”گائے“ کی تقدیس حقیقت کے آئینے میں

”گائے“ کی تقدیس حقیقت کے آئینے میں

”گائے“ کی تقدیس یا ”گئو سالہ“ پرستی کا معاملہ نیا نہیں ہے اور نہ صرف سرزمین ہند کے ساتھ مخصوص ہے، بنی اسرائیل کے ایک گم راہ فرقہ نے اسے رواج دیا تھا، قدیم مصر میں بھی گائے اور بچھڑے کے پوجا کرنے والے رہ چکے ہیں۔

قرآن کریم کی سب سے بڑی سورت کا نام ہی ”بقرہ“ (گائے) رکھا گیا ہے اور اس میں بنی اسرائیل کو ایک جرم کی پاداش میں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جسے بڑے ایچ پیچ کے ساتھ انہوں نے انجام دیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے غائبانہ میں ”سامری“ نامی شخص نے بھی لوگوں کو بہکانے اور عقیدہٴ توحید سے برگشتہ کرنے کے لیے ایک ”بچھڑا“ تیار کرکے لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کیا۔

ہندوستان کو دیکھا جائے تو قدیم زمانہ سے گائے کے ذبیحہ کو فتنہ کا موضوع بنایا جاتا رہا ہے، حالاں کہ آبادی کی ایک بڑی تعداد اسے کھاتی بھی رہی ہے، مذہبی کتابوں میں بھی اس کے بارے میں متضاد قسم کی باتیں پائی جاتی ہیں چناں چہ بہار کے ایک لیڈر نے برملا یہ اعلان کیا تھا کہ ”رش منی بھی بیف کھایا کرتے تھے۔“ ملک کے شمال اور جنوب میں بھی اس کے بارے میں الگ الگ رجحانات پائے جاتے ہیں، جسٹس کاٹجو جیسے لوگ بھی تو ہندو مذھب سے ہی تعلق رکھتے ہیں، لیکن وہ گائے کے گوشت کھانے کا برملا اعلان کرتے ہیں۔

دوسری طرف دیوتاؤں کے نام پر جانور ہی نہیں، انسان کو بھی قربان کرنے یا اس کی بلی دینے کا رواج چلا آرہا ہے ۔

انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل ودانش کی دولت سے نوازا ہے اور اسے بہت سی مخلوقات سے اشرف بنایا ہے اور اپنے اشرف وافضل ہونے کا احساس اور عقل ودانش کے کارناموں اور کرشمہ سازیوں کا نتیجہ ہے کہ وہ جسمانی طور پر کمزور ترین اور غیر محفوظ ہونے کے باوجود شیروں کو پنجرے میں بند کرلیتا، ہاتھی جیسے ڈیل ڈول رکھنے والے جانور پر سواری کرتا اور زمین کے چپہ چپہ میں ہی نہیں، سمندر کی بے لگام موجوں، ہوا کے تیز جھونکوں اور فضا کی بے انتہا بلندیوں پر بھی اس کی ترک تازیاں جاری رہتی ہیں، وہ مظاہر قدرت میں سے جس چیز کو چاہتا اپنے قابو میں کرلینے کی کوشش کرتا ہے، سمندر کی تہوں میں غوطہ خور آبدوزیں، آفاق کی بلندیوں میں اُڑنے والے جہازوں اور سیاروں پر کمند ڈالنے والی خلائی گاڑیوں سب سے انسان کی بے پناہ دانائی وبینائی اور طاقت وقدرت کا اندازہ ہوتا ہے، اس سب کے باوجود انسانی زندگی کا ایک دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ وہ پتھر کے وہی ٹکڑے جسے وہ اپنے قدموں سے روندتا ہے اُسی کے سامنے بڑی آسانی سے سجدہ ریز بھی ہوجاتا ہے اور وہی چوپائے جس پر وہ سواری کرتا ہے، جس کے دودھ اور گوشت کو اپنی خوراک بناتا ہے، اسی کو بڑی آسانی سے اپنا معبود بھی بنا لیتا ہے، اُس وقت نہ اسے اپنی طاقت کا احساس رہتا ہے اور نہ اپنے اشرف وافضل ہونے کا خیال۔

        باہمہ ذوق آگہی ہائے رے پستی بشر
        سارے جہاں سے باخبر اپنے جہاں سے بے خبر

اس سلسلہ میں سوچنے کا ایک انداز یہ بھی ہے:
”گائے ماتا ہماری حقیقی ماں سے بہتر ہے، جس ماں نے جنم دیا ہے وہ تو صرف ایک سال یا دو سال دودھ پلاتی ہے، لیکن گائے ماتا تو ساری زندگی دودھ پلاتی ہے، حقیقی ماں دودھ پلانے کا بدلہ چاہتی ہے کہ ہم ساری زندگی اس کی خدمت کریں، جب کہ گائے ماتا نہ ہم پر کوئی احسان رکھتی ہے اور نہ ہم سے کچھ دودھ پلانے کے بدلہ معاوضہ کے طور پر کچھ مانگتی ہے، زیادہ سے زیادہ اسے صرف چارہ کھلانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

جب حقیقی ماں بیمار پڑتی ہے تو اس کے علاج پر ہمیں بے حساب پیسے خرچ کرنے ہوتے ہیں، لیکن گائے ماتا پر ہمارا کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا، اسی طرح جب اپنی ماں مرجاتی ہے تو اس کے جنازہ پر بھی ہمیں مال خرچ کرنا پڑتا ہے، لیکن گائے ماتا جب مرجاتی ہے تو اس کے جسم کے ہر حصہ سے ہم فائدہ اٹھاسکتے ہیں، یہاں تک کہ اس کی ہڈی، اس کی کھال اور سینگیں بھی ہمارے کام آتی ہیں“۔

یہ محض مفروضہ یا عبارت آرائی نہیں ہے، ایک بہت بڑے گرو اور ایک قوم کے قائد کے الفاظ ہیں۔”گائے“ کے مقابلہ میں ”بھینس“ زیادہ دودھ دیتی ہے، لیکن اس غریب کو یہ مقام حاصل نہیں ہے اور نہ اس کے ذبح کرنے پر واویلا مچتا ہے۔

قدیم زمانہ سے شرک وبت پرستی میں مبتلا قوم کی منطق یہی رہی ہے، وہ اگر کسی چیز کو اپنا معبود بنالے تو پھر اسے عقل ومنطق سے قائل کرنا ممکن نہیں رہ جاتا۔

وہی انسان جو کبھی فضا کی بلندیوں میں اُڑتا، سمندر کی موجوں کا بے خوف مقابلہ کرتا، ستاروں کی گزرگاہوں کی جستجو میں لگا رہتا ہے، وہ کسی بے جان پتھر اور معمولی سے معمولی کیڑے مکوڑوں کے سامنے بھی اپنی پیشانی ٹیکنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا اور دنیا کی بڑی سے بڑی یونیورسٹی سے سند یافتہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تعلیم یافتہ شخص بھی اپنی روایتوں میں اس طرح جکڑا ہوا ہوتا ہے کہ اسے نہ بندر کے سامنے ہاتھ جوڑنے میں تکلف ہوتا ہے اور نہ کسی زہریلے سانپ کی پرستش کرنے میں، اسے ان تمام چیزوں میں معبود کا جلوہ نظر آنے لگتا ہے، چناں چہ دنیا میں نہ تو چاند اور سورج کی پرستش کرنے والوں کی کمی ہے اور نہ اپنے ہی جیسے انسانوں پر چڑھاوا چڑھانے والوں اور ان کے سامنے ڈنڈوت کرنے والوں کی کمی ہے، بلکہ اب تو یورپ والوں کی تقلید میں بعض عرب ملکوں میں بھی ایسے گروہ پیدا ہوگئے ہیں جو خود کو ”شیطان کے پجاری“ (عباد الشیاطین) کہتے اور کہلاتے ہیں اور ہرطرح کے ناجائز وحرام اور خلاف فطرت کاموں میں مبتلا کرنے کے لیے معاشرے کے بہکے ہوئے نوجوانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی متوفی 1297ء کا ایک چھوٹا سا رسالہ ”تحفہ لحمیہ“ کے نام سے چھپا ہوا ہے۔

یہ اُس زمانہ کی یادگار ہے جب انگریزوں کے برصغیر میں قدم جمانے کے بعد اسلام اور مسلمانوں پر چوطرفہ حملہ شروع ہوگیا اور انگریزوں نے دیسی اور بدیسی پادریوں کی ٹیم ایک طرف جمع کرلی اور مقامی پنڈتوں نے الگ سر اُٹھانا شروع کیااور ہرطرف مناظروں اور مذہبی میلوں کا دور دورہ شروع ہوگیا، دیانند سرسوتی خم ٹھونک کر ایک طرف میدان میں تھے اور ان کی ”ستھیارتھ پرکاش“ کا چرچا ایک طرف تھا اور پادری فنڈر دوسری طرف جنگ کا بگل بجارہے تھے، جن سے مناظرہ کے لیے مولانا رحمت اللہ کیرانوی، ڈاکٹر وزیر خاں اور مولانا محمد علی مونگیری جیسے لوگ میدان میں آئے، جنہوں نے اُنہیں شکست دے کر اور گھر تک پہنچاکر ہی دم لیا، اُسی زمانے میں شاہجہاں پور میں ”میلہ خدا شناشی“ منعقد ہوا اور ”مباحثہ شاہ جہاں پور“ اسی کی یادگار ہے، جہاں ہندو، عیسائی مسلمان تینوں اپنے اپنے مذھب کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے اپنے علماء پادری اور پنڈتوں کو لے کر میدان میں آئے تھے اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے مسلمانوں کی طرف سے دفاع کا حق ادا کیا تھا۔

مسلمانوں کے خلاف جو مسائل اُچھالے جاتے تھے ان میں ایک ”گوشت خوری“ کا مسئلہ بھی تھا، حالاں کہ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں تھا دنیا کی بیشتر قومیں گوشت کھاتی آرہی ہیں چاہے وہ مسلمانوں کی طرح گائے، بیل، بھینس اور مرغ کا گوشت کھائیں یا وہ چیزیں جو مسلمانوں کے یہاں ناجائز ہیں، جیسے خنزیر اور مردار وغیرہ۔

حضرت نانوتوی نے اپنے رسالہ میں اسی حقیقت کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دراصل یہ مسئلہ عقیدہ سے جڑا ہوا ہے، اب اگر کوئی شخص اللہ کو مانتا ہے اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ومالک ہے، وہی سب کا معبود ہے تو پھر من مانی کرنے کا راستہ خود بخود بند ہوجاتا ہے، وہ خالق ومعبود جس چیز کو کھانے کی اجازت دے وہ حلال ہوگی اور جس چیز سے منع کرے وہ حرام۔

اسی خالق کا حکم یہ بھی ہے کہ تم طبعی موت مرجانے والے جانوروں کو مت کھاؤ، وہی کھاؤ جسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو، چناں چہ نہ مردار حلال ہے اور نہ بت یا پیر یا کسی اور کے نام پر ذبح شدہ جانور حلال ہے۔

سور خلقی طور پر غلاظتوں کا پروردہ اور ظاہری وباطنی نجاستوں کا انبار ہوتا ہے، اس لیے وہ بھی حلال نہیں ہے، اس میں پائے جانے والے جراثیم کے بارے میں نئے زمانہ کی طبی تحقیقات اور میڈیکل سائنس کے ریسرچ سے آج کوئی بھی شخص اس کی توثیق کرسکتا ہے کہ شریعت نے جن چیزوں کے کھانے سے منع کیا ہے وہ تمام تر امراض کا سرچشمہ اور انسانی زندگی کے لیے تباہ کن ہے۔

٭…بعض جانوروں کا استعمال بار برداری، کاشت کی زمین تیار کرنے اور ان کا دودھ استعمال کرنے کے لیے ہوتا ہے اور ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے۔

اب اگر حلال جانوروں کو گوشت کے لیے ذبح کرنا ظلم ہے تو ان پر بوجھ لادنا اور ان کے بچوں کا حق مار کر ان کے دودھ کا استعمال کرنا بھی تو ظلم ہی ہوگا۔

٭…انسان اگر کسی حلال جانور کے گوشت کو استعمال کرتا ہے وہ گوشت اس کے جسم کا حصہ بن جاتا ہے، اس کے ذریعہ حیوانیت سے نکل کر انسانی وجود میں اُسے ضم ہوجانے کا موقع ملتا ہے۔

خاص طور پر ایسے مذھب والوں کو تو ہرگز اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے جو ”تناسخ ارواح“ یا ”آوا گون“ کے قائل ہیں، گوکہ اسلامی نقطہٴ نظر سے یہ نظریہ صحیح نہیں ہے، لیکن جو یہ نظریہ رکھتے ہیں ان کو تو خوش ہونا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ:

        سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں
        خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

٭…اللہ نے انسان کی جسمانی ساخت، اس کے جبڑے اور کیچلی کے دانت بھی ایسے بنائے ہیں جو گوشت خوروں جیسے ہیں، صرف گھاس پھونس پر اکتفا کرنے والوں کی طرح نہیں ہیں۔

٭…ایسا جانور جو طبعی موت مرجائے اس کے جسم سے ناپاک خون نہ نکل پائے اس کا کھانا انسانی صحت کیلیے ضرر رساں ہے جس کی تائید بھی جدید میڈیکل سائنس اور طبی تحقیقات سے ہوتی ہے۔

٭…سور اور دیگر حرام جانوروں سے سلیم فطرت رکھنے والوں کو طبعی کراہت ہوتی ہے اور اس کے گوشت کا اثر انسانی صحت پر بھی پڑتا ہے اور اس کے اخلاق واعمال پر بھی۔

٭…خالق کے نام پر جان دینا اور معرکہ میں اللہ کی راہ میں شہید ہوجانا جس طرح انسان کے لیے موت کی تکلیف کو آسان کردیتا ہے، اسی طرح جانور کو بھی جب اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے تو وہ بھی ایک طرح کی سرخوشی وسرمستی محسوس کرتا ہے۔

٭…دنیا کی قوموں کو اگر دیکھا جائے تو اکثریت ان لوگوں کی ہے جو گوشت کھاتے ہیں۔

٭…خود ہندو مذھب میں بھی دیوی دیوتاؤں کے نام پر جانوروں کی بلی دینے یا قربان کرنے کا رواج قدیم عہد سے چلا آرہا ہے۔

٭…پھر اگر گوشت کھانا ظلم ہو اور جانوروں کے ساتھ رحمدلی کے منافی ہو تو پھر جانوروں کی کھال سے تیار شدہ جوتے کا استعمال، سوٹ کیس اور تھیلے کی خرید وفروخت اور ان کے کارخانوں کا قیام سبھی ظلم کے خانہ میں آتے ہیں، حضرت نانوتوی نے اپنے رسالہ میں جن نکات کی طرف اشارے کیے ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے ان میں بڑی عبرت وبصیرت ہے۔

بلکہ رحمدلی اگر یہی ہے تو گھوڑوں کی سواری صحیح ہوگی نہ کھیت جوتنے کے لیے بیلوں کا استعمال اور نہ گھوڑسوار فوج تیار کرنا اور نہ ہاتھیوں پر سواری کرنا یہ ساری ہی چیزیں ان جانوروں پر زیادتی شمار ہوں گی۔

پھر یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ گائے کے ذبیحہ میں جنکو ظلم نظر آتا ہے بلکہ چیونٹی، کھٹمل اور مچھر کو مارنے میں بھی جن کو ذی روح پر زیادتی نظر آتی ہو ان کے لیے یہ بات بالکل آسان ہے کہ کسی ”اخلاق“ یا کسی ”نعمان“ جیسے ذی روح انسان کو اذیت دے کر قتل کردیا جائے، اس میں نہ ان کو ضمیر ملامت کرتا ہے اور نہ ”اہنسا“ کا عقیدہ ہی اس ظلم وبربریت سے ان کو باز رکھتا ہے۔

”گائے“ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے کے لیے کسی ”انسان“ کی جان لے لینا نہ ”گائے“ کے ساتھ انصاف ہے اور نہ خود اپنی انسانیت کے ساتھ، گائے کی تکریم اسی میں ہے کہ وہ پھل فروٹ اور دیگر پاکیزہ اور حلال چیزوں کی طرح انسان کے جسم کا جز بن جائے، اللہ نے اس کی تخلیق ہی اسی مقصد کے لیے کی ہے کہ وہ انسانوں کے کام آئے اور انسان ایک رب کی پرستش کرتا رہے اور اس کی عبادت میں کسی مخلوق کو شریک نہ کرے، اسی میں انسانی عظمت بھی ہے اور جانوروں کے ساتھ رحمت بھی، یہ باتیں تو عقل ومنطق کی ہیں ،اب اگر انتہا پسند گروہ کا مقصد ہی کسی طبقہ کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنانا ہو جائے تو پھر #

        بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
        نہیں کام آتی دلیل اور حجت
لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ ظلم کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں رہا ہے۔

ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی
الفاروق میگزین، ربیع الاول 1437 مطابق دسمبر 2015ء
جامعہ فاروقیہ کراچی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں