اصلاح معاشرے میں خواتین کا کردار اہم رہاہے

اصلاح معاشرے میں خواتین کا کردار اہم رہاہے

خطیب اہل‌سنت زاہدان نے اپنے پندرہ جنوری دوہزار سولہ کے خطبہ جمعہ میں معاشرے کی اصلاح و تربیت میں خواتین کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے خواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے اور شادی کے مسئلے میں ان سے مشورہ لینے پر زور دیا۔
شیخ‌الاسلام مولانا عبدالحمید نے چار ربیع الثانی میں زاہدان کے سنی نمازیوں کے اجتماع میں سورت الاحزاب کی آیت پینتیس کی تلاوت سے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا: خواتین کی اصلاح معاشرے میں کردار اہم اور موثر رہاہے۔ پوری تاریخ میں اسلام اور اس سے پہلے بھی خواتین نے اہم کردار ادا کیاہے۔ جو پیار کا تعلق خواتین اور ان کے بچوں کے درمیان موجود ہے، ایک ناقابل انکار حقیقت ہے جس کا مثبت اثر معاشرے پر پڑتاہے۔
انہوں نے مزیدکہا: تاریخ گواہ ہے جب بھی خواتین صالحہ اور ہدایت کے زیور سے آراستہ تھیں، پورا معاشرہ فلاح و اصلاح میں رہا، وجہ یہ ہے کہ ماوں کے گود بچوں کا پہلا سکول اور مدرسہ ہے۔ اچھی تربیت کے نتیجے میں بچوںکا مستقبل تابندہ رہتاہے۔ آج اگر ہمارے معاشرے میں کوئی اچھائی پائی جاتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ ماوں کی اچھی اور مناسب تربیت ہے۔ حتی کہ ماں کے کردار باپ کے کردار سے بھی زیادہ اہم ہے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے خواتین کے بعض مثبت کردار و خدمات کی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا: سیدہ مریم علیہاالسلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کو جنم دیا جو دنیا میں روشنی کا مینار بن گئے۔ حضرت خدیجة الکبری رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی معاون تھیں اور ہر مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ رہیں، رسالت و نبوت کی ذمہ داریوں میں ساتھی رہیں اور ان کے فرزندوں کی اچھی تربیت کرتی رہیں۔ ساری ازواج مطہرات اور آپ ﷺ کی بیٹیاں رضی اللہ عنہن اس امت پر اثرگزار رہی ہیں۔ حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تربیت حاصل ہوئی۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے عالمانہ کردار کی مثال لے لیں جن کے وصف میں امام زہری رحمہ اللہ نے کہا ہے پورے مدینہ شہر کی خواتین کا علم حضرت عائشہ کے علم کے برابر نہیں ہوسکتا۔ بہت ساری حدیثیں ان سے روایت ہوچکی ہیں اور اکابر صحابہ اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کے پاس جایا کرتے تھے۔
انہوں نے خواتین کی تعلیم پر زور دیتے ہوئے کہا: تمام مسلمانوںکو علم و دانش پر توجہ دینی چاہیے۔ انسان کی قدر علم، دین اور تقوی میں ہے۔ لہذا خواتین کی تعلیم سے غفلت نہیں ہونی چاہیے۔ ان کی تربیت اور تعلیم کے لیے مناسب منصوبہ بندی ہونی چاہیے اور دینی و عصری تعلیم کی راہ ان کے لیے ہموار ہونی چاہیے۔
بیٹیوں کی شادی کے مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: بیٹیوں کی شادی کے مسئلے میں ان کی رائے ضرور معلوم کرکے ان کی خواہش کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ اسلام کا حکم ہے۔ بیٹیوں کو ان کی مشورت کے بغیر اور زبردستی سے شادی کرانا جاہلیت کی رسموں اور جاہلانہ روایات میں شمار ہوتاہے جس کے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں۔ دیندار، پاکدامن اور باپردہ بیٹی کی شادی شرابی و نشئی اور بے دین شخص سے کرانا اپنی بیٹی کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ طلاق کی شرح میں اضافے کی ایک وجہ بیٹیوں کی شادی میں ان کی رائے معلوم نہ کرنا ہے جو ان کی زندگی کے متعلق ہے۔
’خودکشیوں کی شرح میں اضافے‘ کی رپورٹس پر اظہارخیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا: افسوس کا مقام ہے معاشرے میں خودکشیوں کی شرح میں اضافہ افسوسناک ہے۔ کچھ لوگ جب مال دنیا اور اپنی تمنائیں حاصل کرنے میں شکست سے دوچار ہوتے ہیں، تو ناکامی کا احساس انہیں تنگ کرتاہے اور وہ خودکشی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ لوگ نہیں سوچتے ان کا مقصد زندگی کیا ہے؟
انہوں نے مزیدکہا: اگر انسان مقصد حیات کی معرفت حاصل کرے تو ان کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے اور انہیں سکون نصیب ہوگا۔ افسوس کا مقام ہے بہت سارے لوگوں کا گمان ہے ان کی پیدائش کا مقصد پیسہ جمع کرنا اور کوئی عہدہ حاصل کرنا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنی عبادت و بندگی کے لیے پیدا فرمایاہے۔

شام میں فوری طورپر جنگ بندی ہونی چاہیے
اہل سنت ایران کی ممتاز دینی شخصیت نے شام میں جاری خانہ جنگی اور محاصرے کی وجہ سے بھوک و پیاس کے واقعات پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا: آج کل شام سے انتہائی افسوسناک اور دکھ دینے والی خبریں آتی ہیں؛ ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے شام میں بعض شہر اور علاقے محاصرے میں ہیں اور اسی وجہ سے لوگ بھوک کی وجہ سے مررہے ہیں۔ اس واقعے سے بیداردل، دین دوست اور زندہ ضمیر لوگوں کو دکھ ہوا ہے۔
مولانا عبدالحمید نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا: سوال یہ ہے کہ شام کی صورتحال کیوں اس المناک حد تک خطرناک ہوچکی ہے؟ حکومتیں کس وجہ سے اس حدتک اختلافات رکھتی ہیں اور عالمی طاقتیں شامی قوم کے مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے ہی مفادات کی خاطر کیوں اختلاف کرتی ہیں اور شام کو مزید کشت و خون اور آگ میں جلاتی ہیں؟ شامی قوم کی حالت قابل رحم ہے اور ان کی نجات کے لیے دعا کرنی چاہیے۔
رابطہ عالم اسلام کی سپریم کونسل کے رکن نے مزیدکہا: شام کسی وقت آباد ملک تھا اور شامی قوم ایک مہذب اور ثقافت کی حامل قوم ہے۔ اس ملک کے اختلافات و مسائل کا حل صرف سیاسی ذرائع اور مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے۔ اس قوم کی مزید دربدری بند ہونی چاہیے۔ ایک آباد و خوشحال قوم کیوں بھوک کی وجہ سے مررہی ہے؟
مولانا عبدالحمید نے آخر میں زور دیتے ہوئے کہا: تمام طاقتوں، حکومتوں اور اقوام متحدہ کو ہمارا پیغام یہی ہے کہ شامی قوم کے مسائل حل کریں۔ شام میں فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان ہونا چاہیے، محاصروں کا خاتمہ ہونا چاہیے اور شامی مہاجر و پناہ‌گزینوں کے مسائل سنجیدگی سے حل کرنا چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں