اصلی خدا

اصلی خدا

’’نجانے کتنے ہی خدا تھے جن کی میں روزانہ پوجا کرتا تھا۔‘‘
ڈاکٹر قاسم محمود نے حیرت سے اس آواز کی جانب دیکھا۔
’’یہ اس وقت کی بات ہے جب مجھے ایک خدا ملا۔‘‘
آواز دوبارہ ابھری۔ ان کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کے قریب ہوگئیں وہ اس کے قریب چلے گئے، وہ کہہ رہا تھا۔
’’ہمارے پورے خاندان میں اس پر مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ جی ہاں! یہ خدا مجھے روزی روٹی دینے والا تھا۔ میرے والدین نے سوچا اسے نوکری تو مل گئی ہے، اب اس کی شادی بھی کردینی چاہیے مگر میں اس کے حق میں نہ تھا کیونکہ میرے خیال میں اس نئے ’خدا‘ کو سہروں میں مہکا کرلانے اور پھر اسے نباہنے کے لیے میرا ایک ’خدا‘ ناکافی تھا، لہذا میں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا ’’ابھی میری تنخواہ اتنی نہیں کہ ایک اور فرد کو کھلاسکوں۔ پھر شادی کا خرچ؟‘‘
اباجان نے اس پر بتایا کہ وہ شادی کے لیے رقم اکٹھی کرچکے ہیں۔ اماں جان اپنا زیور بیچنے کا ارادہ رکھتی تھیں تا کہ اس رقم سے نئی قسم کا زیور بنایا جاسکتا۔ یوں میرے آنگن میں ایک اور ’نیا خدا‘ آگیا۔ یہ خدا میری خدمت کرتا تھا۔ میرے والدین کی دیکھ بھال سے لے کر میرے کھانے پینے تک کی تمام خدمت اسی کے ذمے تھی۔ میرے والدین بھی اس خدا سے مطمئن تھے اور میں بھی اس خدا سے خوش تھا۔ شادی کے ایک سال بعد میرے گھر میں ایک نیا خدا آگیا۔ ننھا منا سایہ خدا بے حد پیارا تھا اس نئے خدا سے گھر میں رونق آگئی۔ اس کے ساتھ ہی میری بیوی کی عزت کو چار چاندلگ گئے کیونکہ اس نے آتے ہی بیٹادے دیا تھا۔ اب میں نے اپنے آپ کو ان دونوں خداؤں کے لیے وقف کرلیا تھا کیونکہ ایک خدا میرا آج تھا تو دوسرا آنے والا کل۔ ایک خدا میرا صبح سے شام تک خیال رکھتا تھا تو دوسرا میرے مستقبل کا سہارا اور میرا دست و بازو تھا۔ یہی خدا تو میری جائیداد کا وارث تھا۔ شادی کے دوسال بعد ایک نئے خدا کی آمد ہوئی اور یوں مجھے دوسرا بازو بھی مل گیا۔ میری بیوی جو اب دو بیٹوں کی ماں بن چکی تھی، میرے دل میں اس کی قدر اور بھی بڑھ گئی اور پھر میرے لیے ایک نئے خدا کا اضافہ ہوا۔
یہ نیا خدا تھا امریکا کا ویزا! میں جس کمپنی میں ملازمت کرتا تھا اس کی امریکن برانچ نے یہ ویزا میرے لیے بھیجا تھا۔ میرے ساتھ جانے والے میرے کچھ اور کو لیگ بھی تھے، میں امریکا کیا پہنچا، میرے لیے تو خداؤں کے ڈھیرلگ گئے۔ دولت، عزت، مال، اسباب، اختیارات اور بہت کچھ۔۔۔ میں نئے سے نئے خدا خریدکر پاکستان بھیجتا رہا۔ کبھی ڈالروں کی صورت میں اور کبھی تحائف کی شکل میں۔ پانچ سال امریکا میں رہنے کے بعد میری واپسی ہوئی کیونکہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو جس پروجیکٹ کے لیے امریکا بھیجا گیا تھا وہ مکمل ہوچکا تھا۔ میں پاکستان آیا تو دنیا ہی بدل ہوئی تھی، میرے آگے پیچھے خداہی خدا تھے۔ بے شمار خدا، خوبصورت کوٹھی، کار، لیپ ٹاپ، ٹی وی، فرنیچر اور بہت کچھ۔۔۔ خداؤں کی فہرست یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ان کے ساتھ کچھ نئے قسم کی خدا بھی تھے۔ پاکستان جانے سے پہلے میں جن کو جانتا تک نہ تھا جنہوں نے کبھی میری خبر بھی نہ لی تھی مگر جو نہی میں امریکا پہنچا اور میرے گھر پر دولت کے ڈھیر لگے، ان خداؤں نے میرے گھروالوں سے تعلقات بنالیے۔ نئے قسم کے یہ خدا ’رشتے دار‘ کہلاتے تھے۔ یہ خدا مصیبت میں مدد دینے والے تھے۔
پھر یوں ہوا کہ میرے گھر پر بھی بدبختی آئی اور میرے سر پر سے ایک خدا کا سایہ اٹھ گیا، ماں اس دنیا سے کیا گئی میری تو دنیا ہی اجڑ گئی۔ ہاں۔۔۔ یہی تو میرے خیال میں میرا پہلا خدا تھا جس نے مجھے گود میں کھلایا تھا اور جس میں میرا یقین سب سے پہلے پختہ ہوا تھا۔ اس خدا کے رخصت ہوجانے کے چند ماہ بعد ہی باپ نامی خدا بھی رخصت ہوگیا، یہ وہ خدا تھا جس نے مجھے جوان کرنے کے لیے اپنی جوانی وقف کی تھی، مجھے بہترین تعلیم دلائی تھی۔ میں اب اکثر اداس رہنے لگا تھا جس پر میری خدمت پر مامور خدا مجھے دلاسا دیتا، میرے آنسو پونچھتا۔ ابھی مجھے صبر بھی نہ آیا تھا کہ ایک اور خدا بھی رخصت ہوگیا، اس خدا کا نام صحت تھا۔ یہ وہ خدا تھا جو میری بیوی اور بچوں کا ریموٹ کنٹرولر تھا۔ اس کے کنٹرولنگ سسٹم نے میرے ان خداؤں کو میرے ساتھ ساتھ رکھا ہوا تھا۔ لیکن جو نہی میں ٹی بی کا مریض بنا، یہ تینوں خدا بھی رخصت ہوگئے۔ بیوی نے لڑ جھگڑ کر مجھ سے طلاق لے لی دونوں بیٹے اسی کے ساتھ چلے گئے۔
آج ہسپتال کے بیڈ پر بے یار و مددگار پڑا ہوا ہوں۔ میں جن کو ’خدا‘ سمجھتا تھا وہ یا تو ’مر‘ چکے تھے یا روٹھ چکے تھے، میرا گھر بک چکا ہے۔ علاج پہ پھونکنے کے لیے جائیداد اور گھر کا سامان بھی بیچ چکا ہوں۔ بیوی بچے مجھے چھوڑ کے جاچکے ہیں۔ دوست احباب نے بھی میرے حالات خراب ہوتے ہی مجھ سے منہ پھیرلیا تھا اور رشتے دار؟ وہ تو آئے ہی فقط میری دولت کے پیچھے تھے، میرے پیچھے نہیں دولت گئی تو وہ بھی گئے۔ بیماری کے سبب مجھے ملازمت سے بھی جواب مل چکا ہے۔
اب میں ہوں اور میرا ’اصلی خدا‘ ہے۔ ہاں! کس دل سے بتاؤں کہ مجھے خدا کب یاد آیا؟ تب جب سبھی نقلی خدا رخصت ہوئے، تب جب میرے پاس کچھ بھی نہ بچا، تب جب ہر خدا سے میری امیدیں ٹوٹ گئیں، تب جب موت کا پروانہ میرے سر پر کھڑا ہے اور تب جب میرے پاس اپنے اصلی خدا کو منانے کے لیے وقت بھی نہیں رہا۔ آہ کاش! میں نے وقت کی قدر کی ہوتی، اصلی خدا کو ہی اپنا خدا جانا ہوتا، افسوس میری آنکھ تب کھلی جب آنکھ بند ہونے کا وقت آچکا ہے۔ مجھے آج پتا چلا کہ جن کی میں تمام عمر پوجا کرتا رہا وہ سب خدا تو نقلی تھے۔ اگر وہ اصلی ہوتے تو کبھی بھی میرا ساتھ نہ چھوڑتے۔ میری تو عمر برباد ہوگئی، میں دھوکے میں مارا گیا۔ کاش۔۔۔! اے کاش کہ میں نے ان جھوٹے خداؤں کے پیچھے اپنا تن من دھن نہ لگایا ہوتا۔ اصلی خدا کے احکامات کے مطابق ان کو ان کی حد میں رکھا ہوتا اور اللہ کو بھول کر ان پر قربان نہ ہوا ہوتا۔ وہ سب خدا تو سب مطلب کے خدا تھے جو مطلب ختم ہونے پر ساتھ چھوڑ گئے۔ ہاں، سارا جہاں ساتھ چھوڑ جائے مگر اللہ پھر بھی ساتھ نہیں چھوڑتا اور ہم جن سے امیدیں لگاتے ہیں وہ کبھی ہماری امیدوں پر پورے اتر ہی نہیں سکتے مگر احمق ہیں ہم کہ خود کو ان کی پوجا کے لیے وقف کرلیتے ہیں اور مطلب کے خداؤں کو سہارا سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اے کاش! حقیقت مجھے پہلے ہی معلوم ہوگئی ہوتی۔ یا اللہ! مجھے معاف کردے، معاف کردے۔‘‘
ڈاکٹر قاسم محمود راؤنڈ پر تھے۔ چلتے چلتے جو نہی اس مریض کے پاس پہنچے تھے، اس کی بڑ بڑاہٹ نے ان کو روکنے اور پھر کھڑے رہنے پر مجبور کردیا تھا۔ آخری جملہ مکمل ہوتے ہی وہ آگے بڑھے تا کہ اس کے آنسو صاف کرسکیں۔ مگر جو نہی وہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھنے لگے، ان کو پے در پے دو جھٹکے لگے۔ پہلا جھٹکا حیرت کا تھا اور دوسرا ٹھنڈک کا کیونکہ اس کا سر اچانک ایک طرف کو ڈھلک گیا تھا، اس کا جسم برف کی طرح ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ یہ مریض دنیا سے جاچکا تھا مگر جاتے جاتے ان کی سوچ کو بدل گیا تھا۔ وقت سے پہلے ان کو بیدار کرگیا تھا۔ ان کے منہ سے نکلا۔ ’’یا اللہ! تو مجھے بھی معاف کردے۔‘‘
لگے ہاتوں آپ سب بھی توبہ کرلیجیے۔

 

خواتیں کا اسلام میگزین، نمبر 670


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں