تقوی و سچائی کامیابی کے دو اہم اصول ہیں

تقوی و سچائی کامیابی کے دو اہم اصول ہیں

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان کے خطبہ جمعہ (اٹھارہ دسمبر دوہزارپندرہ/چھ ربیع الاول) میں زندگی کے تمام لمحات میں تقوی پر زور دیتے ہوئے ’پرہیزگاری‘ و ’سچائی‘ کو سعادت و کامیابی کی دو اہم بنیادیں قرار دیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطاب کا آغاز قرآنی آیت: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ» کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے اس آیت میں دو اہم اصول بیان فرمایاہے جو کامیابی و سعادت کی بنیادیں ہیں۔ پہلا اصل تقوی اور پرہیزگاری ہے۔ اللہ تعالی نے انسانیت کی نجات تقوی ہی میں رکھا ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: تقوی کا مطلب وسیع اور جامع ہے جو زندگی کے تمام پہلووں کو شامل ہے۔ اللہ تعالی کے احکامات سے بغاوت اور نفسانی خواہشات کے مطابق چلنا تقوی کے خلاف ہے جو مومن کا ایمان اور تقوی خطرے میں ڈالتاہے۔ لیکن احکام شریعت پر عمل کرنا اور گناہوں سے پرہیزکرنا انسان کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے کافی ہے۔
انہوں نے کہا: اللہ تعالی نے ہماری نجات تقوی ہی میں رکھاہے۔ تقوی انسان کو دنیوی چیلنجز اور قبر کی مصیبتوں سے نجات دلاتاہے۔ شرک سے پرہیز سب سے بڑی پرہیزگاری ہے۔ لیکن کامل تقوی اس وقت حاصل ہوسکتاہے جب محرمات اور مکروہات سے گریز کیا جائے۔ فرایض، واجبات، سنتوں اور مستحبات کی پابندی تقوی کے درجات ہیں۔ اسی طرح بعض مباح کاموں پر عمل کرنے سے رفتہ رفتہ گناہ کے دروازے کھلیں گے، ان سے بھی اجتناب ضروری ہے۔
مولانا عبدالحمید نے ’سچائی‘ کو کامیابی کا دوسرا اصل قرار دیتے ہوئے کہا: کامیابی کا دوسرا پہیہ سچائی ہے۔ زندگی میں سچائی بہت اہم اور ضروری ہے۔ سچائی اور امانتداری اسلامی تہذیب کا کتبہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزیدکہا: اللہ تعالی نے مومنوں کو حکم دیاہے ’صادقین‘ کے ساتھ ہوں۔ صادق لوگ وہی ہیں جو عقیدہ، کردار، کلام اور اخلاق میں سچے ہوںاور ان کے عقیدہ و کلام میں کوئی کذب اور نفاق نہ ہو۔ ہمارے معاشرے کا مسئلہ تقوی کی کمی اور سچے لوگوں کی عدم صحبت ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطاب کے آخر میں زور دیتے ہوئے کہا: جو لوگ صادقین کے ساتھی بن جاتے ہیں، ان کا ایمان اور تقوی محفوظ ہوجاتاہے۔ جب بندہ نیک لوگوں کا ساتھی بن جاتاہے، ان سے اثر لیتاہے، اسی طرح برے لوگوں کی صحبت و مجالست انسان کو اللہ کی یاد سے غافل بناتی ہے اور انہیں دنیا کی محبت میں مبتلا کرتی ہے۔

 

نائجیریا اپنی پوری قوم کا خیال رکھے

اپنے بیان کے دوسرے حصے میں ایران کے ممتاز عالم دین نے نائجریا میں پیش آنے والے واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نائجیرین حکومت اور فوج کو مشورہ دیا اپنے عوام کا خیال رکھیں اور اقلیتوں کی دل آزاری سے بچیں۔
زاہدان کے خطیب جمعہ نے نائجیریا میں پیش آنے والے واقعے کو ’چونکا دینے والا‘ یاد کرتے ہوئے کہا: ہر حادثہ اور چپقلش جو مذہبی و فرقہ وارانہ ہو، اس کا وقوع بہت خطرناک ہے۔ عالم اسلام کے لیے فرقہ وارانہ لڑائیوں سے بڑھ کر کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جو شخص فرقہ واریت کو ہوا دیتا ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو، وہ معافی کے لائق نہیں ہے۔ انتشار و اختلاف خاص کر مذہبی اختلاف بہت خطرناک مسئلہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: نائجیرین حکومت اور آرمی کو چاہیے پوری قوم کا خیال رکھیں چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی، مسلم ہوں یا عیسائی و یہودی، یہ سب نائجیرین قوم کے حصے ہیں۔ حکومتوں کی ذمہ داری ہے اپنی قوموں کا دفاع کریں اور فرقہ واریت و انتشار کی روک تھام کے لیے کوشش کریں۔
رابطہ عالم اسلامی کی مرکزی مجلس کے رکن نے کہا: ممکن ہے ہمیں صحیح طورپر معلوم نہ ہو نائجیریا میں ایک اقلیتی شیعہ گروہ کے ساتھ کیا ہوا اور کیوں بعض لوگ مارے گئے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی حکومت کو حق نہیں ہے اپنی اقلیتوں کو مذہبی بنیادوں پر نشانہ بنائے۔
انہوں نے مزید کہا: افسوس کا مقام ہے کہ پوری دنیا میں اقلیتیں دباو میں ہیںاور انہیں امتیازی سلوک اور ظلم کا سامنا کرناپڑ رہاہے۔ عقل، منطق، روایات، قانون اور بین الاقوامی کنونشز کی رو سے دنیا کی تمام اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے اور ان کے حقوق پر توجہ دینی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: تمام حکومتوں خاص کر نائجیریا کی حکومت کو میری نصیحت یہی ہے کہ اپنی اقلیتوں، چاہے ان کا تعلق اہل تشیع سے ہو یا اہل سنت سے، سب کا خیال رکھیں۔ حتی کہ اقلیتوں کی دیگر طبقوں کی بہ نسبت زیادہ خیال داری کرنی چاہیے اور انہیں احترام اور توقیر کرنی چاہیے۔ اگر نائجیریا میں شیعہ اقلیت کے ساتھ کوئی ناروا سلوک ہوا ہے تو حکومت کو چاہیے ان کی رضامندی حاصل کرکے انہیں انصاف فراہم کرے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: مہذب اور تعلیم یافتہ اقوام اور لائق حکومتیں اپنی اقلیتوں پر بہتر انداز میں توجہ کرتی ہیں اور ان کے حقوق کا خیال رکھتی ہیں۔ اگر کوئی حکومت اپنی اقلیت کی حفاظت نہ کرسکے اور ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جائے اور ان کے مذہبی مکانات پر حملے ہوجائیں، یہ سب اس قوم اور حکومت کی کمزوری اور فکری نااہلی کی نشانی ہے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے یاددہانی کرتے ہوئے کہا: جو کچھ ثابت ہوچکاہے، یہی حقیقت ہے کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی بعض اسباب کے فطری نتائج ہیں جن میں دباو، ظلم وجبر اور حقوق کی پامالی شامل ہیں۔
اپنے خطاب کے آخری حصے میں عالمی ایٹمی انرجی ایجنسی میں ایران کے ’جوہری ہتھیار‘ کی تحقیقات کے اختتام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین نے کہا: الحمدللہ پے درپے مذاکرات کے نتیجے میں دنیا اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کہ ایران جوہری ہتھیار کا ارادہ نہیں رکھتاہے۔ یہ بڑی کامیابی پوری قوم، تدبیر وامید کی حکومت اور مرشداعلی کے لیے ہے جنہوں نے مذاکرات کی حمایت کی۔
انہوں نے کہا: امید ہے اس فائل کے خاتمے کے مثبت نتائج جلدازجلد ظاہر ہوجائیں۔ عنقریب معاشی پابندیوں کے خاتمے سے ان شاءاللہ ملک میں معاشی فراخی آئے گی اور پوری قوم کو اس کے مثبت نتائج حاصل ہوجائیں گے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں