موجودہ دور کے فکری چیلنجز اور فضلا کی ذمہ داری

موجودہ دور کے فکری چیلنجز اور فضلا کی ذمہ داری

چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی کی ستیزہ کاری روز اول سے تا امروز جاری ہے۔ حق و باطل کی کشمکش قدیم تاریخ رکھتی ہے۔

مختلف میدانوں میں اسلام اور کفر کی جنگ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوتے ہی اسلام کی فیصلوں میں دراڑیں ڈالنے کا ابلیسی عمل شروع ہوا جو بلا تعلل کے آج تک جاری ہے۔ حق و باطل کی اس طویل کشمکش میں جہاں اہل باطل اور اہل کفر کی ریشہ دوانیوں، سازشوں، نت نئے طریقوں سے حق کو ختم کرنے کی کوششوں، اپنے تمام تر وسائل و ساز و سامان کے ساتھ حق کو ملیامیٹ کرنے کی تگ ودو اور عسکری، فکری، علمی، سیاسی ، تہذیبی اور دیگر میدانوں میں حق پر حملہ آور ہونے کی داستانوں کی ایک طویل تاریخ ہے، وہاں باطل کے خلاف اہل حق کی کاوشوں، حق پر ڈٹنے اور مر مٹنے کے مبارک جذبوں، غلبہ حق کے لیے جان و مال کی قربانیوں، باطل کے ایوانوں میں گر جدار للکاروں اور ہر میدان میں باطل کو منہ توڑ جواب دینے کی داستانوں کی بھی ایک حسین اور قابل رشک تاریخ ہے۔ دعوت و عزیمت کی یہ صبر آزما تاریخ ہمارے لیے مشعل راہ اور مایوس کن حالات میں شمع امید ہے اور دین اسلام کی حفاظت کے خداوندی وعدے کا مظہر اتم ہے۔ خلیفہ بلافصل، جانشین پیغمبر اور یار غار و مزار کا الہامی جملہ ’’اینقص الدین و انا حی‘‘ رہتی دنیا تک امت مسلمہ کے سرفروشوں اور دین کے غمخواروں کے لیے دستور ، لائحہ عمل اور ماٹو کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر دور میں دین اسلام کے محافظوں نے سنت صدیقی پر عمل کرتے ہوئے دین میں رخنہ ڈالنے والوں کا تعاقب کیا ہے۔
عصر حاضر میں سنت صدیقی دہرانے کی پھر اشد ضرورت ہے۔ آج کی دنیا علوم و فنون کی دنیا ہے، سائنس و ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی کا دور ہے، فلسفہ و عقلی موشگافیوں کا زمانہ ہے، آزاد خیالی اور نفس پرستی کا دور دورہ ہے، مادیت اور سرمایہ ہی اس دور کے انسان کا معبود اعظم ہے۔ انٹرنیٹ اور میڈیا نے دور اور قریب کے فرق کو مٹادیا ہے۔ آج ماضی کے برعکس زیادہ تنوع، وسعت اور جامع منصوبہ بندی کے ساتھ باطل اسلام پر حملہ آور ہے۔ مزید براں مسلمان ماضی کی طرح قوت و طاقت میں نہیں ہیں۔ خلافت کا سائبان مسلمانوں کے سر پر سایہ فگن نہیں ہے۔ آج کی دنیا کے اختیارات کی باگ ڈور مغرب کے ہاتھ میں ہے اور سیاست، معیشت، سائنس، ٹیکنالوجی، فلسفہ، فکر، تہذیب، غرض ہر میدان میں مغرب حاکم، امام اور کلی اختیارات کا مالک ہے۔ مغرب نے اپنی حاکمیت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام پر چو طرفہ حملہ کر رکھا ہے۔ آج کے مسلمان خصوصاً ایک عالم دین اور فاضل کی ذمہ داری ماضی کے برخلاف کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ امت مسلمہ کی بقاء، تحفظ اور دینی و ایمانی حفاظت وارثین انبیاء کے کندھوں پر ہے۔ موجودہ دور کے بڑے چیلنجز سے ہر عالم و فاضل کو باخبر رہنا چاہیے، اور ان کے سد باب اور توڑ کے لیے ہمہ جہت تیاری کرنی چاہیے۔ امت مسلمہ کو علمی و فکری حوالے سے درجہ ذیل بڑے چیلنجز کا سامنا ہے:

۱۔ سیکولرزم
سیکولرزم عصر حاضر کے بڑے اور خطرناک فتنوں میں سرفہرست ہے۔ سیکولرزم کا مطلب دین کی دنیاوی معاملات، معاشرتی امور اور ریاستی مسائل سے علیحدگی ہے۔ دوسرے لفظوں میں سیکولرزم دین کو محض فرد کا ذاتی، پرسنل اور پرائیویٹ معاملہ سمجھتا ہے اور اجتماعی، معاشرتی و ریاستی معاملات میں دین و مذہب کی مداخلت کا سختی سے مخالف ہے۔ جبکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور کامل دستور زندگی ہے، انسانی زندگی کا کوئی گوشہ خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اسلامی شریعت سے باہر نہیں ہے۔ سیکولرزم اسلام کی کاملیت، جامعیت اور ابدیت کے لیے عصر حاضر کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ آج امت مسلمہ مجموعی طور پر دانستہ یا نادانستہ سیکولرزم سے متاثر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ستاون اسلامی ممالک میں سے کسی میں بھی اسلام مکمل طور پر ریاستی سطح پر فانذ نہیں ہے۔ آج کا اسلام صرف چند عبادات تک محدود ہے۔ آج اسلامی معاشروں میں اسلام کے ریاستی و معاشرتی نفاذ کی بات ایک اجنبی اور ناقابل عمل نعرہ بن گیا ہے۔ ان حالات میں امت کے فکری و علمی رہنماؤں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عصر حاضر کے سب سے بڑے فتنے کے خلاف عملی ہتھیار اٹھائیں اور اسلام کی جامعیت، کاملیت اور ابدیت کو عصر حاضر کے اسلوب، زبان اور اصطلاحات میں پیش کریں۔

۲۔ الحاد
انسانی معاشروں میں ایسے لوگوں کا وجود ہمیشہ سے رہا ہے جو مذہب اور خدا کے منکر تھے، لیکن عصر حاضر کی حیرت انگیز مادی ترقی اور سائنسی ایجادات کے بطن سے الحاد کی ایک عالمگیر تحریک نے جنم لیا ہے۔ الحاد روئے زمین پر تمام مذاہب کے انکار کا نام ہے۔ مذہب، دین، خدا، اور ایک برتر ہستی کے مطلق انکار کا نام الحاد ہے۔ ملحدین کے نزدیک مابعد الطبیعات نام کی دنیا ایک وہم ہے۔ کائنات صرف موجود اور محسوس کا نام ہے۔ غیرمحسوس، غیرمرئی، مابعد الطبیعی اور روحانی دنیا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ سب انسانی توہمات اور خیالات ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق الحاد معاصر دنیا کا مقبول ترین نظریہ ہے اور روزانہ ہزاروں لوگ الحاد کی بھینٹ چڑھ کر خدا اور مذہب کے مطلق انکار کا نظریہ اپنا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی ایجاد سے تو الحاد کا فتنہ ایک منظم اور مربوط تحریک میں تبدیل ہوچکا ہے۔ نیٹ پر ملحدین کی بے شمار ویب سائٹس، فورمز اور سوشل میڈیا پر متعدد پیجز اور گروپس موجود ہیں جن میں لاکھوں لوگ شامل ہیں۔ آج کے ملحدین کا سب سے بڑا ٹارگٹ دین اسلام ہے، کیونکہ باقی مذاہب اپنی عبادتگاہوں تک محدود ہیں اور خود ان کے ماننے والوں کے نزدیک وہ معاصر دنیا کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ صرف دین اسلام ہی دنیا کا وہ واحد نظریہ اور یکتا دین ہے جو آج بھی انسانیت کے مسائل کا سب سے جامع اور کامل حل پیش کرتا ہے۔ الحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہونے کے ناطے ملحدین کی توپوں کا رخ مکمل طور پر اسلام کی طرف ہے اور نت نئے شبہات، اعتراضات اور تاریخ و سیرت سے ضعیف و موضوع روایات و عبادات کی بنیاد پر دین اسلام کو نشانہ بنا رہے ہین۔آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ جدید الحاد کا ایک منظم و مربوط رد پیش کیا جائے۔ ملحدین کی دسیسہ کاریوں کے مسکت جوابات دیے جائیں اور ان کے اعتراضات و اشکالات کی بنیادوں پر علمی و تحقیقی کام کیا جائے۔ ملحدین کے کام کا اگر ایک جائزہ لیناہے تو نیٹ پر جراء ت تحقیق کے نام سے ویب سائٹ، فورم اور فیس بک پیج پر نظر ڈالنے سے اس فتنے کی خطرناکی، ہولناکی اور عالمگیریت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔

۳۔ جدیدیت
مغرب صدیوں سے پادریوں اور کلیسا کی غلامی میں جکڑا ہوا تھا۔ اس جکڑبندی کے خلاف سولہویں صدی میں مارٹن لوتھرنے ایک مضبوط تحریک شروع کی جس نے آگے چل کر پروٹسٹنٹ کے نام سے ایک مستقل مکتب کی شکل اختیار کرلی۔ اس کے بعد کلیسا و پاپائیت کے خلاف متنوع تحاریک اٹھیں اور ان تحاریک کی کوکھ سے ماڈرن ازم کی ایک ہمہ گیر تحریک نے جنم لیا۔ مغرب کے نامی گرامی فلاسفہ نے عقلی و فلسفیانہ بنیادوں پر ماڈرن ازم کی راہ ہموار کی اور زندگی گزارنے کے متعدد فلسفے خالص عقلی بنیادوں پر مغربی دنیا میں وجود میں آئے۔ ان تمام فلسفوں کا جامع عنوان ماڈرن ازم ہے جن میں قدر مشترک موجودہ دور کے انسان کو زیادہ سے زیادہ آزادی اور خودمختاری کا علمبردار بنانا تھا۔ یوں جدید مغربی دنیا نے آزادی، مساوات اور ترقی کے تین بنیادی اصولوں پر نظام زندگی کی تشکیل کی جس کے بطن سے سرمایہ دارانہ نظام، لبرل ، مغربی جمہوریت، انسانی حقوق کا عالمی چارٹر، سوشل سائنسز اور دیگر جدید نظام ہائے زندگی وجود میں آئے۔ سرمایہ کو اس جدید نظام زندگی کا جزو اعظم اور روح کی حیثیت دی گئی ہے جس سے آگے چل کر دنیا کے وسائل پر ہر قیمت پر قبضہ کرنے اور ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت اکٹھا کرنے کی عالمگیر سوچ پیدا ہوئی اور حرص و ہوس کی ایک ہمہ گیر فکر نے جنم لیا۔ جدیدیت کے اس فکری طوفان نے مغرب سے آگے نکل کر مشرقی و اسلامی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں جدیدت اپنے تمام مظاہرہ و آثار کے ساتھ قائم ہے، اور دنیا کے سب سے کامل و جامع دین کے علمبرداروں نے اسے نظام زندگی کے طور پر مکمل قبول کر لیا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جدید مغربی فلسفے اور اس کی حقیقت کو سمجھا جائے، اور اس جدید فلسفے کی کھوکھ سے پیدا شدہ نظام ہائے زندگی کا ایک بھرپور تنقیدی جائزہ لیا جائے۔

۴۔ مابعد جدیدیت
مابعد جدیدیت کا فلسفہ جدیدیت کے رد عمل میں وجود میں آیا۔ جدیدیت کے علمبرداروں نے آزادی، ترقی اور مساوات کی بنیاد پر ایک عالمگیر نظام تشکیل دیا اور جبر، قوت، طاقت، لالچ اور مکر و فریب کے ذریعے پوری دنیا پر جدیدیت کا نظام مسلط کرنے کی کوشش کی۔ جدیدیت کے ماننے والوں کے نزدیک اس وقت جدیدیت کے اصول ایک آفاقی سچائی کی حیثیت رکھتے ہیں اور دنیا کے ہر خطے، ہر قوم، ہر مذہب اور ہر رنگ و نسل کے لوگوں کو جدیدیت کا نظام اپنانا ہوگا۔ اس ظلم و استبداد کے رد عمل میں مابعد جدیدیت کا نظریہ و فلسفہ وجود میں آیا۔ مابعد جدیدیت کی تعریف ایک فلسفی لیوٹارڈ کے الفاظ میں ’’مابعد جدیدیت عظیم بیانیوں پر عدم یقین‘‘ ہے۔ مابعد جدیدیت کے علمبرداروں کے نزدیک اس دنیا میں اصول، نظریات، روایات، اقدار اور سچائی و حقیقت نام کی کائی چیز موجود نہیں ہے اور نہ ہی دنیا میں آفاق سچائی اور حقیقت مطلقہ کا کوئی وجود ہے۔ یہ سب چیزیں اضافی ہیں۔ اضافی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سچائی، حقیقت اور حق و خیر کا تعلق محض انفرادی پسند و ناپسند کے ساتھ ہے۔ ہر شخص کی سچائی، ہر شخص کا خیر اور ہر شخص کا حق الگ الگ ہے۔ اس لیے آفاقی سچائی کا تصور محض ایک دعویٰ اور دیومالائی داستان ہے۔
مابعد جدیدیت کے فلسفے کا اثر یہ ہے کہ آج کے انسان کی دلچسپی محض اپنے احساسات، جذبات اور عملی مسائل تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ آج کے انسان کے نزدیک زندگی کی تمام بحثیں مسئلہ اور حل کا نام ہیں۔ افکار، نظریات اور آئیڈیالوجی کے مباحث محض نظری ہین جن کا عملی زندگی کی تشکیل اور مسائل کے حل میں کوئی کردار نہیں ہے۔ آج کے انسان کے نزدیک اصول، نظریات، اقدار، قواعد، ضوابط ماضی کی باتیں ہیں۔ اس لئے بعض مفکرین نے موجودہ دور کو ’’عدم نظریہ کا عہد‘‘ کہا ہے۔ مابعد جدیدیت کا فلسفہ جدیدیت سے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہے۔ جدیدیت میں تو اصول کا مقابلہ اصول سے تھا، دلائل کے مقابلے میں دلائل تھے، جبکہ فلسفہ مابعد جدیدیت سرے سے اصول و دلائل کا ہی منکر ہے۔ جو انسان دلیل و نظریے کے وجود کا ہی منکر ہو، اسے کسی نظریے پر آمادہ کرنا اور کسی مذہب و عقائد پر لانا ایک کٹھن کام ہے۔ جدیدیت زدہ انسان کا مقابلہ تو اسلام کی آفاقیت، افادیت اور اسلامی نظام کو عقلی و فلسفیانہ بنیادوں پر ثابت کرنے پر موقوف ہے، جبکہ مابعد جدیدیت سے متاثر انسان کا مقابلہ تو اسلام کی آفاقیت، افادیت اور اسلامی نظام کو عقلی و فلسفیانہ بنیادوں پر ثابت کرنے پر موقوف ہے، جبکہ مابعد جدیدیت سے متاثر انسان کو قائل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کے نظری پہلو کی بجائے اس کے عملی پہلو پر بھرپور توجہ دی جائے، انسان کی عملی زندگی کے ساتھ اسلامی احکام کے مضبوط اور لاینفک تعلق کو ثابت کیا جائے اور اسلامی احکام پر عمل پیرانہ ہونے کی صورت میں انسان کی عملی زندگی کے نقصانات اور اس کے درہم برہم ہونے کی بھرپور وضاحت کی جائے۔ الغرج زعمائے امت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اسلام کو محض ایک نظریہ اور آئیڈیالوجی کے طور پر پیش کرنے کی بجائے اسے ایک عملی اور پریکٹیکل نظام کے طور پر پیش کریں۔

۵۔ تجدد پسندی
سیکولرزم، الحاد، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے افکار کی اٹھان مغرب سے ہوئی اور مغرب سے بقیہ دنیا میں پھیل گئے۔ ان فلسفوں نے دنیا کے ہر مذہب اور ہر نظام کو متاثر کیا۔ اسلامی دنیا میں ایک بڑا طبقہ زندگی ان جدید فلسفوں سے متاثر ہوا، خصوصاً وہ طبقہ جس نے مغربی تعلیمی اداروں یا اس طرز پر بنی ہوئی مسلم ممالک کی تعلیم گاہوں میں تعلیم حاصل کی۔ ان فلسفوں خصوصاً جدیدیت کا تاثر کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی دنیا کے ایک بڑے طبقے نے دین اسلام کو ان جدید نظریات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں قطع و برید اور کانٹ چھانٹ کا سلسلہ شروع کردیا۔ دین اسلام میں موجود حالات کے مطابق تبدیلی، تغیر اور قطع و برید کلی و جزوی دونوں سطح پر ہوئی۔ دین اسلام میں جزوی یا کلی تبدیلی، ترمیم اور اصلاح کے علمبرداروں کو تجدد پسند اور متجددین کہتے ہیں۔ ان متجددین میں سے کسی معجزات و کرامات کے اسلامی تصور کو عہد جدید کے متضاد سمجھا تو اس کا انکار کیا، احادیث کو مطابقت میں رکاوٹ سمجھا تو اس پر ہاتھ صاف کیا، کسی نے اسلامی اصطلاحات پر ہاتھ ڈالا، کسی نے اسلام کے سیاسی نظام میں عہد حاضر کے لبرل سیاسی نظاموں کے مطابق تبدیلی کی ضرورت محسوس کی، تو کسی نے اسلام کے فقہ المعاملات میں تغیر کا بیڑا اٹھایا اور سود جیسے قطعی و اجماعی حرمت رکھنے والے حکم کی حلت کا نظریہ پیش کیا۔ کسی مفکر نے اسلام کے نظام عفت و عصمت پر تیشہ چلایا، تو کسی نے اسلام کے عائلی نظام کو نشانہ بنایا۔ کسی نے فقہ الجہاد میں تغیر کی ضرورت محسوس کی، تو کسی نے اسلام کے نظام تزکیہ و احسان کو اپنا ہدف بنایا۔
چونکہ ان ترمیمات و تغیرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ علمائے دین اور اسلاف سے مضبوط رشتہ تھا، اس لیے اسلاف کے تذکرے اور علماء پر روایت پسندی کی پھبتی کسی گئی اور ہر ممکن طریقے سے راسخ العلم قدیم علماء کی اہانت، مخالفت اور تمسخر و مذاق اڑانے کا ایک سلسلہ شروع کردیا۔ ان متجددین نے موجودہ دور میں دنیاوی سطح پر مسلمانوں کے زوال میں سب سے بڑی رکاوٹ علمائے دین اور اسلام کی اس تشریح اور اس فہم کو سمجھا جو نسل در نسل، سینہ بسینہ اور طبقہ بہ طبقہ صحابہ کرام کے دور سے اب تک چلا آرہا ہے۔ ان متجددین کی مجالس، اقوال اور تصانیف میں مشترک طور پر مغرب کی مدح سرائی، مغربی نظام کی اصلحیت، نافعیت، مسلم دنیا کے مستقبل کے بارے مایوسی، دین اسلام کے متفقہ و اجماعی احکام پر اشکالات، اعتراضات اور اسلامی تاریخ اور اسلاف امت کی تحقیر نظر آئے گی۔ متجددین کی تحریروں و تقریروں میں تجدید، جدت، احیاء، اصلاحات، زمانے کے ساتھ ہم آہنگی، اجتہاد اور اس جیسے الفاظ کی کثرت ہے۔ ان کی نظر میں زوال کا سبب دین کی اصلی شکل و صورت پر اصرار ہے اور جس دن دین میں زمانے کے ساتھ تبدیلی و ترمیم کا راستہ کھل گیا، اس دن سے مسلمان ترقی کی دوڑ میں شامل ہوکر ترقی کی معراج پر پہنچ جائیں گے۔ یاللعجب
متجددین دنیائے اسلام کے ہر خطے اور ہر ملک میں پیدا ہوئے، لیکن برصغیر، ترکی اور مصر کو متجددین کے مراکز کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ بر صغیر میں مرزا ابوطالب خان سے لے کر سر سید احمدخان، قیام پاکستان کے بعد تمنا عمادی، ڈاکٹر فضل الرحمن سے لے کر جاوید احمد غامدی تک متجددین کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ ترکی میں سلیم ثالث، محمود ثانی، مصطفی کمال اتاترک سے لے کر شیخ احمد آفندی تک متجددین کی ایک لمبی کڑی ہے۔ مصر میں جمال الدین افغانی (موصوف اگر چہ اصلاً مصری نہیں تھے، لیکن چونکہ ان کی فکر کو سب سے زیادہ فروغ مصر میں ملا، اس لیے مصری متجددین میں ان کا تذکرہ کیا)، مفتی محمدعبدہ، رشید رضا مصری سے لے کر مصر کے نامور ادباء تک ایک وسیع سلسلہ ہے۔ عالم اسلام کے مختلف خطوں کے متجددین کے افکار اور کام سے واقفیت کے لیے جامعہ کراچی کے شعبہ تصنیف و تالیف کے سربراہ، جدیدیت و تجدد کی تردید میں قابل رشک مقالات لکھنے والے اور مغربی فکر و فلسفہ کے نبض شناس محترم خالد جامعی صاحب کا ایک طویل مقالہ ’’عالم اسلام، معرکہ ایمان و مادیت، جدیدت و روایت قرن اول سے عصر حاضر تک‘‘ مفید رہے گا جو جامعہ کراچی سے نکلنے والے تحقیقی رسالے ’’جریدہ‘‘ کے پینتیسویں شمارے میں مکمل شائع ہوچکا ہے۔

فضلاء کی ذمہ داری
عصر حاضر کے ان بڑے فکری چیلنجز کا مقابلہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ علمائے امت چونکہ حدیث کے مطابق انبیاء کے وارث ہیں، اس لیے ان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہمارے فضلاء کو پانچ میدانوں میں ان تھک محنت کی ضرورت ہے:

۱۔ اسلامی علوم میں کامل رسوخ و مہارت
آج کے فضلاء کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی علوم میں مکمل مہارت اور کامل استعداد سے تہی دامن ہوتے ہیں جس کی بنا پر عصر حاضر کے فکری مسائل کا کماحقہ رد نہی کرسکتے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ تفسیر، حدیث، فقہ، اصول تفسیر، اصول حدیث، اصول فقہ اور دیگر علوم الیہ میں اپنی صلاحتیوں کے مطابق استعداد پیدا کی جائے۔ اسلامی علوم پر مکمل گرفت ہی عہد حاضر کے پیدا کردہ اشکالات و اعتراضات کے قابل اطمینان حل کا ذریعہ ہے۔ اس کے لیے جہاں نصاب میں قابل ذکر تبدیلیوں کی ضرورت ہے (جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں) وہاں مدارس میں ایسی فضاء بنانی چاہیے جس میں طلباء کو نصابی کتب سے ہٹ کر دیگر مراجع تک رسائی ہو، اور خارجی مطالعے کا ایک حوصلہ افزا ماحول میسر ہو۔

۲۔ فرق و افکار کی تاریخی کا مطالعہ
اسلامی تاریخ میں پیدا ہونے والے مختلف فرقے اور متنوع افکار کے حاملین افراد و گروہوں کی تاریخ کا مطالعہ بھی بے حد ضروری ہے۔ خصوصاً ان فرقوں کے رد کے لیے اسلاف امت کے مختلف مناہج، طریقہ کار اور طرز تردید کا ایک مبسوط مطالعہ کرنا چاہیے۔ فتنوں کے تعاقب میں اسلاف امت کے مختلف طبقات نے اپنے اپنے فہم و اجتہادکی بنا پر مختلف طرز اپنائے۔ محدثین کا منہج الگ تھا، متکلمین کا طرز اور تھا، صوفیا کا طریقہ کار الگ تھا۔ پھر ان کے اندر قابل قدر شخصیات کے اسالیب مختلف تھے۔ ان سب سے باخبر رہنا ضروری ہے تا کہ موجود فتن میں مفید حل کی طرف رہنمائی مل جائے۔

۳۔ مغربی فکر و فلسفہ سے واقفیت
عصر حاضر کی جملہ فکری گمراہیوں کا شجرہ نسب کسی نہ کسی صورت میں مغربی فکر و فلسفہ سے ملتا ہے، اس لیے مغرب کا تحقیقی مطالعہ بھی بے حد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں مغربی افکار کی تاریخ، ارتقاء اور ان میں حالات و اسباب کی بنا پر متنوع تبدیلیوں سے واقفیت ہونی چاہیے۔ خصوصاً مارٹن لوتھر کی تحریک کے بعد کردار ادا کرے گا۔ مغرب سے ناواقفیت بسا اوقات فکری مسائل کو حل کرنے کی بجائے مزید الجھا دیتی ہے۔

۴۔عالم اسلام کی احیائی و فکری تحریکات کا مطالعہ
تقریباً پچھلے پانچ سو سال سے عالم اسلام رو بہ زوال ہے اور مغرب ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔ اس سلسلے میں عالم اسلام کے مختلف خطوں میں متعدد فکری و احیائی تحریکیں اٹھیں جن کا مقصد امت مسلمہ کو ان کا کھویا ہوا مقام دوبارہ دلانا تھا۔ ان تحریکوں کا ایک مبسوط مطالعہ ضروری ہے۔ ان کے بانیوں کے حالات، تحریکوں کے مد و جزر، نشیب و فراز اور ناکامی یا کامیابی پر منتج ہونے کی وجوہات سے واقفیت ہونی چاہیے تا کہ موجودہ فکری چلینجز سے نمٹنے میں ان غلطیوں سے بچنا سے آسان ہوجائے اور وہی غلطیاں دوبارہ نہ دہرائی جائیں جن کی وجہ سے کئی سو سال سے ہماری فکری و علمی تحریکیں ناکام ہوتی آرہی ہیں۔

۵۔عصر حاضر کے اسالیب تحریر و تقریر اور جدید علوم سے بقدر ضرورت سے واقفیت
آج عمومی طور ہمارے فضلاء کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تقریر و تحریر کے جدید اسالیب سے نابلد ہیں۔ آج کے محاورے، زبان، اصطلاحات اور جدید نسل کی علمی و ذہنی سطح کے مطابق دین اسلام کے ابلاغ و تفہیم دے قاصر ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کمپیوٹر و ٹیکنالوجی سے مانوس نسل جب خطباء کے سامنے بیٹھتی ہے تو ان کی زبان سمجھ آتی ہے نہ ان کے طرز و اسلوب سے مانوس ہوتے ہیں جس سے دوری میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ جدید علوم خصوصاً جدید علم سیاست، معیشت اور سوشل سائنسز کا بقدر ضرورت مطالعہ کرنا چاہیے، کیونکہ ان جدید علوم سے بے خبری بسا اوقات جدید نسل کے مسائل اور معاصر فکری آرا کو سمجھنے میں غلطی کا باعث بنتی ہے، اس کے لیے اصحاب مدارس اور دین اسلام کا درد رکھنے والے مخلص جدید تعلیم یافتہ حضرات کو مل کر ایک عام فہم نصاب بنانا چاہیے جن سے ان علوم و افکار کے مبادیات سے بقدر ضرورت واقفیت میں مدد ملے اور وہ مزید مطالعہ و تحقیق کے بل بوتے پر ان علوم میں مہارت اور گہرائی پیدا کرنے پر قادر ہوں۔

بقلم محمدسمیع اللہ سعدی (استاذ جامعہ فریدیہ، اسلام آباد)
ماہنامہ الشریعہ (نومبر 2015ء)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں