نبی رحمت ﷺ کا حسنِ اخلاق

نبی رحمت ﷺ کا حسنِ اخلاق

انسانیت سوز پر آشوب ماحول وفضا میں خالق یزداں نے مربیٔ کائنات صلی اﷲعلیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، شہنشاہِ کونین صلی اﷲعلیہ وسلم کی تشریف آوری کا مقصد ہی یہی تھا کہ دنیا ملعونیت سے آزاد ہو، خدائے رحیم وکریم کے ناموں کا بول بالا ہو، عناد وسرکشی کے رسم ورواج کا خاتمہ ہو۔ اخلاق فاضلہ، اوصافِ حمیدہ کا چلن عام ہو، ہر انسان ایک دوسرے کا ہمدرد وغم گسار بنے۔ احسان شناسی ووفا شعاری، الفت ومحبت، عدل وانصاف کے ڈنکے بجیں اور ابنِ آدم کودارین کی سعادت نصیب ہو۔
اب کیا تھا، اچانک دنیا میں انقلاب آیا، تمام برائیاں ختم ہوگئیں، ہر ایک کو جائز حقوق ملنے لگے، حتیٰ کہ عورتیں بھی قابلِ قدر شمار ہونے لگیں اور انسانی عظمتوں کی حق دار بن گئیں، بچیوں کی پرورش وپرداخت پر جنت کی بشارت دی گئی، شوہر کو ہدایت کی گئی کہ بلا وجہ مار پیٹ، سختی وزیادتی نہ کرے، ان کے حقوق کا پورا لحاظ وخیال رکھے، حاکم ہونے کی حیثیت سے اگر تنبیہ کی ضرورت پڑے تو ان کے بدن کو مار کر داغ دار نہ کرے اور شرعی حدود سے تجاوز نہ کرے، بچی جب مان بن جاتی ہے تو سبحان اﷲ! کیا کہنا،رسول رحمت صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا: ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔
اس حقیقت سے انکار کی جرأت کس کو ہوسکتی ہے کہ شہنشاہِ کونین صلی اﷲعلیہ وسلم انسانی قدر ومنزلت اور اخلاق کریمانہ کے بڑے اونچے درجہ پر فائز تھے، قرآن حکیم نے ببانگِ دہل اعلان کیا ’’انک لعلیٰ خلق عظیم‘‘ آپ تو اخلاق کے بڑے مرتبہ پر فائز ہیں۔
حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا، نبی رحمت صلی اﷲعلیہ وسلم کا اخلاق کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا! کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا ہے؟ خلقہ القرآن، آپ کا اخلاق تو قرآن ہے، خود آپ کا ارشاد مبارک ہے ’’بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘ میں تو اخلاق کو مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں، قیامت کے دن مومن کے اعمال کے ترازو میں کوئی چیز خوش خلقی سے زیادہ وزنی نہ ہوگی اور اﷲ تعالیٰ بد گو اور بد زبان کو سب سے برا سمجھتا ہے، اخلاقیات کے سچے واقعات سے آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کی حیات طیبہ تابندہ ودرخشندہ ہے۔
سرورِ عالم صلی اﷲعلیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے، ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کرنا شروع کردیا، صحابہ کرام ان کی خبر لینے چہار جانب سے دوڑ پڑے، محسن اعظم نے انھیں روک دیا، جب اعرابی پیشاب کرکے فارغ ہوا، تو آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے اسے قریب بلایا اور نہایت ہی شفقت سے اسے سمجھایا کہ عبادت گاہ میں پیشاب نہیں کیا کرتے، پھر پانی لاکر اپنے دست مبارک سے اس جگہ کو دھودیا۔
اسی طرح ایک دن مسجد نبوی میں جلوہ افروز تھے، ایک شخص آیا اور اس نے شہنشاہ کونین صلی اﷲعلیہ وسلم سے ایک رقم کا مطالبہ کیا، اس کا دعویٰ تھا کہ رسول اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کے ذمہ واجب الاداء قرض ہے، رسول اکرم خاموش اس کی باتیں سنتے رہے، اس نے الٹی سیدھی باتیں شروع کردی اور آپ کی عبا پکڑ کر کھینچی، اس گستاخ کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ بپھر کر اس کی طرف دوڑے، ہادی اعظمؐ نے نہایت صبر وتحمل کے ساتھ اس شخص کی گفتگو سن کر فرمایا: اے عمر! عمھیں ایسا ہر گز نہ کرنا چاہیے؛ بلکہ تم مجھے حسن ادائیگی کا مشورہ دیتے اور قرض خواہ کو حسنِ سلوم کی ہدایت کرتے۔
پھر آپؐ نے اس رقم کی ادائیگی کا انتظام کیا، وہ شخص رسول اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کے اس اچھے اخلاق اور حسن سلوک سے اتنا زیادہ متاثر ہوا کہ فوراً اسلام قبول کرلیا۔
حقیقت تو یہی ہے کہ دنیا کی ساری خوش حالی اور امن وامان کا انحصار حسنِ اخلاق ہی پر ہے، اگر انسان اپنے اخلاق وفرائض پر پوری ذمہ داری کے ساتھ عمل پیرا ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی اور ایسا انسان زندگی کے ہر مرحلے میں کامیاب وبامراد ہوگا۔

تیرا وجودِ پاک بصد شرفِ امتیاز
بخشا خدا نے خلق کو ایک تحفہ مایا ناز

محمد امتیاز رحمانی
بصیرت فیچرس


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں