پیرس حملہ۔۔۔ فرانس کی دوغلی پالیسیوں کا نتیجہ

پیرس حملہ۔۔۔ فرانس کی دوغلی پالیسیوں کا نتیجہ

پیرس شمال وسطی فرانس میں واقع ایک شہر ہے جو آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ گزشتہ دو ہزار سالوں سے قائم یہ شہر آج دنیا کا اہم کاروباری، ثقافتی اور سیاحی مرکز ہے۔
جمعے کی رات خوشبوؤں کے شہر پیرس میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ آٹھ حملہ آوروں نے سات مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا۔ اندھادھند فائرنگ اور دھماکوں کے نتیجے میں اب تک ۲۰۰ افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا، ان میں سرفہرست کنسرٹ ہال اور فٹبال اسٹیڈیم تھے جہاں حملے کے وقت صدر اور ان کی کابینہ فرانس اور جرمنی کے درمیان جاری دوستانہ فٹبال میچ سے محفوظ ہو رہے تھے۔ داعش نے حملے کے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے آئندہ بھی اس قسم کی حملوں کی دھمکی دے ڈالی ہے۔ قتل چاہے کسی بھی مذہب، مسلک اور قوم سے تعلق رکھنے والے کا ہو، بطور انسان اور فرد بشر وہ لائق مذمت اور قابل نفریں ہے۔ قطع نظر مذہب، مسلک، قوم و فرقہ ہر انسان بالخصوص غیر متحارب شہریوں کے خون کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے۔ کسی بھی مذہب میں بے گناہ انسانوں کے قتل عام کی اجازت نہیں دی گئی اور ہر سطح پر قتل ایسی حرکتوں کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اسلام میں تو انسانی جان کی حرمت پر طویل بحث کی گئی ہے اور اسے محفوظ بنانے کی ہر ممکن حفاظتی تدابیر پر عملدرآمد کی پُر زور تلقین کی گئی ہے۔
پیرس میں حالیہ دہشت گردی کا واقعہ فرانس کی دوغلی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ مذکورہ سانحے کو وسیع تر عالمی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ رواں سال کے آغاز میں گستاخ فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو کے بدطینت ادارتی بورڈ نے جب گستاخانہ خاکہ شائع کرنے کی ناپاک جسارت کی تو مسلم ممالک میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ بھرپور رد عمل اور احتجاج ہونے لگے جس پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یورپین جمہوریت کا گہوراہ کہلانے والا ملک فرانس اپنے شہریوں کی اس اوچھی حرمت پر ایکشن لیتا اور پوری مسلم دنیا سے معافی مانگنے کے بعد آئندہ نہ کرنے کا عزم کرتا۔ مگر فرانس نے نہ صرف چارلی ہیبڈو کی حمایت کی بلکہ مسلسل اس کاپشتی بان بھی بنا رہا، جس کے بعد چارلی ہیبڈو کے دفتر میں حملے کے نتیجے میں چار یہودیوں سمیت بارہ افراد ہلاک ہوئے۔ یہودیوں کی لاش اسرائیل دونوں سے قریبی تعلق اور گہرے مراسم ہیں۔ پون صدی قبل اسرائیل میں جب صہیونیت کی آواز بلند ہوئی تو اس وقت کے فلسطینی مفتی اعظم امین الحسینی نے یہودیوں کے خلاف بھرپور تحریکِ مزاحمت کا آغاز کیا اور آزادی کا نعرہ لگاتے ہوئے نوجوانوں میں حریت کی جوت جگائی۔ نوجوان نسل جوق در جوق اس کا حصہ بنتے لگے۔ رفتہ رفتہ آزادی کی یہ لہران عرب طلبہ کو بھی متاثر کر گئی، جو فرانس کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے۔ وہ سب یہودیوں کے خلاف متحد ہوگئے۔ یہ نوجوان پیرس میں تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ صہیونیوں کے خلاف منصوبہ بندی کرتے اور پھر وطن آکر اسے عملی جامہ پہناتے۔ جس بنا پر اس وقت سے اب تک پیرس کو نوجوان عرب حریت پسندوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں اسرائیلی حکام نے صہیونی گماشتوں کو بھی فرانس اور پیرس میں تعینات کیا تا کہ وقفے وقفے سے اٹھنے والی آزادی کی لہر کا رخ موڑا جاسکے۔ عرب حریت پسندوں اور اسرائیلی شیطانی ہرکاروں کی موجودگی پر فرانسیسی حکومت نے دونوں کے خلاف نہ کبھی کھل کر ایکشن کیا اور نہ ان کا ستھ دیا۔ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق، وہ دونوں فریق کو راضی خوشی رکھنے کے لیے پس پردہ وہ دونوں کی حمایت کرتا رہا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کی فرانس کے حق میں حمایت اس وقت سامنے آئی جب پارلی ہیبڈو پر حملے کے بعد چالیس چوروں کا گروہ مرثیہ پڑھتے ہوئے فرانس کی شاہراہوں پر جلوس نکال رہا تھا، اس مین نیتن یاہو بھی پیش پیش تھے۔ اس کے کچھ ہی مہینوں بعد توازن برقرار رکھنے کے لیے فرانس نے سلامتی کونسل میں خودمختار فلسطینی ریاست کے لیے پیش کی جانے والی قرارداد کی حمایت پر غور شروع کردیا۔ جس کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اخباری نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنا اور اس کی بے جا حمایت جاری رکھنا فرانس کی سنگین غلطی ہوگی، جس کا خمیازہ جلد یا بدیر اسے بھگتنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل ۲۰۱۲ء میں اقوام متحدہ میں فلسطین کی حمایت کرنے والے ۱۴ یورپی ممالک میں فرانس بھی سرفہرست تھا۔ اسرائیل اور اسلام دشمن عناصر کو خوش کرنے کے لیے فرانس نے گستاخانہ خاکے شائع کرنے والوں کا ساتھ دیا۔ فلسطینیوں اور اسلام پسندوں کی ہمدردیاں بٹورنے کی خاطر فلسطین کی حمایت کا اعلان کیا۔
مذکورہ دوغلی پالیسیوں کے نتیجے میں فرانس کو اس جانکاہ حادثہ سے دوچار ہونا پڑا۔ ممکن ہے کہ مذکورہ سانحے میں داعش کا ہاتھ ہو اور عین ممکن ہے کہ اس میں اسرائیل بھی ملوث ہو۔ عالمی طاقتوں کا تو یہ وتیرہ رہا ہے کہ پراکسی وار اور دیگر مذموم مقاصد کے لیے مسلح جنگجو جتھوں کو استعمال کرتے ہیں اور پھر اپنے زیراثر میڈیا کے ذریعے انہیں بدنام کرتے ہیں۔ اگر اسرائیل ملوث ہے تو یہ سانحہ نیتن یاہو کی دھمکی کا نتیجہ ہے۔ لیکن اگر صرف داعش ملوث ہے تو مذکورہ حملہ شام کے معاملے میں داعش کے خلاف بننے والے اتحاد کا جواب بھی ہوسکتا ہے، جس میں فرانس بھی شامل تھا۔ یوں بھی اس جیسی تنظیموں کی تشکیل، امداد اور کمک فراہم کرنا، اسباب، آلات و اماکن مہیا کرنا انہی عالمی طاقتوں کی مرہون منت ہے۔ ہنری کسنجر، بل کلنٹن، ٹونی بلیئر اور انجیلا مرکل کے اعترافات اس پر شاہد عدل ہیں۔
اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ مذکورہ واقعہ پیرس میں رواں ماہ کے اواخر میں ہونے والی بین الاقوامی موسمیاتی کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش ہو یا پھر ویانا میں مسئلہ شام پر بننے والے بشار مخالف اتحاد کو توڑنے اور انہیں داعش کی سرخ بتی کے پیچھے لگانے کی سازش ہو یا پھر تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہو۔ ایسی ناگفتہ بہ صورتحال میں فرانس کو اپنی دوغلی پالیسیوں اور دہری چالوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی عالمی قوتوں کو اپنے ناجائز مفادات اور گھناؤ نے عزائم کی تکمیل کے لیے اس نوعیت کے اوچھے ہتکنڈوں اور مہروں کو استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی میں بقائے عالم کا راز پنہاں ہے۔

بقلم سیدعدنان کریمی
روزنامہ اسلام، 18 nov 2015


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں