اصلاح معاشرے کے لیے محنت کرنا سب کی ذمہ‌داری ہے

اصلاح معاشرے کے لیے محنت کرنا سب کی ذمہ‌داری ہے

ایران کے ممتاز سنی عالم دین مولانا عبدالحمید نے اپنے آٹھ جنوری دوہزار سولہ (ستائیس ربیع الاول)کے خطبہ جمعہ میں گناہوں اور معاصی سے پرہیز پر زور دیتے ہوئے اصلاح معاشرہ اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو سب کی ذمہ داری قرار دی۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے قرآنی آیت: «كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ» [آل عمران:۱۱۰] کی تلاوت سے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا: اہل دین کی بطور خاص ذمہ داری بنتی ہے سب سے پہلے اپنی ، پھر اپنے اہل خانہ اور بعد میں کل معاشرے کی اصلاح کے لیے محنت کریں۔ سچے مسلمان ہمیشہ معاشرے کی اصلاح کے لیے غور کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں اپنے اردگرد کے لوگوں کی اصلاح کریں تاکہ وہ اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔
انہوں نے مزید کہا: فساد و تباہی اور امت کے اختلاف و تشتت کی راہ روکنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ بطور خاص علمائے کرام کی ذمہ داری بنتی ہے اس میدان میں قدم رکھیں، چونکہ ان کا علم شریعت اور احکام کے حوالے سے زیادہ ہے۔ اللہ تعالی نے علما، صاحبانِ عقل و دانش کو خبردار کیاہے اگر وہ اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کریں اور فساد کا راستہ نہ روکیں، پورا معاشرہ عذاب سے دوچار ہوگا۔ جو معاشرہ گناہ، غفلت اور جرائم کی طرف چلے، تباہی و ہلاکت اس کا انجام ہوگا۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: افسوس کا مقام ہے مسلم معاشرے میں جاہلیت کے آثار اب تک موجود ہیں۔ آج کی جاہلیت اسلام سے پہلے کی جاہلیت سے زیادہ بری ہے؛ لسانی تعصبات، جھوٹ، الزام تراشی اور بے جا تعصبات جاہلیت کی نشانیاں ہیں۔ بعض نادان لوگ اپنے قرضے کی خاطر بوڑھوں اور بچوں کو اغوا کرتے ہیں، حالانکہ اسلام نے بچوں اور بوڑھوں سے رحم و شفقت کے معاملے پر زور دیاہے۔ جس پر قرضہ ہو، صرف وہی شخص جوابدہ ہوگا۔
انہوں نے مزیدکہا: دشمنوں کی ایک سازش یہ ہے کہ معاشرے میں فحاشی و عریانی کو زیادہ سے زیادہ عام کیاجائے۔ اس سلسلے میں وہ سیٹلائیٹ ٹی وی چینلز جیسے ذرائع کے پروگراموں کا سہارا لیتے ہیں تاکہ پاکیزہ اسلامی ثقافت کو مٹاکر اس کی جگہ اپنی گمراہانہ ثقافت لائیں۔ لہذا ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہیے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے اصلاح معاشرہ کو سب کی ذمہ داری یاد کرتے ہوئے کہا: معاشرے کی اصلاح صرف علمائے کرام کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ ہر سمجھدار مسلمان کی ذمہ داری ہے معاشرے کو فساد اور گناہوں سے بچائے۔ ہر شخص پر لازم ہے اپنی حد تک نصیحت سے کام لیتے ہوئے معصیت و نافرمانی کی راہ روکنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالی کے احکام سے سرپیچی و بغاوت سخت گناہ ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے قرآن وسنت کی تعلیمات کے خلاف عمل نہ کریں۔

ایران سعودی عرب کا سفارتی تعلقات ختم کرنا عالم اسلام کے مفاد میں نہیں
اہل سنت ایران کی ممتاز دینی شخصیت نے سعودی شیعہ عالم دین کی پھانسی اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات ختم کرنے کو عالم اسلام کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطبہ جمعہ کے ایک حصے میں ’نمر باقر النمر‘ کی پھانسی کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: سعودی عرب میں شیخ نمر کی پھانسی سے پریشانی پیدا ہوگئی اور جذبات میں اشتعال آیا۔ شیعہ عالم دین نمر باقرالنمر کو قید میں ڈالنے کے بعد مزید شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔
انہوں نے مزیدکہا: شیخ نمر کو سزائے موت دیے جانے پر نہ صرف شیعہ برادری میں منفی تاثرات پیدا ہوئے، بلکہ اس سے شیعہ و سنی سمیت سب پریشان و مضطرب ہوئے۔ عالم دین، چاہے شیعہ ہو یا سنی حتی کہ غیرمسلم اور اہل کتاب، تب بھی اس کے قتل سے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ البتہ جو شخص قتل کا ارتکاب کرچکا ہے، اس کا حکم الگ ہے اور اس کے بارے میں شریعت کا حکم جاری ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر ایک مذہبی رہنما کو قتل کرکے لوگوں کو اشتعال اور طیش میں نہیںلانا چاہیے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: مذکورہ عالم دین کی پھانسی پر بہت سارے لوگوں اور اداروں نے تنقید کی۔ ہم نے بھی اپنی ناپسندی کا اظہار کیا۔ یہ ممکن تھا کہ سزائے موت کے علاوہ کوئی اور سزا دی جاتی اور حکمت سے کام لیتے ہوئے پھانسی دینے سے گریز کیا جاتا۔
انہوںنے نمرباقرالنمر کی پھانسی کے بعد ملک میں رونما ہونے والے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: تہران اور مشہد میں سعودی سفارتخانہ اور قونصلیٹ پر حملہ ایرانی قوم کی شان کے خلاف تھا، شریعت، قومی روایات اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے سفارتخانوں، قونصل خانوں اور سفارتی عملہ کو ہر ملک میں مکمل امن میں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی ملک کسی غلطی کا مرتکب بھی ہو، تب بھی کسی ضدی اور خودرائے ٹولے کو ایک قوم اور ملک کی عزت داو پر نہیں لگانا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: لیکن یہ بات واضح ہے تمام اعلی حکام بشمول مرشداعلی ان واقعات پر رضامند نہ تھے اور اس سے انہیں پریشانی لاحق ہوئی۔ امید ہے معزز ذمہ داران اس بارے میں مناسب منصوبہ بندی کریں گے تاکہ کوئی فرد یا گروہ مستقبل میں ایک قوم اور ملک کی عزت اور شہرت خراب کرنے کی جرات نہ کرسکے۔
رابطہ عالم اسلامی کی مجلس شورا کے رکن نے سعودی ایران کشیدگی کے حوالے سے اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا: ایران اور سعودی عرب کا سفارتی تعلقات ختم کرنا خطہ اور مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے، بلکہ اس سے مسلم معاشرے کو نقصان پہنچتاہے۔ ایران اور سعودی عرب کو خطے میں ایک خاص مقام حاصل ہے اور وہ عالم اسلام کے دو اہم ملک شمار ہوتے ہیں جو مسائل اور اختلافات ختم کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لہذا ان دو ملکوں کی کشیدگی میں شدت نہیں آنی چاہیے۔
انہوں نے کہا: مسلم ممالک ایک دوسرے سے تعلقات ختم نہ کریں۔ اس سے قوموں اور عالم اسلام کو نقصان پہنچ جاتاہے۔ اسی لیے ہمیں امید ہے جلد از جلد مذاکرات اور تدبیر سے یہ تعلقات بحال ہوں۔

پھانسی کی سزا میں نظرثانی کی ضرورت ہے
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے بعض ملکوں میں پھانسی کی سزا پر غیرضرروی انداز میں عملدرآمد پر تنقید کرتے ہوئے کہا: پھانسی دینا سخت ترین سزا ہے جو بلاضرورت اچھا کام نہیں ہے۔ اسلامی شریعت میں سزائے موت پر بعض معدود صورتوں میں عملدرآمد ہوتاہے۔ مسلم اور غیرمسلم ممالک جو پھانسی کے قانون پر عمل کرتے ہیں، اپنے قوانین میں نظرثانی کریں۔
انہوں نے کہا: ہر ملک کا قانون نظرثانی کے محتاج ہے اور بوقت ضرورت اس میں تبدیلی لانی چاہیے۔ کسی بھی ملک کا قانون آسمان سے اتری ہوئی وحی نہیں ہے جس میں تبدیلی لانا ممکن نہ ہو۔ یہ سب انسانوں کے فہم کے مطابق بنائے گئے قوانین ہیں اگرچہ وہ لوگ فقیہ و عالم ہی کیوں نہ ہوں۔ چونکہ انسان سے خطا کا سرزد ہونا ممکن ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں