غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی سے ایک سال میں 27 فلسطینی شہید ہوئے

غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی سے ایک سال میں 27 فلسطینی شہید ہوئے

انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سنہ 2015 ء میں فلسطین کے محصور علاقے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں کم سے کم 27 فلسطینی شہید ہوئے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق انسانی حقوق گروپ’’مرکز برائے تحفظ انسانی حقوق‘‘ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سلسلہ جاری ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران غزہ کی پٹی میں قابض صہیونی فوج کی دہشت گردی کے نتیجے میں 27 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال اکتوبر میں فلسطین میں شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ کے دوران ایک ماہ میں 17 فلسطینیوں کو شہید اور 544 کو زخمی کیا۔
رپورٹ میں سنہ 2014 ء میں فلسطینی مزاحمت کاروں اور اسرائیل کے درمیان طے پائے سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کو معاہدے کی خلاف ورزیوں کاذمہ دار قرار دیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے فلسطینیوں کے ساتھ طے پائے سیز فائر معاہدے کی کسی ایک شق پربھی عمل درآمدنہیں کیا ہے۔
رپورٹ میں سنہ 2015 ء کو غزہ کی پٹی میں ’’اجتماعی سزاؤں کا سال‘‘ قرار دیا اور کہا کہ صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی کے شہریوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی روکنے کے لیے طاقت کے وحشیانہ ہتھکنڈوں کا کھلے عام استعمال کیا۔ حتیٰ کہ کھانے پینے کی اشیاء اور کپڑوں تک کی غزہ کی پٹی کو ترسیل روکی گئی جس کے نتیجے میں مقامی شہریوں کو سنگین نوعیت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسرائیلی حکام کی جانب سے عاید پابندیوں اور راہ داریوں کی بندش کے باعث غزہ کی پٹی میں ترقیاتی اور تعمیراتی کام بھی بری طرح متاثر ہوئے۔
دوسری جانب قابض فوج نے غزہ کی پٹی میں غیرقانونی دراندازیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ فلسطینی شہریوں پر بلا اشتعال گولہ باری کی جاتی رہی اور فلسطینی محصورین کے حوالے سے عالمی معاہدوں کی سنگین پامالیاں کی گئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2015 ء کے دوران غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی جانب سے 194 مرتبہ بلا اشتعال فائرنگ کی گئی، 44 دراندازی کے واقعات درج ہوئے۔ 27 فلسطینی شہید اور 825 کو زخمی کیا گیا جب کہ 130 فلسطینی شہری حراست میں لیے گئے۔

مرکزاطلاعات فلسطین


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں