امام ربانی مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ شخصیت‘ حیات وتعلیمات

امام ربانی مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ شخصیت‘ حیات وتعلیمات

یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالی ہر صدی میں دینِ اسلام کی تجدید اور اس میں آنے والی خرافات اور برائیوں کے خاتمہ کے لئے باعظمت شخصیات کو دنیا میں پیدا فرماتا ہے؛جو منشأخداوندی ومرضیٔ رسالت پناہی کے مطابق دینِ متین کی حفاظت کرتی ہیں اور اس میں در آئی خرابیوں کا ازالہ کرتے ہوئے اصلاح امت کا فریضہ انجام دیتی ہیں ، جیسا کہ سنن ابوداود میں حدیث پاک ہے:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں ، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کی ابتداء میں اس امت میں ایسوں کو وجود بخشتا ہے جواس کے لئے اس کے دین کی تجدید کرتے ہیں۔(سنن ابی داود، حدیث نمبر: 4293)
اللہ تعالی ہردور میں چند ایسے نفوس قدسیہ کو وجود بخشتا ہے جو احکامِ اسلام کے محافظ اور قوانینِ شریعت کے پاسباں ہوتے ہیں ،انہیں باعظمت شخصیتوں میں امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔حدیث شریف میں‘امام ربانی کی آمدکی بشارت: یہ ایک مُسَلَّمہ بات ہے کہ اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’ماکان ،ومایکون‘‘یعنی جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ ہوگا‘ان تمام چیزوں کا علم عطا فرمایا،اور آپ نے اللہ تعالی کے اس عطا کردہ علم کی خیرات اپنی امت میں تقسیم فرمائی ہے، اور حضرات اہل بیت کرام و صحابہ عظام رضی اللہ عنہم کی وساطت سے امت تک یہ علم پہنچا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فرامین کے ذریعہ جہاں اور چیزوں کی خبر دی وہیں حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کی بشارت بھی عطا فرمائی،چنانچہ’’ جمع الجوامع،حلیۃ الاولیاء، اور کنزالعمال‘‘ میں روایت ہے: حضرت عبد الرحمن بن یزید بن جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ ہمیں یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری امت میں ایک ایسا شخص ہوگا جس کو’’صِلَۃْ ‘‘ (مخلوق کو خالق سے جوڑنے والا)کہا جائے گا،اس کی شفاعت سے بے شمارافراد جنت میں داخل ہوں گے۔ (جمع الجوامع۔حلیۃ الاولیاء،ج:2،ص:241،کنز العمال،حدیث نمبر:34589)اس حدیث شریف میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے وجودِ مسعود کی طرف اشارہ ہے،امت کے اکابر علماء نے آپ کو اس حدیث شریف کا مصداق قراردیا،اور خود حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: الحمد للہ الذی جعلنی صلۃ۔الخ……۔ترجمہ:تمام تعریف اس خداکے لئے ہے جس نے مجھے دوسمندروں کو ملانے والا(صلہ)اور دو گروہوں میں صلح کرانے والا بنایا ہے،اور درود وسلام ہوہمارے آقاحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو ساری مخلوق میں سب سے افضل ہیں،اور تمام انبیاء کرام وملائکہ پر بھی درود وسلام ہو۔(مکتوبات امام ربانی،دفتردوم،مکتوب نمبر:6) حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے جن دوسمندورں کا ذکر فرمایا ہے ان سے ’’شریعت اور طریقت ‘‘کے سمندر مراد ہیں،اور دو گروہوں سے’’علماء اور صوفیاء‘‘مراد ہیں۔(تذکرۂ مشائخ نقشبندیہ،مؤلفہ علامہ نبی بخش توکلی،ص:265)
امام ربانی کا امت پر عظیم احسان: حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے نازک وقت میں صدائے حق بلند فرمائی جبکہ بادشاہ جلال الدین اکبر نے دین اسلام کے مقابل ایک باطل مذہب ’’دینِ الہی‘‘کی بنیاد رکھی ،مساجد ومدارس کو منہدم کیا جانے لگا،حلال جانور ذبح کرنے پر پابندی عائد کی گئی جبکہ حرام خوری اور شراب نوشی پر کوئی امتناع نہ تھا ،شعائر اسلام کو مٹایا جانے لگا،احکام شریعت کو نظر انداز کرکے باطل نظریات کو فروغ دیاجانے لگا،بادشاہ کے دربار میں آنے والے ہر شخص پر لازم تھاکہ وہ بادشاہ کو سجدہ کرے۔عبادتوں میں بگاڑ پیداہوجائے تو ہی خطرہ کی بات ہے لیکن جب پورے دین میں بگاڑ پیداہوجائے اور بگاڑ کا نام ہی اصلاح رکھ دیا جائے اوربے دینی کوعین دین ٹہرایاجائے تویہ بہت بڑاخطرہ ہے، اور اکبری فتنہ اس قدرشدید تھا کہ اس کا فساد ایک خطہ تک محدود نہ تھا بلکہ دنیا کا ایک براعظم اس کی لپیٹ میں آچکا تھا،ایسے نازک وقت میں امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ایک عظیم قوت کے ساتھ اٹھے اور اکبر کے خودساختہ دین الہی اورباطل نظریات کا خاتمہ کیا۔
حضرت امام ربانی مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تمام توانائیوں کو تحفظِ اسلام اور اعلاء ِکلمۃ الحق کے لئے صرف فرمادیا،اپنی زندگی کا ہر لمحہ فروغ ِدین اور اصلاحِ امت کے لئے وقف فرمادیا۔
دعوتِ حق کے لئے آپ نے حکمت وموعظت کا اسلوب اپنایا،بادشاہ کے مصاحبین کے نام خطوط لکھے ،ارباب حکومت واَعْیانِ سلطنت کو حق کی طرف متوجہ فرمایا۔
حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کے دینی وسماجی اور اصلاحی کارناموں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا،آپ ہزارۂ دوم کے مجدد اور حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے مرید خاص و خلیفہ اور حضرت فاروق اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے بااختصاص شہزادہ ہیں ۔
آپ کا نسب مبارک اٹھائیس(28) واسطوں سے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے جا ملتا ہے ۔ (تذکرۂ مشائخ نقشبندیہ،ص:250)۔
امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات مثالی ہیں ،آپ نے بڑی پامردی سے باطل طاقتوں کا مقابلہ فرمایا،آپ کو قیدوبند کی صعوبتوں سے گذاراگیا،قید خانہ میں بھی آپ نے اپنے مشن کو جاری رکھا،آپ کی مساعی جمیلہ کی برکت اور تعلیم وتربیت کا یہ فیض رہا کہ وہ سارے قیدی جو کل تک قاتل وچور ،شروفساد بپاکرنے والے مجرم تھے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کرکے صالحین واہل اللہ سے ہوگئے ۔
ہماری ذمہ داری ہیکہ جس طرح امام ربانی مجددالف ثانی رحمۃاللہ علیہ نے امر بالمعر وف ونہی عن المنکر کاعظیم فریضہ انجام دیا ہم بھی اس پاکیزہ اسلوب اورآپ کے داعیانہ کردارکواپناتے ہوئے معاشرہ کو امن کا گہوار ہ بنائیں۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے حالات لکھتے ہوئے حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ تعالی علیہ رقم طراز ہیں:غوث الواصلین ، قطب العارفین، محبوب صمدانی ،امام ربانی،مجددالف ثانی امام طریقت حضرت شیخ احمد فاروقی نقشبندی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ آپ نسبتًا فاروقی ہیں ۔اٹھائیس واسطوں پر سیدناعمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے داداہوتے ہیں ، آپ کے کل آباء واجداد،صلحاء وعلماء ہوئے ہیں۔
ماہ شوال المکرم،شب جمعہ،971ھ بلدہ سرہندمیں آپ کی ولادت ہوئی ۔’’خاشع‘‘ 971ھ آپ کی تاریخ ولادت ہے۔(زبدۃ المقامات،مترجم،ص:131،تذکرۂ مشائخ نقشبندیہ،ص:252)۔ایک مبارک خواب:حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت سے قبل آپ کے والد گرامی قدوۃ العارفین حضرت مولانا شیخ عبد الاحد رحمۃ اللہ علیہ نے خواب دیکھا کہ ساری دنیا میں تاریکی پھیلی ہوئی ہے،خنزیر،بندر اور ریچھ لوگوں کو ہلاک کررہے ہیں،اسی دوران میرے سینے سے ایک عظیم نور نکلا جس سے سارا جہاں روشن ومنور ہوگیا،اور وہ ایک بجلی کی طرح تمام درندوں کو جلاکر خاک کردیا،اور اس نور میںایک تخت ظاہر ہوا،اور اس تخت پر ایک بزرگ مسند نشیں ہیں،اور بہت سے نورانی آدمی اور فرشتے ان کے سامنے باادب کھڑے ہیں، اور ان کے سامنے ظالموں،زندیقوں اور ملحدوں کو بکروں کی طرح ذبح کیا جارہا ہے،اور کوئی شخص بلند آوازیہ آیت کریمہ تلاوت کررہا ہے:ترجمہ: حق آگیا اور باطل مٹ گیا ،بیشک باطل مٹنے والا ہی ہے۔
جب حضرت عبد الاحد رحمۃ اللہ علیہ نے اس خواب کی تعبیر حضرت شاہ کمال کیتھلی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کی تو آپ نے فرمایا:اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تمہارے گھر ایک ایسا لڑکا تولد ہوگا جس کی صف اولیاء میں امتیازی شان ہوگی،ان کے نور سے الحاد وبدعت کی تاریکی دور ہوگی اور دین محمدی کو روشنی اور فروغ حاصل ہوگا۔ (تذکرۂ مشائخ نقشبندیہ،ص:253۔جواہر مجددیہ،ص‘16)۔
چنانچہ(ماہ شوال المکرم،شب جمعہ،971ھ) اس مبارک خواب کی تعبیر بن کر حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ تولد ہوئے۔
آپ ابھی بہت کم عمرتھے کہ شیخ شاہ کمال قادری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی نسبت اس طرح پیشن گوئی فرمائی تھی کہ اس بچہ کی عمرطویل ہوگی اوربہت بڑاعالم،صاحب ِاحوالِ عالیہ ہوگا ۔
شیخ موصوف نے اپنے انتقال کے وقت اپنی زبان حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کوچسواکرجب ہی سے نسبت قادریہ کا القاء فرمادیاتھا،لڑکپن ہی سے آپ کی کچھ ایسی حالت تھی کہ جوآپ کودیکھتاکہتاکہ یہ بچہ ہونہارہے ، آئندہ بہت کچھ کردکھائے گا، آپ نے اکثرعلوم متداولہ اپنے والد ماجد سے ہی حاصل کئے ہیں ،پھرسیال کوٹ جاکرمولانامحمدکمال کشمیری اورمولانایعقوب کشمیری سے علوم کی تحصیل کی اورحدیث شریف کی سندقاضی بہلول بدخشی سے حاصل فرمائی ،آپ کے زمانہ میں کوئی آپ کا ہمسر‘علوم میں نہ تھا،آپ کونسبت چشتیہ اورقادریہ اور ان دونوں میں اجازت وخلافت اپنے والدگرامی ہی سے حاصل ہوئی ۔
ابھی آپ کی عمرشریف (17)سال بھی نہیں ہوئی تھی کہ علوم ظاہری وباطنی میں یکتائے روزگارہوکرطالبین اورسالکین کو ظاہری اورباطنی علوم کا افادہ فرمانے میں مصروف ہوگئے ،اسی اثناء میں بہت سارے رسالے جیسے رسالہ جات تہلیہ اور ردِ روافض وغیرہ تصنیف فرمائے ،گواس وقت روافض کا بہت زورتھا،مگرآپ کی حق پسندطبیعت نے ان کارد لکھ ہی دیا۔باوجوداس کمال کے نسبت نقشبندیہ حاصل کرنے کے لئے آپ بہت مشتاق تھے۔بیعت وخلافت:جب1007ھ میں آپ کے والدماجدکاانتقال ہوچکاتوآپ 1008 ھ میں حج کے لئے اپنے وطن سے روانہ ہوئے ، راہ میں دہلی پڑتی تھی،دہلی پہنچ کرحضرت خواجہ محمد باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ سے شرف ملاقات حاصل کئے،حضرت آپ کونہایت تعظیم وتکریم سے لئے، دودن کے بعد حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کوداعیہ بیعت پیداہوا،حضرت باقی باللہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے خلاف عادت بغیراستخارہ، آپ کوسلسلہ عالیہ میں داخل فرماکراپناگذشتہ خواب بیان فرمایاکہ بہت دن ہوئے، میں نے ایک خواب دیکھاہے، جس کی تعبیرحضرت خواجگی امکنگی قدس سرہ نے یہ دی تھی کہ مجھ سے کوئی قطب الاقطاب فیض پائے گا،تم میں وہ سب آثارپائے جاتے ہیں ، تم ہی آئندہ قطب الاقطاب ہونے والے ہو۔
پھرحضرت امام ربانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے طریقہ نقشبندیہ کے ریاضات ومجاہدات ،وظائف واذکار اورمراقبات میں اشتغال فرمایا،خداکی شان!دومہینے اورچند روزمیں علوم ِلدنیہ ،معارِف یقینیہ ،اسرارِولایت ،مقاماتِ سَنِیَّہْ،انوارِفیوضاتُ وبرکاتِ الٰہیہ کچھ ایسے امڈے چلے آرہے تھے کہ جس کی وجہ سے بڑے بڑے اولیاء اللہ کی عقلیں دنگ تھیں: ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ ۔یہ اللہ کا فضل ہے جس کوچاہتاہے دیتاہے۔
پھراجازت وخلافت سے سرفرازہوکراپنے وطن میں تشریف لائے ، دوردورسے عطشانِ معرفت آکرفیض یاب ہوتے تھے ، گوآپ چشتیہ وقادریہ ونقشبندیہ کل نسبتوں کے مجمع تھے لیکن طریقہ نقشبندیہ کی ترویج میں خاص دلچسپی رکھتے تھے ،غرض آپ کی حالت اس مقولہ کے مصداق ہے : لَایُحِبُّہٗ اِلَّامُؤْمِنٌ تَقِیٌّ وَلَایُبْغِضُہٗ اِلَّا فَاجِرٌشَقِیٌّ۔مؤمنِ متقی ہی آپ کوچاہاکرتااوراپنے دل میں آپ کی محبت لئے رہتاہے ، اور فاجرشقی، بدنصیب ازلی ہی آپ سے بغض وعداوت رکھتاہے ۔
حضرت شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آخرمیں نہایت معتقدہوکریہی مقولہ فرمایاکرتے تھے ،اورحضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی آپ کی بہت کچھ مدح کی ہے ۔حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کا علمی وروحانی مقام:حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی مقام ومرتبہ کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ آپ کے پیرومرشدحضرت خواجہ محمدباقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے متعلق فرمایا:’’شیخ احمدوہ آفتاب ہیں جس میں ہم جیسے کئی ستارے گم ہیں‘‘۔
حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ عالم اسلام کی وہ باکمال ہستی ہیں جس کا فیض سارے عالم میں پھیلاہواہے،آپ بیک وقت علماء ربانین کے پیشوابھی تھے اورارباب طریقت کے مقتداء بھی،آپ نے تبلیغ دین اوراحیاء اسلام کا عظیم ترین فریضہ انجام دیا،روحانیت کے عظیم ترین منصب پرفائز ہونے کے ساتھ آپ کی علمی جلالت کا یہ حال تھا کہ تفسیرلکھنے کے دوران ایک مقام پرابوالفضل کو- جو ایک نادرانداز میں بے نقط حروف سے قرآن کریم کی تفسیر لکھ رہا تھا- دشواری ہوئی اوروہ رک گیا، اچانک وہاں حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ جلوہ افروز ہوئے،اس نے آپ سے درخواست کی کہ میں یہاںپریشان ہوںکہ ان آیات مبارکہ کے مفہوم کوبیان کرنے کے لئے بے نقط الفاظ نہیں مل رہے ہیں، توحضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے قلم لیا اورفی البدیہ ان آیات کی بے نقط تفسیر لکھ کرابوالفضل کے حوالہ کردی۔ ابوالفضل آپ کے تبحرعلمی کودیکھ کرمحوحیرت ہوگیا۔
(زبدۃ المقامات،ص:137/138۔تذکرۂ مشائخ نقشبندیہ مؤلفہ:علامہ نبی بخش توکلی،ص:255)۔
آپ کے پیر ومرشدحضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:میاں شیخ احمد(رحمۃ اللہ علیہ)فضل وکمال کے نیر تاباں ہیں،جن کی روشنی میں ہمارے جیسے کتنے ہی ستارے گم ہیں۔آپ مرید نہیں بلکہ مراد اور محبوب ہیں۔جن کے ظہور کی کتنے ہی اکابر اولیاء اللہ نے بشارتیں دی تھیں۔میر ی محنت رائیگاں نہیں گئی کہ میاں شیخ احمد(رحمۃ اللہ علیہ) جیسی ہستی کی تربیت کرچلاہوں،جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بشارت دی کہ تم علم کلام کے مجتہدین سے ہو۔جن کے عقائد کی بارگاہ رسالت میں مقبولیت ہوچکی ہے،اور فخر دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کے ایک رسالہ کے متعلق اولیاء کرام سے فرمایا کہ ایسے عقیدے رکھنے چاہئیے!۔
میاں شیخ احمد(رحمۃ اللہ علیہ)جیسی ہستی آج اس آسمان کے نیچے اور نہیں ہے ۔ (زبدۃ المقامات۔تذکرہ مشائخ نقشبندیہ،ص:262۔مشائخ نقشبندیہ۔) حضرت امام ربانی کے حق میں حضرت غوث اعظم کی بشارت: حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ جامع السلاسل بزرگ ہیں،آپ کو حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے خصوصی فیض حاصل ہے،چنانچہ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ جس وقت جنگل میں مصروف عبادت تھے،اچانک آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ آسمان سے ایک عظیم نورظاہرہوا؛جس سے ساراعالم روشن ہوگیا،آپ نے فرمایا کہ آج سے پانچ سوسال بعدجب بے دینی اوربگاڑپھیل جائے گا،ایک بزرگ وحیدامت پیداہوگا؛جوالحادوبے دینی کے خلاف آوازاٹھائے گااوردین اسلام کونئی زندگی دے گا،آپ نے اپنے خرقۂ خاص کو نعمتوں سے مالامال کرکے اپنے شہزادے حضرت سیدعبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ کوعطافرمایا،وہ خرقہ آپ کی اولاد میںمنتقل ہوتارہا؛یہاں تک کہ حضرت سیدشاہ سکندرقادری رحمۃ اللہ علیہ نے وہ خرقۂ نعمت حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کوعطاکی۔(روضۃ قیومیہ۔جواہر مجددیہ،ص:13)تذکرہ ٔ امام ربانی کی اہمیت‘حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی کی نظر میں:حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ’’اخبار الاخیار‘‘میں رقم طراز ہیں:ترجمہ:کتاب اخبار الاخیار مکمل ہوئی لیکن حقیقتاً اس وقت پایۂ تکمیل کو پہنچے گی جبکہ زبدۃ المقربین ،قطب الاقطاب ،مظہر تجلیات الہٰی ،مصدر برکات لامتناہی ،امام ربانی ، مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے کچھ حالات تحریر نہ کئے جائیں۔
مجھ مصنف کو آخری عمر میں آپ سے نسبت حاصل ہوئی اس لئے آپ مقدم ترین کاملین و سابق ترین واصلین الی اللہ کا تذکرہ اس کتاب کے آخر میں ہی زیادہ مناسب ہے اور اگر حقیقت پر نظر کی جائے تو اول وآخر سب ایک ہی چیز ہے،میرا آپ سے رجوع ہونا ثقہ حضرات کی زبانی مشہور بات ہے جیساکہ کتاب کے آخر میں ان شاء اللہ بیان ہوگا-(اخبار الاخیار،ص728)کرامات:آپ کی کرامات بے حدوبے شمارہیں،ایک وقت معین پردس جگہ کی دعوت قبول فرمائی ،وقت مقررہ پرہرہرشخص کے پاس کھاناتناول فرماتے نظرآئے۔
کلمہ حق کہنے کی وجہ سے جہانگیرنے جب آپ کوقید کیا توباوجودسخت پہرہ چوکی،جمعہ کے لئے مسجدمیں آتے اوربعد اس کے قیدخانے تشریف لے جاتے ،پہرہ والے جوانوں کوخبربھی نہ ہوتی کہ آپ باہرکب آئے اورقید خانہ میں واپس کب ہوئے۔
بادشاہ موصوف نے کئی بارآپ سے یہ کرامت دیکھی، نہایت معتقد ہوکر معذرت کرتے ہوئے قید سے رہاکیا،جس وقت آپ محبس (قیدخانہ)سے نکلے تو دیگر تو سینکڑوں قیدی پر آپ کی فیض صحبت کا ایسا اثر ہوا کہ وہ قیدی اہل دل اور اولیاء کرام سے ہوگئے تھے ۔ایک مرتبہ بارش کے موقع پر آپ نے بادل کو حکم فرمایا کہ مخصوص مدت تک بارش نہ ہو تو بارش اس مدت تک رکی رہی ۔اورآپ کی بہت بڑی کرامت توشریعت پر استقامت تھی ،جسکوآپ نے اپنے کسی مکتوب میں اس طرح تحریرفرمایاہے کہ اگرکوئی شخص باوجودہواپراڑنے اورپانی پرچلنے کے ایک مستحب بھی ترک کیا ہوتووہ نقشبندی اولیاء اللہ کے نزدیک جَوْ، برابر قدرو منزلت نہیں رکھتاہے۔اتباع سنت آپ پراس طرح غالب تھی کہ جب آپ کی عمرشریف (50)سال کی ہوئی توآپ نے فرمایا کہ ہماری عمررسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمرشریف سے بڑھ نہیں سکتی، ہم بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مطابعت میں ترسٹھ(63)سال کی عمرمیں دنیاسے کوچ کرجائیں گے۔
ایساہی ہوا،ماہ محرم 1034ھ میں ایک روزآپ نے فرمایاکہ( پچاس روز کے بعدہم اس عالم سے کوچ کرنے والے ہیں ،مجھے میری قبرکی جگہ بتلائی گئی ہے)
ارشادات وفرمودات:{اتباع سنت‘عین سعادت}حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دونوں جہاں کی سعادت کا حصول آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع پر منحصر ہے۔اور فرماتے ہیں کہ آخرت کی نجات اورہمیشہ کی فلاح و بہبود حضرت سیدالاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ہے۔ اُسی کے ذریعہ بندے اللہ تعالیٰ کی محبوبیت میں پہونچتے اور تجلیات ربانی سے مشرف اور مرتبۂ عبدیت (جو کمال کے مرتبہ سے اوپر مقام محبوبیت کے بعد ہے) سے سرفراز ہوتے ہیں۔٭ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد نقشبندی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:سالک کے لئے ضروری ہے کہ اپنے عقائد کو فرقۂ ناجیہ اہل سنت و جماعت کے موافق درست رکھے تاکہ آخرت کی سعادت نصیب ہو، بداعتقادی جو اہل سنت و جماعت کے خلاف ہے زہر قاتل ہے جو دائمی موت و عتاب ِالٰہی تک پہنچادیتی ہے۔ عمل کی سستی اور غفلت پر مغفرت کی امید ہے لیکن اعتقاد کی خرابی میں مغفرت کی گنجائش ہی نہیں۔ {ظاہر وباطن کی ترقی کی راہ} علمائے اہل سنت وجماعت نے فرمایا ہے کہ اول اپنے عقیدہ کو ان بزرگوں کے عقائد کے موافق درست کرکے علم ِحلال و حرام ،فرض و واجب ،سنت و مستحب ،مباح و مشتبہ حاصل کرنا اور اس علم کے مطابق عمل کرنا بھی چاہئے۔ ان دو پروں کا حصول عملی اور اعتقادی طور پر حاصل ہونے کے بعد اگر سعادت ازلی مدد دے تو عالمِ قدس کی طرف پرواز کرے۔ اور حقیر دنیا تو اس قابل نہیں ہے کہ اس کو اور اس کے مال و جاہ کے حاصل ہونے کو اصلی مقصود خیال کرے۔ امام ربانی حضرت شیخ احمد نقشبندی سرہندی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ غافل اور بدعتی لوگوں کی عزت نہ کیا کرو! جس نے ایسوں کی تعظیم کی تو اس نے گویا اسلام کو بے عزت کرنے میں مدد کی۔ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اگر طعام مشتبہ ہو یا دعوت کے مکان میں تصاویر ہوں یا وہاںفرش ریشمی ہو یا ظروف چاندی کے ہوں یا ساز کی قسم سے کوئی چیز ہو ،یا لہو ولعب اور غیبت و بہتان کی مجلس ہو ان تمام صورتوں میں دعوت ہرگز قبول نہیں کی جانی چاہئیے۔ حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ تعلیم دین کو تلقین سلوک کے مقابلہ میں بہتر سمجھتے تھے۔ نبوت کو ولایت سے افضل جانتے تھے۔تمام اولیاء رحمہم اللہ پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فضیلت دیتے تھے ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ مزار کو سجدہ کرنا حرام سمجھتے تھے ۔ زیارت قبور کو مستحسن، اولیاء اللہ سے مدد چاہنے کو درست اور ایصال ثوابِ عباداتِ مالی و بدنی کو جائز قرار دیتے تھے۔(ملخص از:مواعظ حسنہ،جلد دوم)٭سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے زمانۂ مبارک سے قیامت تک جتنے اولیاء،ابدال،اقطاب،اوتاد،نقباء،نجباء،غوث یا مجدد ہوں گے‘سب فیضان ولایت وبرکات طریقت حاصل کرنے میں حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے محتاج ہوں گے،بغیر ان کے واسطہ اور وسیلہ کے قیامت تک کوئی شحص ولی نہیں ہوسکتا۔(مکتوبات امام ربانی ،جلداول،ص:323،مکتوب نمبر:266)٭مسلمان کہلانے والے بد مذہب کی صحبت کھلے ہوئے کافرکی صحبت سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔(مکتوبات امام ربانی ،جلداول،ص:133،مکتوب نمبر:54)٭مجلس میلاد شریف میں اگر اچھی آواز سے قرآن پاک کی تلاوت کی جائے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت شریف اور صحابہ کرام واہل بیت عظام،اولیاء اعلام رضی اللہ عنہم کی منقبت کے قصیدے پڑھے جائیں تو اس میں کیا حرج ہے؟۔(مکتوبات امام ربانی ،جلد سوم،ص:427،مکتوب نمبر:72)٭علماء کے لئے دنیا کی محبت اور اس میں رغبت کرنا ان کے جمال کے چہرے کا بدنما داغ ہے۔مخلوقات کو اگرچہ ان سے بہت سے فائدے حاصل ہوئے ہیں،لیکن ان کا علم ان کے اپنے حق میں نفع بخش نہ ہوا۔یہ علماء پارس کے پتھر کی مانند ہیں کہ تانبے،لوہے کی جو چیز بھی اس کے ساتھ رگڑکھاتی ہے سونا ہوجاتی ہے،اور وہ خود اپنی ذات میں پتھر ہی رہتا ہے۔بیشک قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ عذاب کا مستحق وہ عالم ہے جس کو اللہ تعالی نے اس کے علم سے کچھ نفع نہ دیا۔(مکتوبات امام ربانی،جلد اول،ص:95،مکتوب نمبر:33)وصال مبارک: روزسہ شنبہ28صفر 1034ھ میں آپ نے مسنون طریقہ کے موافق سیدھی کروٹ لیٹ کردست مبارک اپنے رخسارکے نیچے رکھے ہوئے یہ ارشادفرمایاکہ سب کچھ اعمال صالحہ کئے مگرایک وقت جودورکعت نمازمیں نے پڑھی ہے وہ آج کافی ہورہی ہے ،یہ فرمایااور اشراق کی نماز ادا فرمانے کے بعد آپ کی روح مبارک اعلی علیین کوروانہ ہوگئی ،لفظ صلوۃ پرہی خاتمہ ہوگیا،اوریہی صلوٰت نسبت انبیاء علیہم السلام کی ہے ۔آپ کی تاریخ رحلت’’ رَفِیعُ المَرَاتِبْ‘‘ نکالی گئی ہے ۔نَوَّرَ اللّہُ مَضْجَعَہُ وَقَدَّسَ سِرَّہُ (اللہ تعالی ان کی قبرکونورانی کرے اوران کے سِرْکوپاک کرے)۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ بطفیل حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عقائدحقہ پرقائم رکھے اورحضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات وہدایات کے مطابق زندگی بسرکرنے کی توفیق عطافرمائے،اور آپ کے فیوض وبرکات سے ہم سب کو مالامال فرمائے۔

مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی مجددی قادری
شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر
بصیرت فیچرس


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں