ہم کو جزا ملے گی محمد ﷺ سے عشق کی

ہم کو جزا ملے گی محمد ﷺ سے عشق کی

امت مسلمہ کی تاریخ کا یہ بڑا المنا ک پہلو رہا ہے کہ اغیار اور دشمنان اسلام نے ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے صاف و شفاف کردار پردھبہ لگانے کی کوشش کی ہے اور گذشتہ چند سالوں سے تذلیلی خاکوں اور نازیبا تبصروں کا سلسلہ جو شروع ہوا ہے وہ مذموسلسلہ آج بھی جاری ہے ۔۲۰۱۵ کے اوائل میں فرانس میں توہین رسالت اور اسکے نتیجے میں رو نما ہونے والے واقعہ کے مہیب سائے سے مسلمان باہر بھی نہیں آئے تھے کہ سر ورق پر اہانت آمیز کارٹون کے اشاعت کے ذریعہ دوبارہ چارلیہیبڈو نے پھر وہی حرکت دوہرائی۔ان معاملات کے کچھ دنوںبعد اتر پردیش کے عالمی شہرت یافتہ شہر دیوبند میںسوشل میڈیا پر توہینِ رسالت کے معاملہ نے ایک بار پھر مسلمانوں کے جذبات کوکرب مسلسل کا شکار بنادیا اور اب شاتم رسول (ﷺ)کملیش تیواری کی جا رحانہ ہرزہ سرائی نے مسلمانانِ ہند کو بیکل کر دیا ہے۔
معاملہ دراصل یہ ہے کہ تہذیبی اور ثقافتی جنگ کے اس دور میں دنیا کے اکثر مذاہب کے پیرو کا ر اپنے اپنے عقائد کی بالادستی قائم کرنے کے لئے اپنی حقانیت ثابت کرنے کے بجائے مد مقابل عقائد کے خلاف پروپیگنڈے کا ہتھکنڈہ استعمال کرتے ہیں،جس سے دنیا ایک خوفناک مذہبی جنگ کی لپیٹ میں ہے۔غور طلب امر یہ ہے کہ اسلام کے خلاف ایک خاص ذہنیت رکھنے والے لوگوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے،جہاںسییہ امن عالم کے دشمن اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کراسلام کے آہنی قلعہ کو مذموم سازشوں کے ذریعہ زمین بوس کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ سچائی ہے جسکو جانتے سبھی ہیں لیکن برملا اسکا اعتراف کوئی نہیں کرتا۔
اسی سلسلہ کی ایک کڑی کے طور پر اسلام مخالف قوتوں کا مشترکہ ایجنڈا یہ رہا ہے کہ اسلام کے خوشنما باغ کو جہاں جہاں سے پانی ملتا ہے ان راستوں کو ہی بند کردیا جائے۔ اس ناپاک منصوبہ کو عملی جامہ پہنا نے کے لیے یہ باطل قوتیں کلام اللہ اور رسول اللہﷺکو تختۂ مشق بناتی ہیں،چنانچہ کبھی کلام اللہ کو قتل و قتال کا مأ خذ قرار دیا جا تا ہے تو کبھی رسول اللہ ﷺ کودہشت گردی کا معلم گردانا جاتا ہے اور موجودہ وقت میں ان ذہنی مریضوں نے تذلیلی خاکو ں اور نازیبا تبصروں کو اپنا آلہ کار بنا رکھا ہے۔
افسوس یہ ہے کہ معاندین کے ان حملوں کو کچھ بد باطن لوگ آزادیء اظہارِ رائے کے تناظر میں بھی دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، شاید انہیں یہ معلوم نہیں کہ توہینِ رسالت کو کبھی بھی اس تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا کیونکہ یہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے جڑا مسئلہ ہے اور رسول اللہ ﷺسے محبت، ان کی اطاعت اور ان سے وفاداری اسلام کی اساس اور مسلمانوں کی شناخت ہے۔ ناموسِ رسالت پر آنچ آجائے اور مسلمان نہ تڑپے یہ ایمانی حرارت کے منافی ہے کیونکہ آپ ﷺ کی ذات مبارکہ مسلمانوں کے لئے مرکزِ محبت ہے۔
اگر کوئی چیز کئی اجزا پر مشتمل ہو تو اس چیز کے کامل ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام اجزاء صحیح و سالم موجود ہوں اور اگر کوئی ایک بھی جز غائب ہوجائے یا اسمیں کوئی نقص واقع ہوجائے تو کوئی بھی صحیح العقل شخص اس چیز کو کامل نہیں کہ سکتا۔ ایسا ہی معاملہ مسلمانوں کے ایمان کاہے کہ اسکی تکمیل کے لئے حبِ نبی ایک لازمی جز ہے جسکے بغیر ایمان کامل نہیں ہوسکتا جسکو خود محسنِ انسانیت نے واضح طور پر فرمادیا ہے کہ ‘تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کے اس کے دل میںاپنے باپ،بیٹے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر میرے لئے محبت موجزن نہ ہو.’پھر کیسے کوئی توقع کرتا ہے کہ توہین رسالت ہواور مسلمان خاموش رہیںاور احتجاج بھی نہ کریںجبکہ بات ایمان کے کامل ہونے اور نہ ہونے تک پہونچتی ہے۔
یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان کے موجودہ تناظر میں جہاں عدمِ رواداری کی تیز و تند آندھیوں نے مسلمانوں کو اپنی چپیٹ میں لے رکھا ہے، عین ممکن ہے کہ مسلمانوں کو بھی عدمِ روادار ثابت کرنے کے لئے شانِ رسالت (ﷺ)میں گستاخی کا ارتکاب کیا جا رہا ہو تاکہ مسلمانوں کے جائز رد عمل کو عدمِ رواداری کا نام دیا جاسکے۔سلام ہے ان تمام مسلمانوں کے لئے جنہوں نے ملک کے چھوٹے قصبوں سے لیکر بڑے شہروں تک شاتم رسول (ﷺ) کملیش تیواری کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیااور اپنی غیرتِ ایمانی اور حب رسول (ﷺ) کو عملی جامہ پہنایا، ان سب کے باوجود کہیں بھی کسی بھی برادرِ وطن کو ہلکی سی بھی تکلیف نہیں پہونچائی گئی۔اسی وجہ سے اس ملک گیر احتجاج میں مسلمانوں کو عدم روادار ثابت نہ کیا جاسکا اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ مسلمان حب رسول (ﷺ) میں تعلیمات رسول (ﷺ) کو بھلا دیں۔ اب بھی مسلمانوں کے لئے یہی ہدایت ہے کہ جذبات میں بہہ کر کوئی ناجائز قدم نہ اٹھائیں جس سے اسلام اور مسلمانوں کے کردار پر ضرب لگے اور جس ملک میں وہ رہتے ہیں وہاں کے نظم و نسق میںبگاڑ پیدا ہو۔
یہاں یہ بات واضح ہوجائے کہ اسلامی نظام میں توہینِ رسالت پر جو مواخذہ ہے وہ اپنی جگہ مسلم ہے۔ہمیںاس بات پربھی کوئی اعتراض نہیں ہے اگر عالمی امن کے علمبردارپیرس میںچندمتشدد لوگوں کے خون خرابے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں ، ہاں ہمیں اعتراض اس بات پر ہے کہ آئے دن توہینِ رسالت کا ارتکاب ہوتا ہے اور مسلمانوں کے جذبات کا خون ہوتا ہے پھریہی لوگمجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کر لیتے ہیں؟ کیوںاس بات کو یقینی نہیں بناتے کہ اس مذموم کوشش میں لگے لوگوں کو سبق آمیز سزا دی جائے تاکہ اس قابلِ نفرت عمل کا سد باب ہوسکے؟اسی طرح گستاخ اخبارات، میگزین ، سائٹس اور کتابوں پر پابندی کوکیوں یقینی نہیں بناتے؟
المیہ یہ ہے کہ موجودہ ماحول میں احترامِ انسانیت کا جذبہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔آج ناعاقبت اندیش لوگ توہینِ رسالت کو اپنی بہادری سمجھتے ہیں۔ان حالات میںامنِ عالم کے نعرہ کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے اسکو ہر صاحبِ عقل سمجھ سکتا ہے، کیونکہ نفرت کی وادی میںمحبت کے پھول کبھی نہیں کِھلتے۔کاش کہعداوتِ محمدی ﷺ میںمدہوش لوگ اس پیغام کوسمجھتے!
معاملہ صرف مسلمانوںکی دل آزاری کا نہیں بلکہ معاملہ احسان فراموشی کا ہے کیوں کہ آ پ ﷺ صرف مسلمانوں کے محسن نہیں بلکہ محسنِ انسانیت ہیں جسکا سر برنارڈشانے کچھ یوں اعتراف کیا ہے :’جتنے بھی لوگ آج تک دنیا میں آئے وہ ان میں سب سے زیادہ عظیم انسان تھے ۔ انھوںنے ایک مذہب کی تبلیغ کی ، ایک ریاست کی تعمیر کی ، اخلاقی ضوابط متعین کئے ، بہت ساری سماجی اور سیاسی اصلا حات کیں ،اپنی تعلیمات کو پیش کرنے اور ان پر عمل کرنے کے لئے انھوں نے ایک طاقتور متحرک سماج قائم کیا اورآنے والے سارے زمانوں کے لئے انسانی دنیامیںایک زبردست انقلاب برپا کردیا ۔‘
کیا کیا جائے انسانی تاریخ کا یہ المیہ رہا ہے کہ واضح رہنمائی اور بصیرت وبصارت کی نعمت ملنے کے باوجودہر دور میں گمراہ اور بے راہ روی کے شکار لوگ موجود رہے ہیں۔اصل پریشانی کی بات یہ ہے کہ ایسے لوگ صرف اپنی ہی دنیا خراب نہیں کرتے بلکہ انکے جر ثوموں سے آس پاس کے لوگ بھی ایک حد تک متأثر ہوتے ہیں اور ناکردہ گناہ کی سزا پاتے ہیں۔خوش بخت ہیں وہ لوگ جو حق و باطل کی اس کشمکش میں حق کے علمبردار ہوتے ہیں۔
ان نا گفتہ بہ حالات میں مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ محسنِ انسانیت کی تعلیمات کو قولاً اور عملاً عام کریں تاکہ یہ حقیقت واشگاف ہوجائے کہ
دنیائے انسانیت کی جس عظیم ترین شخصیت پرانگشت نمائی کرکے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش رچی جاتی ہے وہ محض ایک شیطانی چکمہ ہے۔مجھے امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ اس عمل کے بعدبلا تفریقِ مذہب ہر شخص اس بات کا اعتراف کریگا کہ جس ذات کے اتنے اعلیٰ کردار ہوں اور جو صرف گفتار ہی نہیں بلکہ کردار کے
بھی غازی ہوںوہ کبھی بھی غیر اخلاقی عمل کے پیامبر نہیں ہوسکتے۔

مدثر احمد قاسمی
بصیرت آن لائن
٭مضمون نگار مرکز المعارف ایجوکیش اینڈ ریسرچ سینٹرممبئی میں لکچرار اور ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں