2015 میں بلوچستان سے 463 افراد جبری طور لاپتہ،157 لاشیں ملیں

2015 میں بلوچستان سے 463 افراد جبری طور لاپتہ،157 لاشیں ملیں

پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ سال 2015 کے دوران صوبے بھر سے مزید 463 افراد جبری طور پر لاپتہ ہوئے ہیں۔
جمعے کو کوئٹہ پریس کلب میں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے لواحقین کی تنظیم وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ سال بھر میں 157 بلوچ افراد کی مسخ شدہ لاشیں برامد ہوئیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے یہ اعدادو شمار لاپتہ افراد کے رشتہ داروں ،سیا سی و انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر ذرائع سے حاصل کیے ہیں۔
نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کی تعداد اس سے کئی زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ حکومتی سطح پر یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت 9 ہزار سے زیاد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتی ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت گرفتار افراد کے بارے میں ان کے رشتہ داروں کو آگاہ کریں لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ جبری طور پر لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم کا کہنا ہے کہ قانونی تقاضوں کے برعکس نہ ان گرفتاریوں کی تفصیلات جاری کی گئیں اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ ان افراد کو کن حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔
وائس فار بلوچ پرسنز کے چیئر مین نے کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت گرفتار ہونے والے بعض افراد کو 90 دن سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا لیکن ان کو تاحال کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
صوبے کے مختلف علاقوں سے کمی و بیشی کے ساتھ لاشوں کی برآمدگی کاسلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن بلوچستان کی موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان میں کمی آئی ہے۔
صوبائی حکومت نے کہا تھا کہ 2014 کے دوران صوبے سے 164 ایسی لاشیں ملی ہیں۔
تاہم پاکستان میں لاپتہ بلوچ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سال 2014 میں 435 بلوچ لاپتہ ہوئے جبکہ 455 افراد کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔
بلوچستان کے طول و عرض سے تشدد زدہ لاشوں کی بر آمدگی کا سلسلہ 2008 میں شروع ہوا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کی مذمت کی ہے اور اسی وجہ سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز میں شامل لواحقین نے کوئٹہ سے اسلام آباد تک احتجاجاً پیدل مارچ بھی کیا تھا۔

بی بی سی اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں