تہران کے مرکزی نمازخانے کے امام نے ’سنی‌آن‌لائن‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:

تہران کے مرکزی نمازخانے کے امام نے ’سنی‌آن‌لائن‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:

شیعہ پڑوسی ہمارا دفاع کرتے ہیں

نوٹ: مولانا عبیداللہ موسی‌زادہ کا شمار تہران کے سرگرم اور مخلص علمائے کرام میں ہوتاہے۔ مولانا موسی‌زادہ دارالعلوم زاہدان کے فارغ‌التحصیل اور تہران میں ’نبی رحمت ﷺ نمازخانہ‘ کے امام و خطیب ہیں۔ حال ہی میں اہل‌سنت ایران کی آفیشل ویب‌سائٹ (سنی‌آن‌لائن) نے ان سے خصوصی گفتگو کی ہے جس میں مسلمانوں کے اتحاد و بھائی چارہ، تہران میں سنی برادری کے حالات اور مسمارشدہ نمازخانہ کے مسائل زیر بحث آچکے ہیں۔ ان کے بیان کردہ اہم نکات قارئین کی نذرِ ہے:
    مسلم امہ کی اصلاح اور انہیں متحد رکھنا علمائے کرام کی اہم ذمہ داری ہے۔ جب تک مسلمان اختلافات کے شکار ہوں گے، حقیقی معنوں میں ’امہ‘ بننے کی نعمت سے محروم رہیں گے۔
    فرقہ وارانہ اختلافات کے بہت سارے اسباب ہیں، مثلا ’قرآن و سنت کی تعلیمات سے دوری‘، ’اختلافات پر زیادہ توجہ دینا اور مشترکہ مسائل پر کم توجہ دینا‘، ’مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی پر زور دینے والے علمائے کرام کو پابندیوں میں جکڑنا‘ اور ’متعصب و فرقہ پرست عناصر کو کھلی چھوٹ دینا‘۔
    ذرائع ابلاغ اور علمائے کرام مسلمانوں کو متحد رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انہیں چاہیے منبروں سے عوام کو فرقہ واریت سے دور رہنے کی تلقین و نصیحت کریں۔
    مسلمانوںکے باہمی اختلافات مغرب کے مفادات کے عین مطابق ہیں۔ وہ نہیں چاہتے مسلمان متحد رہیں اور بھائی چارہ کے ساتھ رہیں۔ اب مسلمان باہمی اختلافات میں مگن ہیں اور اپنے اصلی دشمنوں کو بھول چکے ہیں۔
    اتحاد مسلمین کی خاطر کانفرنس منعقد کرنا ایک اچھا اقدام ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ اتحاد کے حصول کے لیے مزید سنجیدہ اقدامات کی ضروت ہے۔ عالم اسلام کے ممتاز علمائے کرام اور شیعہ مراجع کو چاہیے ساتھ بٹھانا چاہیے؛ یہی حضرات شیعہ سنی چپقلش کم کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔
    اتحاد بین المسلمین یقینی بنانے میں اہم ترین کردار ایک دوسرے کے احترام، شیعہ وسنی دانشوروں کے تعامل و افہام وتفہیم اورسب کے حقوق و آزادیوں کی خیال داری کا ہے۔
    تہران میں اہل سنت و اہل تشیع برادریوں میں عملی اتحاد پایاجاتاہے۔ ان کے باہمی تعلقات اچھے بلکہ مثالی ہیں۔ یہاں تک کہ جب بعض عناصر نے ہمیں انتہاپسند ثابت کرنے کی کوشش کی، ہمارے شیعہ پڑوسیوں نے ہمارا بھرپور دفاع کیا۔ وہ لوگ سمجھے ہمارے دفاع کرنے والے سنی شہری ہیں، بعد میں تحقیق سے انہیں پتہ چلا اہل تشیع حضرات نے ہمارا دفاع کیاہے۔ تہران میں غیرمسلم بھی کافی تعداد میں آباد ہیں اور یہاں کوئی مذہبی چپقلش نہیں ہے۔
    ’نبی رحمت ﷺ‘ نمازخانہ کے مسائل اب تک موجود ہیں اور ہم اس مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔ ہم نے متعدد اعلی حکام اور محکموں کو خط لکھ کر اپنے موقف ان کے سامنے رکھا ہے کہ ہمارا تعلق کسی مخصوص گروہ، پارٹی یا بیرونی ملک سے نہیں ہے۔ ہم ایران ہی کے فرزند اور شہری ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین کا احترام کرتے ہیں اور افراط و تفریط سے گریز کرتے ہیں۔امید ہے یہ مسئلہ حل ہوجائے اور مسمارشدہ نمازخانے کی بحالی کی اجازت مل جائے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں