مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کے اقلیتی کردارپر حکومت کا موقف نا قابل قبول

مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کے اقلیتی کردارپر حکومت کا موقف نا قابل قبول

آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے قومی صدر اور رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل قاسمی نے علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کے تعلق سے مرکزی حکومت کے موقف کی تنقید کر تے ہوئے اسے مسلمانوں کے آئینی حقوق پر حملہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے آئین کی دفعہ ۲۹ اور ۳۰ کے تحت مسلمانوں کو اپنے طور پر تعلیمی ادارے قائم کرنے کی آزادی دی گئی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے چندہ کے ذریعہ ان یونیورسیٹیوں کو قائم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب موجودہ سرکار اقتدار میں آئی تھی تو پاردھان منتری جی نے کہا تھا کہ وہ ـ’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس” کر کے دکھائیں گے اسی طرح انہوں نے کہا تھا کہ وہ ” مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں کمپیوٹر” دیکھنا چاہتے ہیں۔
مولانا نے کہا کہ ان سب وعدوں کے با وجود آخر کیوں سرکار مسلمانوں کے لئے تعلیمی ادارہ کھولنے کی بجائے اقلیتی اداروں کی حیثیت ختم کرنا چاہتی ہے جبکہ علیگڑھ مسلم یونیورسیٹی ۱۹۸۱ میں پارلیمنٹ سے پاس شدہ ایکٹ کے تحت ایک اقلیتی ادارہ ہے اور اسی طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسیٹی کو نیشنل کمیشن فار مائناریٹیز ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن نے اسے اقلیتی ادارہ قرار دے چکا ہے۔
مولانا نے کہا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ ہو یا پھر کرشنا کمیشن کی رپورٹ ہر ایک نے مسلمانوں کی تعلیمی بد حالی سے آگاہ کیا ہے اور مسلمانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے قائم کرنے نیز ان کو تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دینے کی پر زور وکالت کی ہے۔ مگر سرکار اس کااقلیتی کرار ختم کرنے کی جانب پیش رفت سے مسلمانوں میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔ اس فیصلہ سے نہ صرف مسلمانوں کے آئینی حقوق پر ضرب آرہی ہے بلکہ ان کے جذبات کو بھی ٹھیس پہونچا ہے جس سے حکومت کے تئیں غلط پیغام جا رہا ہے۔ اس طرح کا کوئی فیصلہ نا قابل قبول ہوگا او مسلمان آئین کے دائرہ میں رہ کر اس کے خلاف لڑائی لڑیں گے۔

بصیرت آن لائن


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں