ترکی جدید اسلامی انقلاب کی راہ پر

ترکی جدید اسلامی انقلاب کی راہ پر

1923 میں ترکی کے فوجی حکمراں مصطفٰی کمال پاشا جسے اتاترک اور جدید سیکولر ترکی کا بانی بھی کہا جاتا ہے جب اس نے عالم اسلام کی آخری ریاست ترکی سے بھی خلافت اسلامیہ کا خاتمہ کرتے ہوئے جدید سیکولر جمہوریہ کا اعلان کیا تو شاعر مشرق علامہ اقبال کی زبان سے بے ساختہ ایک آہ نکلتی ہے کہ

چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
ترکی میں اتاترک کو یہ کامیابی اور مقبولیت کیسے ملی اس کی بھی اپنی ایک طویل تاریخ ہے – مختصراً ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی کے جدید مادی انقلاب نے صرف ترکی کو ہی متاثر نہیں کیا اس انقلاب کی زد میں تمام عالم اسلام اور ہند و پاک کے مسلمان بھی آئے – فرق اتنا ہے کہ عالم عرب ترکی مصر ایران انڈونیشیا افغانستان پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ کی آبادی خالص مسلمانوں پر مشتمل تھی اس لیے یہاں کے حکمرانوں کو بدلنے کیلئے کم سے کم ایک آئین تھا۔ پر ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی آبادی نے ایک علی گڈھ یونیورسٹی , سرسید اور چیخ و پکار پر ہی اکتفا کر لیا -مگر ان ممالک کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھانا بھی بے سود ہے کہ جب کسی ملک کا آئین بدلتا ہے تو اس ملک کی طرز سیاست بھی بدل جاتی ہے اور سیاست، اس ملک کی طرز معیشت و معاشرت اور تہذیب وتمدن اخلاق و اقدار تعلیمی نظام کے زاویے کو بھی بدل کر رکھ دیتی ہے -بیسوی صدی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد جیسے ہی خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرا دنیا کے بیشتر مسلم ممالک چند چنندہ رسم ورواج کی شرائط کے ساتھ سیکولر جمہوریہ میں تبدیل ہو گئے- مگر ترکی جو کبھی اسلامی خلافت کا مضبوط قلعہ سمجھا جاتا تھا اسے مصطفٰی کمال پاشا نے اپنے پندرہ سالہ دور اقتدار میں ایک ایسی ریاست میں تبدیل کردیا جہاں سرکاری اداروں میں اللہ اور اس کے رسول کا ذکر کرنا بھی سیکولرآئین سے کفر کے درجے میں شمار کیا جانے لگا – اس نے اسکولوں کے تعلیمی نصاب سے عربی رسم الخط کو مٹا کر لاطینی رسم الخط کو رائج کروایا – مدارس پر پابندی لگائی گئ مسجدوں میں تالے لگا کر اذان تک ممنون قراردیا گیا اورترکی کو جدید ڈھانچے میں ڈھال کر یوروپ سے ہم آہنگ ہونے کیلئے فحاشی عریانیت اور رقص وسرود کے ادارے اور شراب خانے قائم کیے گئے – یہاں تک کہ ایک وقت میں برطانیہ اور جرمنی کے بعد ترکی کو شراب تیار کرنے والے تیسرے سب سے بڑے ملک میں شمار کیا جانے لگا – ترکی کی سیکولر حکومتوں کے ان اقدامات سے مذہبی طبقے میں بے چینی تو پائی جاتی تھی مگر اتاترک کے مضبوط انٹلیجنس نیٹ ورک سےعوام بے بس نظر آئے مگر 1949 میں جب ترکی نے عالم اسلام کے ازلی دشمن اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اورانہوں نے 1950 کے الیکشن میں ترکی کے اعتدال پسند رہنما عدنان میندریس کی ڈیموکریٹک پارٹی کو منتخب کرلیا -انہوں نے آتے ہی نہ صرف مساجد اورمدارس کے دروازے کھلوا دیئے بلکہ عوام کی بے چینی کو محسوس کرتے ہوئے 1959 میں اسلام کو ایک بارپھرترکی کا سرکاری مذہب قرار دے دیا-ڈیموکریٹک پارٹی کی ان اصلاحات کا بروقت فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام پسند رہنما پروفیسر نجم الدین اربکان نے 26 جنوری 1970 کوملی رفاع پارٹی کی بنیاد رکھی – مگر اس پارٹی کے اسلام پسند نظریات اور صوم و صلوٰۃ کی پابندی کی وجہ سے عدالت نے اسے غیر قانونی قرار دے دیا
اس پابندی کے باوجود اربکان کے حوصلے پست نہیں ہوئے انہوں نے 17 اکتوبر 1971 میں ایک بار پھر ملی سلامت پارٹی کے نام سے نئ سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی اور 1973 کے الیکشن میں 74 ارکان کے ساتھا بلند ایجوت کی مخلوط حکومت میں نائب وزیر اعظم منتخب ہو گئے- اپنے اس دور میں نجم الدین اربکان نے مساجد اورمدارس میں اسلامی تعلیمات کے تعلق سے قانون سازی تو کی ہی خصوصاً ملیٹری اداروں میں اسلامی تعلیم کو لازمی قرار دینا ان کا سب سے اہم کارنامہ تھا- ترکی کی فوج جسے اتاترک نے آئین کے محافظ ہونے کا اختیارسونپ رکھا تھا اسلام پسندوں کی ان اصلاحات سے خوش نہیں تھی اسی لیے اس نے اقتدار پر قبضہ کرکے ملی سلامت پارٹی سمیت تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کردی جو 16جولائی 1983 تک قائم رہی- تین سال بعد جب دوبارہ سیاسی سرگرمیاں بحال ہوئیں توعوام جواربکان کی دیوانی ہو چکی تھی اس نے ایک بار پھر اربکان کی پارٹی کو اسی جذبے کے ساتھ کامیاب کیا اور 1996 تک وہ 153 ارکان اسمبلی کے ساتھ ترکی کے وزیر اعظم بن گئے – مگرایک بارپھر فوج نے نجم الدین اربکان کو ایک اسلامی نظم پڑھنے کے جرم میں اقتدار سے معزول کر دیا – فوج کے اس مسلسل جبر کی حکمت عملی سے اسلام پسندوں کی حمایت میں اضافہ ہی ہو رہا تھا – اسی دوران اربکان کے ایک دست راست اور موجودہ صدر طیب اردگان استنبول کے میئر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے – طیب اردگان اپنی محنت ایمانداری اورصلاحیت کی وجہ سے عوام کے اندر کافی مقبول ومعروف ہو چکے تھے اورعوام نے بھی اربکان کے بعد اردگان کی شکل میں اپنے مستقبل کی قیادت کا فیصلہ کرلیا تھا جنھیں خود بھی 1997 میں ایک باغیانہ اسلامی نظم پڑھنے کے جرم میں جیل جانا پڑا جس کے بول کچھ یوں تھے –

مسجدیں ہماری پناہ گاہیں ہیں
ان کے مینار ہمارے نیزے ہے
ان کے گنبد ہمارے ڈھال ہیں
اور اہل ایمان ہمارے سپاہی ہیں

اس سزا کے خلاف عوام اپنے ہردلعزیز رہنما کی حمایت میں سڑکوں پر اتر آئی -حکومت کو مجبوراً انہیں رہا کرنا پڑا -اتاترک چونکہ مغربیت سے مرعوب اور مذہب سے بدظن تھا اوروہ مغرب کی جدید ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ مغرب کی فحش تہذیب میں جدید ترکی کے عروج کا خواب دیکھ رہا تھا اور اسے ایک فوجی سپہ سالارکی حیثیت سے کچھ کامیابی بھی ملی تھی جیسا کہ خلافت عثمانیہ کے کمزورپڑجانے کے سبب پہلی جنگ عظیم میں ترکی کے جن علاقوں پر یونان نے قبضہ کر لیا تھا اتاترک نے اپنے دور میں فوج کشی کر کے اسے دوبارہ حاصل کرلیا مگراسے یہ نہیں پتہ تھا کہ سرحدوں اور زمینوں کو تو طاقت سے حاصل کیا جا سکتا ہے دلوں کو فتح کرنے کیلئے محبت کی ضرورت ہوتی ہے اور تہذیبوں کا احیاء جبر سے نہیں اخلاق سے ہوتا ہے اوراخلاق یہ ہے کہ انسان دوسروں کے مذہبی جذبات اور عقائد کو برداشت کرے – ویسے اقبال نے مغربی تہذیب کے زوال کی جو پیشنگوئی کی تھی کہ
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کریگی
ترکی میں اتاترک کی مغربی تہذیب کے احیاء کا منصوبہ ناکام ہو چکا ہے اور اربکان نے جس اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی طیب اردگان کی شکل میں ترک عوام نے 2002 کے الیکشن میں اسمبلی کی 550 سیٹوں میں سے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو 363 ارکان کے ساتھ اسمبلی میں پہچا دیا اور ترکی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ملک کے وزیراعظم اورصدر دونوں ایک اسلام پسند جماعت سے منتخب ہو کر آئے اور اکثر جو فوج صدرکی مدد سے منتخب جمہوری حکومتوں کو معزول کر دیا کرتی تھی اسے اپنے بیرکوں میں واپس جانا پڑا -2003 میں ایک بار پھر فوج نے طیب اردگان کی حکومت کے خلاف سازش کرنی چاہی مگر ناکام ہوئی -اور اس سازش میں مصروف سو سے زائد فوجیوں کو عدالت نے سزا سنا کر جیل میں ڈال دیا-اس طرح اپنی حکومت کے دوران اردگان نے جو سخت فیصلے لیے ان کے اس جرات مندانہ اقدام سے یہودیوں منافقوں اورسرمایہ داروں کی نیند حرام ہوچکی ہے -خصوصاً غزہ کے محصورین کی مدد کیلئے جانے والی کشتی فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیل کی بمباری کے بعد اردگان حکومت نے جس طرح اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی اورسفارتی تعلقات کو منقطع کر نے کا اعلان کیا ان کے اس قدم نے نہ صرف انہیں خود اپنے ملک میں اور بھی مقبول بنا دیا بلکہ عالم اسلام میں بھی انہیں ایک ممتاز مسلم قیادت کا شرف حاصل ہو گیاہے -ترکی کے اس جدید اسلامی انقلاب میں طیب اردگان اور عبداللہ گل اور ان کے جانباز ساتھیوں کی قربانی کا احسان نہ صرف فلسطین کے مسلمانوں پر قرض ہے بلکہ ان کی اہلیہ اور وزیر اعظم نے برما کے مسلمانوں کی دادرسی کر کے اپنی اسلامی غیرت اور حمیت کا ثبوت دیا ہے اور اب جس طرح نومبر 2015 کے الیکشن میں ان کی پارٹی اکثریت سے کامیاب ہوئی ہے یہ ان کا حق تھا اورعالم اسلام خاص طور سے مشرق وسطٰیٰ میں جو نازک صورتحال ہے اور صہیونی طاقتیں جس طرح عرب کے آمروں کے ساتھ مل کر مصر اور شام میں گھناؤنا کھیل، کھیل رہی ہیں طیب اردگان کی یہ کامیابی عالم اسلام کیلئے فعال نیک ثابت ہوگی ،ان شاءاللہ -دیکھنا یہ ہے کہ عالم اسلام کے دیگر حکمراں بھی کہاں تک ترکی کے اس مرد مجاہد کی تقلید کرتے ہوئے صہیونیت کی غلامی کی زنجیروں کو اتار پھینکنے کی جرات کرتے ہیں ۔

عمر فراہی
بصیرت آن لائن


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں