امریکہ میں مسلمانوں اور مسجدوں کے خلاف نفرت میں تین گنا اضافہ

امریکہ میں مسلمانوں اور مسجدوں کے خلاف نفرت میں تین گنا اضافہ

امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز رویہ میں تین گنا اضافہ سامنے آیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ایک مہینے میں مسلم مخالفت درجنوں واقعات پیش آئے ہیں۔ جہاں باحجاب طلبہ پر بھی حملوں میں اضافہ ہوا ہے ، وہیں مسجدوں میں توڑ پھوڑکے واقعات سامنے آئے ہیں ۔ یہی نہیں تاجروں کو جان سے مارنے کی دھمکیوں میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
خیال رہے کہ کچھ دنوں قبل ہی امریکی صدر نے مسلموں کے خلاف پلٹ وار کرنے کو لے کر خبردار کیا تھا۔ کیلی فورنیا میں داعش کے حملے کے بعد براک اوباما اور سول رائٹس لیڈر س نے امریکی شہریوں کے ردعمل کو لے کر خبردار کیا تھا۔ تاہم اس سے قبل کی رپورٹ میں اس طرح کے حملوں میں تین گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ریسرچ گروپ نے اپنی تحقیق کے بعد ڈاٹا جاری کیا ہے۔ یونیورسٹی کے ایک کریمنالاجسٹ براین لیون کے مطابق دہشت گردانہ حملوں کے بعد امریکہ کے مین اسٹریم میں مسلم مخالف جذبات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔ اپنے غصہ اور ڈر کو وہاں کے لوگ اسی شکل میں ردعمل کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ لیون یونیورسٹی میں ہیٹ کرائم ریسرچ کو لے کر دی سینٹر فار اسٹڈی آف ہیٹ اینڈ ایکسٹریمزم نام سے ایک گروپ ہے ۔ لیون نے اس تحقیق کا ڈاٹا نیویارک ٹائمز کو فراہم کیا ہے۔
حالیہ سالوں میں امریکہ میں ایک مہینے میں مسلمانوں کے خلاف اوسطا 12.6 فیصد مشتبہ ہیٹ کرائم سامنے آئے ہیں۔ یہ ایف بی آئی کے ایک ریسرچ گروپ کا ڈاٹا ہے۔ لیکن 13 نومبر کو داعش کے ذریعہ کئے گئے پیرس حملے کے بعد مسلموں کے خلاف حملوں میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ اسٹڈی کے مطابق 38 مسلم مخالف حملے ہوئے ہیں۔ یہ رپورٹ نیوز میڈیا اینڈ سول رائٹس گروپ کے ڈاٹا کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔
تاہم 11 ستمبر 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد ہوئے مسلم مخالف حملوں کے مقابلہ میں یہ اعداد و شمار کم ہیں۔ اس وقت اس طرح کے سینکڑوں واقعات رونما ہوئے تھے۔ اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھوں کے خلاف بھی حملے کئے گئے تھے۔ تاہم لیون کے مطابق حملوں کی نوعیت اسی طرح کی ہے۔ لیون کا کہنا ہے کہ ہم اس طرح کے واقعات سے دکھی ہیں، لیکن یہ چونکانے والا نہیں ہے۔ جب بھی انٹر گروپ کے تنازع کو سرخیاں بنتے ہوئے دیکھا ہے ، اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

بصیرت آن لائن


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں