نور بصیرت اور نور بصارت میں فرق

نور بصیرت اور نور بصارت میں فرق

نور بصیرت اور نور بصارت میں فرق: دل کی آنکھ سے دیکھنا نور بصیرت ہے اورظاہری آنکھ سے دیکھنا نور بصارت ہے اور دل کی آنکھ کے حصول کیلئے اپنے آپ کو کسی فقیر کی غلامی میں مکمل سچائی سے دینا ہوگا۔ نفس کی خواہشات کو ختم کرنا ہوگا۔ اُس فقیر پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے ہر مشورے پر عمل کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی نور بصیرت سے آپ منور ہوسکیں گے۔

مرشد ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان: میرے حضرت سید محمد عبداللہ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: جس کا مرشد اس کو کسی کام سے روک نہ سکے اور اس کو ڈانٹ نہ سکے یا اس کو کسی چیز سے منع نہ کر سکے اور اس کو کسی کام کا حکم نہ کرسکے تو وہ مرید سمجھ لے کہ وہ ابھی کچا ہے اور کچا گھڑا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ پکاتب ہوتا ہے جب مشقتوں کی آگ میں آتاہے۔ کسی چیز سے روکنا مزاج کیخلاف تو ہے مگر روکنے سے، منع کرنے سے مزاج ٹوٹتا ہے۔ منع کرنے سے اپنا شریکہ ٹوٹتا ہے اوراپنی فیملیاں ٹوٹتی ہیں، اپنے رواج ٹوٹتے ہیں، اندر کے مزاج ٹوٹتے ہیں، جب یہ سب ٹوٹتے ہیں تو پھر گھڑے کو آگ ملتی ہے اور اس آگ سے وہ گھڑا پکا ہوتا ہے۔

سڑا ہوا عاشق اور گھڑا: ایک سڑا ہوا عاشق جا رہا تھا ایک حسینہ کے سر پر گھڑے کو دیکھ کر کہنے لگا: ’’واہ گھڑے تو ہم سے بھی اچھا ہے کہ حسینائوں کے سر کا تاج بنا ہوا ہے۔‘‘ گھڑا کہنے لگا: ’’میرے تاج بننے کے پیچھے میری مشقتوں کوبھی دیکھ۔‘‘ انسان کہتا ہے میں مشقتیں بھی نہ کروں اور حسینائوں کے سر کا تاج بھی بن جائوں۔

ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کا اپنے وزیر کو جواب: ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وزیر کی بات سن کر اپنی سوئی دریا میں پھینک دی اور پھینک کر کہنے لگے ’’اے مچھلیوں جس رب کو تم مانتی ہو، اس رب کو میں بھی مانتا ہوں، مجھے میری سوئی واپس کر دو‘‘۔ اللہ اکبر! جو اللہ کا ہو جاتا ہے، اللہ اس کا ہو جاتا ہے۔ ساری مچھلیاں منہ کے اندر سوئیاں لے کر پانی کی سطح پر آئیں۔ کوئی سونے کی سوئی لیکر آئی، کوئی چاندی کی سوئی لیکر آئی، ایک مچھلی لوہے کی سوئی لے کرآئی۔ ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ کہنے لگے ہاں میری سوئی یہ ہے۔ پھراپنے وزیر کی طرف مڑ ے جس نے واپس رعایا میں جانے کیلئے کہا تھا، ان سے فرمانے لگے: اب بتا بڑی بادشاہت کونسی ہے؟ وہ وزیر کہنے لگا ہاں واقعی آپ کی بادشاہت بڑی ہے۔ ارے اللہ والو! سچ کہہ رہا ہوں جس کو اللہ کے ساتھ باتیں کرنا نصیب ہو جائے وہ خوش قسمت ہے اور جس کو اللہ کے ساتھ باتیں نصیب نہیں ہوئیں تو سمجھ لو رب ناراض ہے۔ وہ تم سے بات کرنا پسند نہیں کرتا وہ تمہاری کچھ سننا پسند نہیں کرتا جس کو رب کے ساتھ راز و نیاز نصیب ہو جائے وہ شخص خوش قسمت ہے‘ مبارک باد کا مستحق ہے۔ نور بصیرت کی روشنی دیکھنے کے بعد وہ وزیر کہنے لگا مجھے اب پتہ چلا ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کہ آپ کی بادشاہت بہت بڑی ہے ۔ آپ کا تخت بہت بڑا ہے۔ آپ نے بلخ کی حکومت چھوڑی ہے۔ بلخ چیچنیاں کو کہتے ہیں، اس کا نام کوہ قاف بھی ہے۔ کوہ قاف کو اللہ نے بہت حسن و جمال دیا ہے۔ ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے بلخ کی حکومت اللہ کی رضا کیلئے چھوڑی، کسی غرض اور طمع کیلئے نہیں چھوڑی۔
فقیر کی بات کو سن لیں جو اللہ کیلئے حکومت کو چھوڑے گا۔ حکومت سے مراد تاج و تخت نہیں بلکہ ذاتی اختیارات ہیں جیسے: جھوٹ پر اقتدار تھا میں جھوٹ بول سکتا تھا ‘دھوکے پر اقتدار تھا میں دھوکہ دے سکتا تھا‘ فریب پر اقتدار تھا میں فریب کر سکتا تھا‘ چوری پر اقتدار تھا میں چوری کر سکتا تھا‘ حرام پر اقتدار تھا میں حرام کام کر سکتا تھا‘ کسی کے قبضہ پر اقتدار تھا میں قبضہ کر سکتا تھا‘ مجھے فیشن پر اقتدار تھا فیشن کر سکتا تھا‘ مجھے نافرمانی پر اقتدار تھا میں نافرمانی کر سکتا تھا‘ مجھے ترکی بہ ترکی جواب دینے پر اقتدار تھا میں جواب دے سکتا تھا مگر یا اللہ! میں نے تیری خاطر یہ سب نہیں کیا۔ تو ایسا شخص قیامت کے دن ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کیساتھ کھڑا ہو جائے گا کہ اسے اقتدارحاصل تھا مگر اس نے اللہ تعالیٰ کیلئے اپنا ذاتی اقتدار قربان کیا۔ اقتدار چھوٹا بھی ہوتا ہے اور اقتداربڑا بھی ہوتا ہے، کوئی پانچ بندوں کا حاکم ہے، کوئی پچاس بندوں کا حاکم ہے، کوئی علاقے کا حاکم ہے، کوئی شہر کا حاکم ہے، کوئی ملک کا حاکم ہے، کوئی عالم کا حاکم ہے، حاکم تو حاکم ہوتا ہے چاہے وہ حاکم چھوٹا ہو یا بڑا ہو۔

تسبیح خانہ میں آنے والے لوگ: کسی شعبے کے بڑے افسر ہیں، یہاں درس سنتے ہیں اور اس درس کے بعد اللہ پاک نے باتیں کرنے کا سلیقہ عطا فرما دیا۔ بڑے مالدار تھے۔ بڑی گاڑیاں تھیں ‘بڑا تخت تھا‘ بڑی حکومت تھی۔ بہت اقتدار تھا۔ کہنے لگے:’’ اگر آپ مرشد نہ ہوتے تو میں یہ بات کبھی نہ بتاتا کہ میری جیب میں اتنے پیسے نہیں تھے کہ میں وین کا کرایہ ادا کرتا۔ ایک سٹاپ سے دوسرے سٹاپ کیلئے ویگن دس روپے لیتی ہے اور میرے پاس دس روپے بھی نہیں تھے۔ میں گلشن راوی سے اکیلا پیدل چل پڑا ‘پسینے سے شرابور ہو گیا لیکن میں نے کہا کہ میں نے درس میں ضرور جانا ہے بس اس لیے مجھے دیر ہو گئی۔‘‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ حضرات کی قربانی کی برکت سے اللہ پاک لوگوں کی دل ودماغ اور دین و دنیا میں انقلاب پیدا کررہا ہے۔ گھروں کے گھروں کی بساط پلٹ رہی ہے۔ ایک صاحب کے پاس کسی کی امانت 50 ہزار روپے تھے اُس کے وہ پیسے راستے میں چوری ہوگئے تو اس نے اللہ سے باتیں کیں اور اللہ سے عرض کیا یا اللہ میری کوئی ذاتی غرض نہیں پھر یہ پچاس ہزار روپے کیوں گم ہوئے؟ اتنی رقم میں کہاں سے مہیا کروں گا؟ اسی ادھیڑ پن میں تھا کہ اللہ کی مدد آئی۔ وہاں موجود ایک شخص نے مجھے اپنی جیب سے پچاس ہزار روپے نکال کر دئیے اور کہنے لگے ’’یہ رقم میں نے احتیاطاً اپنے ایک دو عزیزوں کیلئے رکھی تھی۔‘‘ حالانکہ ایسا بالکل نہیں تھا اس شخص نے فریب کیا تھا۔ یہ توبس میرے مولا کا کرم تھاکہ وہ چرائی ہوئی رقم واپس کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اس کے دل کی دنیا پلٹ گئی، اللہ نے اس کے دل میں ڈال دیا کہ لوٹی ہوئی رقم واپس کر، یہ میرا دیانتدار بندہ، اس پر امتحان آگیا ہے۔ مجھ سے باتیں کر کے اپنے مسائل حل کرواتا ہے۔(جاری ہے)

ماہنامہ عبقری (نومبر 2015ء)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں