سیرت نبوی کے مطالعے کی اہمیت اور اس کی نگارش کا طریقہ و منہاج (دوسری قسط)

سیرت نبوی کے مطالعے کی اہمیت اور اس کی نگارش کا طریقہ و منہاج (دوسری قسط)

عہد جاہلی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کا زمانہ جاہلی کہلاتا ہے، سیرت نبوی کے پس منظر کے طور پر یہ زمانہ بھی زیربحث آتا ہے، خاص طور پر عربوں کی ماقبل اسلام تہذیب و معاشرت دل چسپی کا موضوع بنتے ہیں۔۔۔

بعثت محمدی سے پہلے عربوں کی زندگی کورے کاغذ کی طرح تھی، قبائلی زندگی جو تمدن کے نقش و نگار اور تکلفات سے پاک تھی۔ عربوں کے علاوہ دنیا کی مختلف قوموں نے تمدن و تہذیب اور مذاہب و ادیان کی وادیوں میں مختلف راہیں نکالی تھیں۔ مختلف قوموں نے فلسفہ و حکمت اور تمدن و حکومت کے پر رعب نقوش قائم کیے تھے، بہت سی منظم حکومتیں قائم تھیں، علم کی مسندیں آراستہ اور فنون کی بزمیں سجی ہوئی تھیں، مگر سب کا قبلہ غلط تھا اور شر کے رخ پر تھا، اور سب کا سب قرآن کے الفاظ میں ’’بر و بحر کے عالمی فساد‘‘ کا مصداق تھا۔
عرب دنیا سے الگ اپنی صحرائی بدویانہ زندگی میں مست تھے۔ مگر یہ تصور غلط ہے کہ وہ اسلام سے پہلے محض فساد و ظلم کا مجموعہ اور خیر و نیکی سے عاری تھے، شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کارنامے کی عظمت بیان کرنے کی نیت سے غالبا بے شعوری طور پر اکثر یہی تصور قائم کرلیا جاتا ہے۔
عرب بے پڑھ لکھے تھے، تمدن کی رنگینیوں سے دور، اور فلسفے کی موشگافیوں سے ناواقف تھے، ان کو اپنے امی ہونے کا اور کتاب شریعت سے تہی دامن ہونے کا اعتراف تھا۔ مگر ان کی اس کمی نے ان کو فطرت سے قریب اور نفسیاتی اخلاقی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھا تھا۔ وہ مشرک تھے، مگر ان کے اندر دین ابراہیمی کے باقی ماندہ اثرات تھے۔ ان میں بلاکی اخلاقی خوبیاں تھیں، سچائی اور وفاداری میں فرد، عزم و خودداری میں یکتا، اور سادگی و شہامت اور غیرت و ہمت ان کی قومی صفات تھیں۔
ان کی یہ خوبیاں ہی تھیں جن کی وجہ سے ان کا اس نبوت کے لیے انتخاب عمل میں آیا جس کی مخاطب پوری انسانی برادری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قوموں میں آتے تھے، اس لیے کسی قوم میں نبی آنا عام حالات میں اس بات کی علامت نہیں ہوتا تھا کہ وہ قوم دوسری قوموں سے بہتر ہے۔ مگر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عالمی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو عربوں (بنی اسماعیل) کے واسطے سے پوری انسانیت تک پہنچنا تھا، اور وہی آپ کے دین کے سارے عالم کے لیے معلم قرار پائے تھے۔ اس لیے بنی اسماعیل کا اس عظیم کام کے لیے انتخاب خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کچھ خاص امتیازی صفات کے حامل تھے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے بنی اسماعیل کا اور ان میں سے بنوکنانہ کا اور ان میں سے قریش کا انتخاب فرمایا، پھر ان میں سے بنی ہاشم اور میرا انتخاب فرمایا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ نے مجھے مخلوق کی بہتر جماعت میں پیدا فرمایا، پھر اس جماعت کے بہتر قبیلے میں مجھے رکھا۔۔۔ (سنن ترمذی باب فضل النبی)
ایک معاصر سیرت نگاروں کو عربوں کی ان خوبیوں کو ان کی جاہلی تاریخ و ادب کے خزانوں سے نکال کرلانا چاہیے، اور اس بات کا ثبوت پیش کرنا چاہیے کہ کیوں عرب اس امانت کے لیے زیادہ موزوں تھے۔

زمانہ قبل بعثت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور رضاعت کے زمانے کے بہت سے محیرالعقول واقعات سیرت کی کتابوں میں روایت کیے جاتے ہیں، اگر یہ قابل اعتماد ذرائع سے اور صحیح روایات سے ثابت ہوں تو بسر و چشم قبول کیے جائیں۔ مگر ان کی بہت بڑی اکثریت بلکہ سوائے چند کے تمام نہایت کمزور اور بے اصل قسم کی روایتیں ہیں۔ بہت سے لوگ یہ کہہ کر ان کو قبول کرلیتے ہیں کہ فضائل و معجزات کے باب میں ضعیف روایتیں قبول کرلی جاتی ہیں۔ مگر یہ کم علم محسوس کرتا ہے کہ ان روایتوں کی حیثیت محض ’’ضعیف‘‘ روایات کی نہیں ہے، بلکہ اکثر روایتیں نہایت کمزور اور ’’واہی‘‘ قسم کی ہیں، اور محدثین کے جس اصول کا حوالہ دیا گیا ہے، وہ اتنی کمزور روایات یا ’’واہی و موضوع‘‘ روایات کے لیے نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حدیث کی عام معتبر کتابوں میں یہ روایات نہیں لی گئی ہیں۔ بلکہ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان روایات کا اکثر حصہ ایسا ہے کہ اس کو اگر کوئی متقدمین کے عہد میں یہ کہہ کر روایت کرنے لگتا کہ میں سند بیان کررہا ہوں لوگ راویوں کو جان کر خود ان کے بارے میں فیصلہ کرلیں گے، تو محدثین اس کو ہی ساقط الاعتبار یا کمزور قرار دے دیتے۔ اسی لیے حدیث کی عام کتابوں میں ان روایتوں سے احتیاط برتی گئی ہے۔
بعض معاصر اور ماضی قریب کے علماء نے یہ بات کہی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے اور بچپن کے حالات و معجزات اس لیے صحیح روایات میں ریکارڈ نہیں ہوسکے، کہ مسلمانوں کی علمی بزم تو عہد مدنی کے آخری نصف میں آراستہ ہونی شروع ہوئی، ماقبل ولادت اور بچپن کے معجزات کو دیکھنے والے اس دور میں بہت کم بچے تھے، یہ بات تو حقیقت سے قریب تر ہے، مگر اسی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر صحابہ کرام نے ان واقعات کو بیان کیا ہے (چاہے انہوں نے ا ن معجزات و واقعات کو خود دیکھا ہو، یا کسی اور اسے سنا ہو) بہر حال اگر صحابہ نے ان کو روایت کیا ہے تو یہ صرف نہایت کمزور راویوں کے یہاں کیوں ملتے ہیں، معتبر راوی ان کو روایت کیوں نہیں کرتے؟؟ اور اگر صحابہ کرام نے ان کو روایت کیا ہے نہیں ہے تو یہ کمزور راویوں کے پاس کہاں سے پہنچے؟۔
ایک اہم اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اگر یہ محیرالعقول واقعات دینی اعتبار سے سیرت رسول کا ایک مفید و ضروری عنصر ہوتے تو اللہ کی تقدیر میں یہ ضروری ہوتا کہ یہ قابل اعتماد ذریعے سے ہم تک پہنچتے، اس لیے کہ نبی آخرالزماں کی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ جس کا تعلق آپ کی نبوت و رسالت سے ہو اور جس سے سیرت کے نبوی پہلو کو تقویت ملتی ہو وہ مکمل طور پر بے اصل روایات میں ہی پایا جائے، ایسا بہت بعید معلوم ہوتا ہے۔
بہرحال! کمزور روایتوں میں پائے جانے والے محیرالعقول واقعات کے بکثرت بیان سے سیرت طیبہ پر ایک دیومالائی رنگ چھانے لگتا ہے، جو دین اور اس کی دعوت کے لیے مضر ہے۔ ہاں ماقبل ولادت اور بچپن اور جوانی کے جو معجزات اور آیات و دلائل معتبر روایوں اور قابل اعتماد ذرائع سے آئے ہیں ان کا بیان ضروری ہے۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے پہلے ایک نہایت اعلی کردار کی شریفانہ زندگی گذاری تھی، مکی معاشرے میں آپ کا کردار و اخلاق مسلم تھا، قرآن نے بھی مخالفین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلی زندگی کے حوالے سے غور و فکر کی دعوت دی تھی۔ ہمارے سیرت و حدیث کے سرمایے میں ایسی روایات موجود ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت سچائی، راست بازی، عدل، ہمدردی و غم خواری، مکہ میں آپ کے معتبر شخصیت اور اعلیٰ درجہ کی روحانیت و خداپرستی کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ یہ روایتیں سیرت نگار کا قیمتی سرمایہ ہیں۔

مکی عہد
جس طرح کسی با رعب و پر شکوہ و شوکت قلعے کی مضبوطی کا دار و مدار اس کی بنیاد پر ہوتا ہے، جو زمین میں چھپی ہوتی ہے، اسی طرح اسلام کے عظیم الشان قلعہ کا جو مرعوب کن منظر عہد مدنی میں نظر آتا ہے، اس کی مضبوطی کا راز عہد مکی میں چھپا ہوا ہے۔ سطحیت کے ساتھ کیا گیا مطالعہ ان عظمتوں کا راز حنین و تبوک کے میدانوں اور طائف و اوطاس کی وادیوں میں دکھائے گا مگر نگاہ حقیقت بین اور تحلیل و تجزیہ کے ساتھ کیا گیا مطالعہ اس کی جڑیں مکی عہد کی پر سوز دعوت، حکیمانہ تربیت، مؤمنانہ صبر و استقلال، اور مدبرانہ حکمت عملی میں ڈھونڈیں گے۔
مدنی عہد کی طرح مکی عہد کا اتنا مفصل ریکارڈ ہمارے حدیث و سیر کی دفتروں میں نہیں ہے، اس کے تاریخی اور سماجی اسباب بھی تھے، اس لیے یہاں ہم کو زیادہ گہرے تجزیے اور استنباط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے لیے اس عہد کی اہمیت اس اعتبار سے بڑھی ہوئی ہے کہ یہ دور سیرت نبوی کے اس وقت کا شاہد ہے جب مسلمان کمزور اور مغلوب تھے اور ایک غیرمسلم اقتدار کے تحت رہتے تھے، دعوت اسلامی کے راستے میں رکاوٹیں سخت اور بے شمار تھیں۔ پھر چند سالوں کے بعد ہی مدینہ کے افق سے اسلام کے غلبہ کا سورج طلوع ہوتا ہے، صدیوں تک اس کو زوال نہیں ہوتا، اسی روشن اور پُر بہار دن میں فکر اسلامی پروان چڑھتا ہے، مسلمان اپنے انفرادی اور اجتماعی رویے طر کرتے ہیں،ا پنی شریعت و قانون کے ضابطے متعین کرتے ہیں، ان کا پورا ذہنی سانچہ اسی غلبہ و عافیت کے دور میں تیار ہوتا ہے۔ تا آنکہ ۱۲؍صدیوں بعد یہ سورج غروب ہوتا ہے، اور اسی اندھیرے کی رات شروع ہوتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سفر کا مکہ سے آغاز کیا تھا۔
اب ایک مرتبہ پھر امت کو اسی کی حکمت علمی اور دعوتی تدریج کا راستہ ڈھونڈنا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی عہد میں اور مدینہ کے ابتدائی عہد میں سفر کیا تھا، جس میں اصولوں پر عزیمت کے ساتھ جمنے کا سبق ہے، کفر و ایمان کی واضح حد بندی بھی ہے، اور بھر پور حکمت عملی کے ساتھ مخالف ماحول میں اپنے لیے گنجائش پیدا کرنے اور رکاوٹوں کے بیچ سے راستہ نکالنے کی تدبیریں بھی۔
ایک طرف تو آپ کفر سے اسی طرح برائت کا اظہار کرتے ہیں جس طرح سورہ ’’الکافرون‘‘ میں آپ کو حکم دیا گیا تھا، دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو ہاشم سے خاص طور پر اور بنو عبدمناف کے خاندان سے عمومی طور پر نہیں اور کمزور مسلمانوں کی حفاظت میں مدد بھی لے رہے ہیں۔ مکہ کی قبائلی زندگی میں جو رسم و رواج اور عرف ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بھی استعمال کررہے ہیں۔ مدینہ میں مشرک عناصر و یہودی قبائل پر مشتمل ایک مشترک دستوری مملکت بھی تشکیل دے رہے ہیں جو قریشی خطرے کا مقابلہ متحد ہوکر کرے گی۔۔۔۔ مکی زندگی میں آپ کو لچک اور صلابت کے حدود بھی ملیں گے اور عزیمت و رخصت کے اصول بھی، اور ان کے علاوہ ایسے بہت سے رہنما اصول ملتے چلے جائیں گے جو عہد حاضر میں ہمارے طرز عمل کی شرعی بنیاد ہوں گے۔
عہد مکی کے مطالعے میں اس دور کی دعوت کے عناصر کی تلاش ایک اہم موضوع بحث ہے، اس کے متعلق قرآن مجید میں بہت اہم مواد موجود ہے، جو اس پوری فضا کی نہایت مکمل اور مفصل تصویر کشی کرتا ہے جس میں اسلامی دعوت اپنا سفر طے کر رہی تھی۔ قرآن مجید اس دور کی دعوت کے بنیادی عناصر بھی بیان کرتا ہے، اس وقت اس کے کیا دلائل دیے جا رہے تھے؟ کس قسم کے اعتراضات اور شبہات پیش آرہے تھے؟ اس کو بھی واضح کرتا ہے، نیز اس کے بیانات کے بین السطور اور سلوٹوں میں یہ بھی پڑھا جاسکتا ہے کہ اس مخالف بھری فضا کے کیا نفسیاتی اثرات اہل ایمان پر پڑتے تھے۔
عہد مکی کے مطالعے کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکیمانہ طرز عمل کا گہرا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے، جس میں یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کثیر رخی مخالفت کا سامنا کس طرح کررہے تھے؟ کن شخصیتوں اور جماعتوں کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے ڈھال بنا دیا تھا؟ آپ کا ان شخصیتوں اور جماعتوں سے کس قسم کا رابطہ رہتا تھا؟
عہد مکی کا ایک اہم باب ہجرت حبشہ ہے، ہجرت حبشہ کے دعوتی اور سیاسی پہلووں کو خاص طور پر اہمیت دین چاہیے، یہ بات خاص طور پر نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ جنوبی اور مشرقی عرب کے قبائل فارسی حکومت کی سیاسی سرپرستی کے تحت تھے، اہل مکہ (اور اہل مدینہ) کے بھی کسری کے دربار سے تعلقات تھے، خود کسری بھی ان علاقوں کے لوگوں کو اپنا محکوم جانتا تھا، اسی لیے جب اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پہنچا تو اس نے آمرانہ تکبر سے کہا: ’’یکتب الیّ ھذا و ھو عبدی‘‘ (میرا غلام ہو کر مجھ سے اس طرح خطاب؟) اور اسی لیے اس نے اپنے یمن کے گورنر کو لکھا کہ وہ مدینہ دو آدمی (صرف دو) بھیج کر آنحضرت کو گرفتار کروا کر مدائن بھیج دے۔۔۔ اس پس منظر میں دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حبشہ کی حکومت کے پاس بھیجاجو ایران کی ساسانی حکومت کی عالمی حریف سلطنت روما کے تابع اور اس کی ہم مذہب (عیسائی) تھی۔
حبشہ میں مسلمان ایک غیر مسلم حکومت کے ماتحت رہنے لگے، جو ان کو ان کی ذاتی زندگی میں مذہبی آزادی بھی دیتی تھی، اور ان کی حفاظت بھی کرتی تھی، صحابہ کرام نے بھی اس حکومت سے وفاداری اور خیرخواہی کا ثبوت اس حد تک دیا کہ اس کے لیے اپنی فوجی خدمات تک پیش کیں۔۔۔۔ حبشہ میں مسلمانوں کا رویہ اور طرز عمل ہمارے سامنے حکمت عملی کے اہم دروازے کھولتا ہے، اسی طرح حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی نجاشی کے دربار میں کی گئی تقریر اسلامی دعوت و سیاست کا ایک شاہکار ہے۔
اہل علم و فکر کے لیے ایک سوال یہ بھی غور طلب ہے کہ وہ کون سی مصلحت تھی کہ جس کی خاطر مہاجرین حبشہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امن و حفاظت اور آزادی کا وطن میسر ہونے کے بعد بھی اس وقت تک نہیں بلایا جب تک صلح حدیبیہ نہیں ہوگئی، یہ لوگ صلح حدیبیہ کے بعد جب عرب میں کوئی بڑی مخالفت نہیں رہ گئی تھی وہاں سے واپس ہوے اور فتح خیبر کے بعد آں حضرت ﷺ سے ملے۔
مکی دعوت کا ایک اہم باب موسم حج اور اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبائل کے وفود سے ملاقات بھی ہے، جس میں آپ ان کو اسلام کی بھی دعوت دیتے تھے اور اپنے لیے پناہ اور حفاظت کی بھی فرمائش کرتے تھے۔
اس عہد کے مطالعے کاایک اہم موضوع یہ ہے کہ مکہ والوں کی اور عام طور پر سارے عرب کی مخالفت کے کیا اسباب تھے؟ وہ اسلام دشمنی اور اس کا راستہ روکنے کے لیے کیا کیا وسائل استعمال کرتے تھے؟ اسی طرح ایک نہایت اہم سوال جو بہت سے دلچسپ حقائق کو سامنے لائیگا، یہ ہے کہ کیا اہم مکہ اور قریش کے لیے کچھ ایسی اخلاقی رکاوٹیں یا قبائلی و خاندانی بندشیں تھیں جو عام طورپر ان کی مخالفت کو ایک حد سے آگے بڑھنے نہیں دیتی تھیں؟ راقم سطور کی نظر میں علامہ شبلی نعمانی وہ پہلے سیرت نگار ہیں جنہوں نے کسی حد تک یہ پتہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ قریش اور اہل مکہ اپنی مخالفت اور محاذ آرائی میں ان آخری حدوں تک کیوں نہیں جاتے تھے جہاں تک جانے سے روکنے والی بظاہر کوئی مادی وجہ نہیں تھی؟ راقم سطور کی ناقص نظر میں اس کا سبب آپسی قرابت داری اور خاندانی رشتوں کا پاس اور لحاظ تھا، جو عربوں کا قومی مزاج تھا، حتی کہ اگر بعض بدبخت اس مخالفت میں ان حدوں سے نکلنے کی کوشش کرنا چاہتے تھے تو بھی ان کو روکا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے مخالفانہ اور خطرناک ماحول میں ایک طرف تو نہایت ثابت قدمی کے ساتھ اپنی دعوت پر جمے ہوئے تھے، دوسری طرف آپ اپنی دعوت کی اور اپنے حامیوں کی حفاظت کے لیے مکی معاشرے کے اجتماعی نظام کو بھی استعمال کرتے تھے اور اس کے خیر کے پہلووں کی قدر کرتے تھے۔

عہد مدنی
ہجرت کا واقعہ غیر معمولی حد تک اہم اور سبق آموز ہے، اگر چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ابتداء نبوت میں ہی اس بات کا واضح خدائی وعدہ کرلیا گیا تھا کہ آپ کو اپنے مخالفوں پر واضح برتری حاصل ہوگی، اور آپ کا نبوی مشن مکمل ہو کررہے گا، مگر اس بات کے باوجود اللہ تعالی نے آپ کو ان ساری احتیاطوں کا اور اپنی حد تک ان سارے وسائل کے اختیار کرنے کا حکم دیا جن سے اس عالم اسباب میں مخالفتوں کا مقابلہ کیا جاتا ہے، اور خطروں سے بچا جاتا ہے۔ ہجرت کے موقعے پر اگر چہ یہ یقین ہے کہ ’’ان اللہ معنا‘‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے، اور اس کا آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اطمینان بھی دلاتے ہیں کہ ہم کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، مگر اس کے باوجود آپ چُھپتے بھی ہیں اور بھاگتے بھی ہیں، اور ساری احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرتے ہیں۔
سیرت نبوی کے تجزیاتی مطالعے میں یہ بات بھی غور و طلب ہے کہ مدینہ اور اہل مدینہ میں وہ کون سی خاص بات تھی جو اس کے خداوندی انتخاب کا سبب بنی؟ یہ جستجو مدینہ کی نسبۃً کافی محفوظ جغرافیائی پوزیشن (۱)، آپ ﷺ کا مدینہ میں نانیہالی رشتہ (۲)، مدینہ کے عرب قبائل کا سادہ و نرم مزاج اور خوئے وفا، جیسے اسباب تک پہنچائے گی۔ اس کے علاوہ ایک تاریخی سبب بھی سامنے آتا ہے جس کی طرف امت کی ذہین ترین خاتون ام المومنین حضرت عائشہ کی عقل رسا پہنچی ہے۔ اوس و خزرج کے درمیان کئی دہائیوں سے جنگوں کا جو طویل سلسلہ چلا آتا تھا، اس نے ان کو کسی نجات دہندہ کے استقبال کے لیے ذہنی طور پر تیار کردیا تھا، وہ نجات دہندہ اسلام ثابت ہوا (صحیح بخاری)۔
مدینہ منورہ میں منافقین کے مسئلہ سے کس طرح نمٹا گیا، نیز منافقین اور ان کے طریقہ واردات کا مطالعہ بھی ایک اہم موضوع ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ پہنچے تھے تو مہاجرین کی حیثیت ایک کمزور پناہ گزیں گروہ کی تھی، انصار کبھی کوئی بڑی طاقت نہیں تھے، مدینہ میں مشرک خاندانوں کے علاوہ یہودیوں کی ایک بڑی طاقت بھی تھی جو الگ الگ قبائل میں منقسم اور اپنا دفاعی نظام رکھتے تھے، سارا عرب قریش کا پیرو اور ان کی مذہبی قیادت کا معترف تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر ایک کثیر معاشرتی اور مختلف سماجی اور فوجی طاقتوں پر مشتمل ایک ریاست کی تشکیل کی، جس میں مذہبی گروہوں اور قبائلی اکائیوں کے درمیان باہمی اعتماد، آزادی اور مساوات پر مبنی تعاون و دفاع کا نظام قائم ہوا، پھر اطراف کے مشرک قبائل سے دفاعی معاہدے کیے گئے، جس میں کچھ نے حمایت کے معاہدے کیے، کچھ نے اطلاع رسانی کے، اور کچھ نے کسی حملے کی صورت میں غیرجانبدار رہنے کے۔ آپ نے مدینہ پہونچنے کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال انہی مہمون میں اور ان مقاصد کی تگ و دو میں بسر کیا، اس سلسلے میں غزوہ بدر سے پہلے کے سرایااور مہمات کے مقاصد کی کھوج اور ان کی دریافت نہایت ضروری کام ہے، پتہ چلانا چاہیے کہ ان میں کیا مقاصد حاصل کیے گئے۔
یہ دور بڑی اہمیت کا حامل ہے، اس میں کمزور مسلم ممالک کے لیے نبوی حکمت عملی کی روشنی ہے۔ غزوات نبوی کے اسباب اور پس منظر سے متعلق مزید تحقیق کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اسلام کے عادلانہ قوانین کی روشنی میں اور صحیح روایات کی روشنی میں ان کا مطالعہ کیا جانا چاہیے، مدینہ میں جو اسلامی ریاست قائم ہوئی اس کی تنظیمات، شعبہ جات، اور طریق کار سے متعلق کام ابھی عام نہیں ہوئے ہیں، معاصر مورخین نے اس طرف توجہ کی ہے، ضرورت عمومی مطالعے کی ہے۔
سیرت نبوی کا ایک نہایت اہم موضوع وہ اخلاقی اور روحانی انقلاب ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں آیا، جس کے بارہ میں ہر واقف کار دوست و دشمن کی شہادت ہے کہ دنیا میں کبھی اس سے زیادہ روح پرور بہارِ اخلاق و ایمان نہیں آئی۔ سچی خداپرستی، عدل و انصاف، اور انسانوں کی محبت و نفع رسانی میں اس نسل کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی جس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کیا تھا۔ یہ سیرت محمدی کا سب سے بڑا کارنامہ اور سب سے بڑا معجزہ ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حواشی:
۱۔ مدینہ کے مشرق و مغرب کی جانب ’’حرے‘‘ یعنی ناقابل عبور نو کیلے پتھر تھے، جنوبی طرف گھنے نخلستان، شمال مغرب میں ’’سلع‘‘ نامی پہاڑی اور شمال میں احد کا پہاڑ، اس طرح مدینہ تقریبا ۳ چوتھائی گھرا ہوا تھا۔
۲۔ عربوں میں بھانجے اور نواسے کا رشتہ بڑی حمیت اور غیرت کا ہوتا تھا، بسا اوقات کوئی مظلوم اپنے نانیہالی رشتہ داروں کی مدد سے ہی خطروں کا مقابلہ کرتا تھا، ان کی قبائلی غیرت کے لیے یہ رشتہ اتنا حساس ہوتا تھا کہ وہ عام طور پر اپنا جان مال قربان کرکے بھی اس رشتہ کا پاس رکھتے تھے۔

ــــــــــــــــــــــــــــ
مزید پڑھیں: پہلی قسط

بقلم مولانا محمدیحییٰ نعمانی (ایڈیٹر ماہ نامہ الفرقان لکھنؤ۔ بھارت)
بشکریہ ماہنامہ الشریعہ(اگست 2004ء)


آپ کی رائے

تعليق واحد لـ : “سیرت نبوی کے مطالعے کی اہمیت اور اس کی نگارش کا طریقہ و منہاج (دوسری قسط)

  1. […] دوسری قسط بقلم مولانا محمدیحییٰ نعمانی (ایڈیٹر ماہ نامہ الفرقان لکھنؤ۔ بھارت) بشکریہ ماہنامہ الشریعہ(اگست 2004ء) […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں