مولانا احمدعلی لاہوری اور مولانا حسین علی شاہ اور اصلاحِ عقائد

مولانا احمدعلی لاہوری اور مولانا حسین علی شاہ اور اصلاحِ عقائد

پنجاب میں مولانا احمد علی اور مولانا حسین علی شاہ (۱) کے ذریعے اصلاحِ عقائد کا جو کام ہوا، وہ کہیں نہیں ہوا۔ حسین علی شاہ صاحب مغربی پنجاب میں رہتے تھے، شاہ اسماعیل(۲) کے مسلک پر بڑی شدت سے قائم تھے۔

مولانا لاہوری کی علماے دیوبند سے عقیدت
فرمایا: مولانا احمد علی نے ایک خط میں ہمیں لکھا کہ حضراتِ دیوبند کے مسلک سے کبھی نہ ہٹنا(۳)، وہ علمائے دیوبند سے بڑے متاثر تھے، خصوصاً آخر میں مولانا مدنی کے ساتھ بڑی عقیدت ہوگئی تھی، ہماری تفسیر کی سند ان ہی کے ہاتھ سے تقسیم کی گئی تھی ۔

مولانا لاہوری کا اخلاص
مولانا کہیں جاتے تو کسی کو استقبال کرنے نہیں دیتے تھے، لوگ اسٹیشن پر موجود ہیں، انتظار کررہے ہیں، مگر مولانا پیچھے سے آہستہ الگ گاڑی سے نکل گئے اور داعی کے یہاں پہنچ گئے، کہیں نہیں جاتے تھے جب تک کہ خود اپنے خرچ سے نہ ہو۔
پھر قبر سے گلاب کی خوشبو آنے کا ذکر کہا (۴)، فرمایا: ہم نے صاف اس کا جھونکا محسوس کیا، جب کہ دور دراز تک گلاب کی کوئی باڑی نہیں تھی۔ جمعہ کے روز انتقال ہوا، جنازے میں بہت بھیڑتھی، کہتے ہیں کہ ایسا مجمع وہاں کبھی نہیں دیکھا گیا۔

مولانا آزاد کی ذہانت
حضرت مولانا، مولانا آزاد کی خدمات کا بڑا اعتراف کرتے تھے، اسی مناسبت سے مجلس میں مولانا آزاد کا ذکر آیا۔ فرمایا: مولانا آزاد بڑے ذہین تھے، وہ قاہرہ ہوتے ہوئے لندن جا رہے تھے، قاہرہ ہوائی اڈے پر مصری صحافی انٹرویو لینے آئے، ایک نے پوچھا: کیا آپ دوبارہ تشریف لانا چاہیں گے؟ جواب میں فرمایا: و لا تقولن لشیء انی فاعل ذلک غدا الا ان یشاء اللہ (۵)۔ بعض انگریزی اخبار والوں نے ہندوستانی کی غذائی مشکلات کا ذکر کیا اور اس کے متعلق کچھ پوچھنا چاہا تو انگریزی میں جواب دیا کہ یہ ہمارا خانگی معاملہ ہے(۶)۔
پھر فرمایا: مولانا احمدعلی اپنے ایک لڑکے مولوی انور (۷) کو یہاں تعلیم کے لیے بھیجنا چاہتے تھے۔ ان کے ایک لڑکے مولوی حبیب اللہ، جو مغلوب الحال تھے، وہ یہاں آئے ہیں۔

موجودہ ترکی میں کمال اتاترک کے اثرات
ترکی کے سفر سے کل رات واپسی ہوئی تھی، اس لیے آج کا موضوع ترکی ہی تھا، ترکی کے سیاسی و سماجی اور اخلاقی صورت حال و غیرہ کے متعلق گفتگو رہی۔ فرمایا: ترکی میں آج تک کمال اتاترک (۸) کا اثر ہے کہ گھروں میں اس کی تصاویر لٹکائی جاتی ہیں، اور اس کی لگائی گئی پابندیاں آج تک وہاں قائم ہیں، مثلاً کوئی ٹوپی نہیں پہن سکتا اور نہ پگڑی باندھ سکتا ہے، بلکہ ہیٹ پہنے گا۔

اتاترک نے سب سے زیادہ اسلام کو نقصان پہنچایا
اس قسم کی باتیں کرتے ہوئے فرمایا کہ کمال اتاترک نے اسلام کو جو نقصان پہنچایا، شاید ہی کسی نے اسلامی تاریخ میں اتنا نقصان پہنچایا ہو، وہ سمجھتا تھا کہ اسلام کا دور اب ختم ہوگیا، ترکی کو اگر ترقی کرنا ہے تو اسے کسی ترقی یافتہ یورپین ملک کے دوش بدوش چلنا چاہیے، جو مغربی تہذیب کو پوری طرح اپنائے ہوئے ہو، اس نے ہزاروں علماء کو قتل کیا، وہاں لوگوں نے بتایا کہ پچپن ہزار علماء کو اس نے قتل کیا اور پھانسی پر چڑھایا۔
آج بھی عورتیں بالکل بے پردہ ہیں مگر عوام میں دینی بیداری کے آثار ہیں، رسم الخط پر اتاترک نے جو پابندگی عائد کی تھی اس کا اثر اب تک ہے کہ پورے ترکی میں کہیں بھی اللہ کا نام تک عربی رسم الخط میں نظر نہیں آتا (۹)، قسطنطنیہ کی آبادی اس وقت دو کروڑ ہے اور پورے ترکی کی ساٹھ کروڑ۔

ترکی زبان میں حضرت کی کتابوں کا ترجمہ، اور وہاں کی اسلامی بیداری میں اس کا اثر
فرمایا: ترکی نے ہماری کتابوں سے بڑی دلچسپی لی، اس کا بڑا اہتمام کیا، کسی زبان میں ہماری اتنی کتابیں ترجمہ نہیں ہوئیں جتنی ترکی میں ہوئیں، ہماری انتیس کتابوں کا ترجمہ ترکی میں ہوچکاہے۔ یوسف قراچہ (۱۰) نے بتایا کہ وزارت خارجہ کی ایک خفیہ رپورٹ میں ہم نے دیکھا: ترکی میں جو اسلامی انقلاب کے آثار نظر آرہے ہیں اس کا ایک اہم سبب آپ کی کتاب تاریخ دعوت و عزیمت ہے۔

 

——————————

حواشی
(۱) مولانا حسین علی شاہ واں بچھرانوی: مولانا گنگوہی، مولانا مظہرنانوتوی اور مولانا احمدحسن کانپوری کے شاگرد، تفسیر، حدیث، فقہ اور تصوف کے ماہر، ان تمام موضوعات پر تصنیفات ہیں، مولانا گنگوہی کی بخاری اور مسلم کی تقریر عربی میں لکھی تھی، واں بچھراں ضلع میانوالی، پنجاب کے رہنے والے تھے، اپنے علاقے میں توحید و سنت اور تعلیمات قرآن کی اشاعت اور رد بدعت میں کارہائے نمایاں انجام دیے، اور اس سلسلے میں مشکلات و مصائب کا سامنا کیا، خود دکھیتی باڑی کرکے طلباء کے جملہ اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے، کبھی کسی سے چندہ نہ لیتے، وفات: ۱۳۶۳ھ۔۱۹۴۳ء (نزہۃ الخواطر ۸؍۱۳۳۔۱۳۴، تذکرہ علمائے پنجاب اول، ص: ۱۵۹۔۱۶۲، تفصیل کے لیے دیکھیے مولانا حسین علی (واں بچھراں) شخصیت ۔کردار۔ تعلیمات از میاں محمدالیاس)
(۲) شاہ اسماعیل شہید دہلوی رحمہ اللہ: نہایت مشہور و باکمال عالم و داعی اور مجاہد، دعوت توحید، عمل بالسنت اور ردِ بدعت میں فردِ فریدتھے، ان کی کتاب تقویۃ الایمان نے لاکھوں لوگوں کے عقائد درست کیے اور ان کی اصلاح کی، سکھوں کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے حضرت سیداحمد شہید رحمہ اللہ کے ساتھ بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کیا، بہ تاریخ ۲۴؍ذی قعدہ ۱۲۴۶ھ مطابق ۶؍مئی ۱۸۳۱ء (نزھۃ الخواطر، ۷؍۶۶۔۷۱ اور دیگر کتب، نیز سید صاحب کی سیرت اور تحریک جہاد سے متعلق کتب)
(۳) مرقومہ ۲؍مارچ۱۹۵۵ء، پورا خط ملاحظہ ہو، خدام الدین کا حضرت لاہوری نمبر، ص: ۴۷۵
(۴) اس کا ذکر گزرچکا ہے، دیکھیے ص:۹۸
(۵) سورہ کہف، آیت:۲۳، مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے بارے میں جو کل کرنا ہے یہ نہ کہو کہ یہ میں کم کروں گا، مگر یہ کہ اللہ چاہے۔
(۶) پرانے چراغ میں اس ملاقات کا ذکر کیا ہے، مگر یہاں زیادہ وضاحت ہے، جو پرانے چراغ میں نہیں، نیز وہاں قاہرہ کے بجاے ’’الماظہ‘‘ لکھا ہے، (پرانے چراغ حصہ دوم، ص:۶۵)
(۷) مولانا انور (مولانا عبیداللہ انور ابن مولانا احمدعلی لاہوری): دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی، مولانا اسعد مدنی ابتدائی دور میں آپ کے رفقائے درس میں تھے، تعلیم سے فراغت کے بعد کچھ عرصے مدرسہ مظہرالعلوم کراچی میں تدریسی خدمت انجام دی، پھر لاہور میں دس سال درس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا، اپنے عظیم والد کے مجاز اور ان کے انتقال کے بعد ان کے جانشین قرار پائے، اور انھی کے نقش قدم پر رہے، جمعیۃ علمائے پاکستان کے نائب امیر اور امن کمیٹی کے صدر تھے، وفات : ۲۸؍اپریل ۱۹۸۵ء، لاہور (ہفت روزہ خدام الدین امام الاولیاء حضرت لاہوری نمبر، ص:۶۱۔۶۲ و ۶۷۔۷۰، مشاہیر علماے دیوبند، ص:۳۵۰۔۳۵۴)
(۸) کمال اتاترک (مصطفی کمال پاشا) جدید ترکی کابانی، ۱۹۲۴ء میں خلافت اسلامیہ کو ختم کرنے والاتاریخ اسلامی کا سب سے بڑا مجرم، وہ اصلاً یہودی تھا، وفات: ۱۹۳۸ء۔
(۹) اب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، اور اسلامی بیداری میں بہت اضافہ ہو رہا ہے، موجودہ حکومت اسلام پسند ہے، جیسا کہ حالات پر نظر رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے۔
(۱۰) یوسف صالح قراچہ: غیور ترکی عالم دین، فاضل ندوۃ العلماء، ۱۹۵۹ء سے ۱۹۶۲ء تک تین سال دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تعلیم حاصل کی، حضرت مولانا سے بہت تعلق تھا، اب علمائے ندوہ سے مخلصانہ تعلق رکھتے ہیں، کبھی کبھی ندوہ آتے بھی ہیں، حضرت مولانا کی متعدد کتابوں کا ترکی میں ترجمہ کیا ہے، وہاں کی اسلامی بیداری میں پس پردہ بڑا کام کیا، اور کر رہے ہیں، موجودہ وزیر اعظم طیب اردوگان ان کے شاگرد اور صدر عبداللہ گل ان کے ہم وطن اور قریبی دوست ہیں۔

۱۴؍۳؍۱۴۱۷ھ مطابق ۳۱؍۷؍۱۹۹۶ء
مجالس حسنہ مولانا ابوالحسن ندوی، ۲۰۳۔۲۰۶


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں