور دیجیے گا۔

ہم نے مانا تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے تم کو خبر ہونے تک
تحریر: صدف جاوید
خواتین کا اسلام میگزین۔ نمبر 671


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں