نواب صدیق حسن خاں بھوپالی اور ان کی علمی خدمات

نواب صدیق حسن خاں بھوپالی اور ان کی علمی خدمات

نواب صدیق حسن خان سادات قنوج سے تعلق رکھتے ہیں، وہ حسینی سید ہیں (1) اور ان کے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ 33 نفوس کا واسطہ ہے ۔ (2) یہ خاندان بلاد عرب سے ایران کے راستہ ملتان آیا اور وہاں سے اس کی شاخیں دہلی، حیدر آباد اور اودھ منتقل ہوئیں۔ اس خاندان میں متعدد لوگ ائمہ، صلحاء، اولیاء ہونے کے علاوہ دنیوی ثروت و وجاہت سے مالامال ہوئے ہیں۔ (3) صدیق حسن خان کے والد ماجد سید اولاد حسن تھے، جو شیعیت سے تائب ہوکر سنی ہوئے، اور دہلی آکر شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالعزیز سے اکتساب فیض کیا۔انہوں نے شاہ عبدالعزیز کے ممتاز خلیفہ اور مجاہد کبیر سید احمد شہید رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور قنوج اور اس کے اطراف میں ہزارہا آدمی ان کی تبلیغی و اصلاحی کوششوں سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔
نواب صدیق حسن خان 19 جمادی الاولیٰ 1248ھ مطابق 1823ء کو اپنے نانیہال بانس بریلی میں پیدا ہوئے، پھر ان کی والدہ انہیں قنوج لے کر آئیں۔ صدیق حسن خان ابھی چار پانچ برس کے ہی تھے کہ 1253ھ میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ والدہ محترمہ اور والد کے بعض مریدوں کی سرپرستی میں صدیق حسن نے تعلیم و تربیت اور نشو و نما پائی۔ والدہ نے ایک معلم کا انتظام گھر میں کیا۔ والد کا کتب خانہ موجود تھا۔ ان کے بڑے بھائی احمد حسن عرشی بھی بڑے لائق فائق اور ذہین تھے۔ صدیق حسن نے ان سے بھی چند کتابیں پڑھیں۔ اس کے بعد فرخ آباد کانپور اور بریلی میں مختلف علماء سے استفادہ کیا اور مواعظ و اصلاحی مجالس میں شریک رہنے لگے۔ اس کے بعد دہلی گئے جہاں مختلف علماء سے اخذ علم کیا، بطور خاص صدر الافاضل مفتی محمد صدرالدین آزردہ سے علوم آلیہ کے علاوہ تفسیر و فقہ کی کتابیں پڑھیں۔ دہلی کے علماء و مشاہیر کی زیارت کی اور زیادہ تر اوقات علماء، عقلاء، امراء اور صلحاء کی تربیت میں گزرے۔ نوجوان صدیق حسن کھیل کود، لہو و لعب و غیرہ میں کبھی وقت ضائع نہیں کرتے تھے، کیونکہ ان کی والدہ محترمہ ننے بچپن میں بہت ہی اہتمام کے ساتھ ان کی دینی و اخلاقی تربیت کی تھی۔ (4)
مفتی صدرالدین آزردہ نے انہیں فراغت کی سندوی، وہاں سے بھوپال آئے، جہاں فقہ الحدیث اور صحاح ستہ کی سند شیخ زین العارفین بن محسن یمانی اور شیخ محمدحسین سے پائی۔ انہوں نے تلمیذ شوکانی مولانا عبدالحق نیوتنوی سے بھی اجازت حدیث لی۔ اسی طرح خانوادہ ولی اللہی کی سند (بذریعہ مراسلت) مولانا محمد یعقوب نواسہ شاہ عبدالعزیز سے حاصل کی۔ جوانی میں ہی صدیق حسن کو تفسیر و حدیث سے خصوصی شغف پیدا ہوگیا جو تا حیات برقرار رہا۔

کارگاہ حیات میں:
1850ء میں نوجوان صدیق حسن تلاش معاش میں بھوپال آئے۔ وہاں کے مدار المہام منشی جمال الدین کے ذریعہ تاریخ بھوپال کی تدوین کے لیے آپ کا تقرر ہوا، تا ہم جلد ہی اس ملازمت کو چھوڑنا پڑگیا۔ اب وہاں سے ٹونک گئے اور کافی عرصہ وہان گزرا مگر وہاں کی فضا بھی زیادہ راس نہ آئی۔ اسی اثناء میں نواب بھوپال کا دعوت نامہ پھر ملا، اور اب کی اچھے منصب پر تقرر ہوا۔ حتی کہ مدارالمہام نے، جو صدیق حسن خاں کے ہم مشرب بھی تھے، اپنی صاحبزادی ذکیہ بیگم کا نکاح بھی آپ سے کردیا۔ 1285ھ میں صدیق حسن خان حج بیت کے سفر پر روانہ ہوئے۔ آٹھ مہینے کا یہ سفر ان کے لیے علمی لحاظ سے بڑا مبارک ثابت ہوا۔ حجاز کے علماء سے استفادہ کے علاوہ صاحب سبل السلام علامہ محمد بن اسماعیل الصنعانی کے 25 رسالے اپنے ہاتھ سے نقل کرلیے اور متعدد بلند پایہ علمی کتابیں خریدیں۔ صدیق حسن اپنی گراں قدر خدمات کے باعث ارباب حکومت کی نظر میں پسندیدہ ٹھہرے۔ وہ ملکہ بھوپال شاہ جہاں بیگم کے دفتر خاص میں کاغذات و غیرہ پیش کرنے کے سلسلہ میں برابر آتے جاتے رہتے تھے۔ اللہ نے ملکہ کے دل میں آپ کی محبت ڈال دی۔ چونکہ وہ بیوہ تھیں، ان کے شوہر نواب باقی محمدخان کا چند سال پہلے ہی انتقال ہوا تھا، اس لیے برطانوی حکومت کی تجویز پر انہوں نے عقد ثانی کا ارادہ کرلیا۔ صدیق حسن خان کے علمی مرتبہ، علو نسب اور استقامت کردار پر پورے بھروسہ کے بعد انہوں نے 1871ء میں ان سے نکاح کرلیا، بعد از اں بیگم صاحبہ کی جان سے انہیں پچاس ہزار روپے سالانہ آمدنی والی جائداد عطا ہوئی۔ (5)
نواب صدیق حسن خان نے ملکہ کے تعاون سے مملکت میں اہم اصلاحات کیں، نفاذ شریعت، علوم کی نشر اور بدعات کے خاتمہ کے لیے اہم اقدامات کیے۔ پورے 15 سال نواب صاحب نے مملکت اور عوام کی دل وجان اور پورے اخلاص کے ساتھ خدمت کی مگر ’’المعاصرۃ اصل المنافرہ‘‘ کے تحت ان کے بہت سے دشمن اور حاسدین بھی پیدا ہوگئے۔ خاص قرابت داروں میں بھی بعض نے سخت مخالفت کی مثلاً ان کی سوتیلی بیٹی اور ولیہ عہد سلطان جہاں بیگم بھی ان کے خلاف ہوگئیں۔ چنانچہ دشمنوں کی ان ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے باعث نواب صاحب کے اختیارات، اعزازات اور القاب واپس لے لیے گئے اور تین سال تک سخت تکلیف اور کوفت کے عالم میں گزرے۔ (6) تا ہم علمی انہماک اور مطالعہ و غیرہ اس مدت میں بھی جاری رکھا۔ البتہ ان کی اہلیہ محترمہ رئیسہ بھوپال شاہجہاں بیگم نے ان کا پورا ساتھ دیا اور پوری وفا شعاری کا ثبوت دیا۔ اسی عالم میں 1307ھ مطابق 1890ء کو نواب صاحب نے دنیا کو خیر باد کہا۔ وفات کے کچھ ہی دن بعد ان پر لگے الزامات غلط ثابت ہوئے اور ان کے القاب و اعزازات بھی پسِ مرگ واپس کردیے گئے۔

علمی خدمات:
علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی ہندوستان کے ان چند علماء کبار میں سے ہیں، جن سے پورا عالم اسلام واقف ہے۔ وہ ایک نابغہ روزگار تھے جنہیں جملہ علوم اسلامیہ میں کامل عبور حاصل تھا، لیکن ان کے تخصص کے موضوعات قرآن، علوم القرآن، سنت، فقہ الحدیث اور تصوف تھے۔ انہوں نے کم و بیش 200 سے زائد چھوٹے بڑے رسائل اور اصلاحی و علمی اور تحقیقی کتابیں تالیف کیں جن میں ان کی طبع زاد کم اور تلخیص، تدوین ایڈیٹنگ اور Compilation زیادہ ہے۔ ان میں سے متعدد کتابیں اب مختلف عرب ممالک بطور خاص مملکت قطر سے نہایت آب و تاب کے ساتھ شائع ہوگئی ہیں۔ نواب صدیق حسن کی علمی جلالتِ قدر کے لیے یہ بات کافی ہے کہ علامہ شوکانی کے رسالہ دُرّ ربہیہ کی ان کی شرح الروضۃ الندیۃ کا محدث عصر علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ منجملہ دوسری کتب کے، درس دیا کرتے تھے۔ (7) متاخرین میں بر صغیر کے جن چند بڑے علماء سے عالم عرب بخوبی واقف ہے، نواب صاحب کا شمار انہیں علماء میں ہوتا ہے۔
عربی زبان میں ان کی حیات و خدمات پر پروفیسر اجتباء ندوی مرحوم نے ایک وقیع کام کیا ہے جنہیں اس کام کی تحریک شیخ البانی رحمہ اللہ کے درس میں شرکت سے ملی تھی۔ (8) نواب صاحب کا بہت بڑا امتیاز یہ ہے کہ بر صغیر راست رجوع الی القرآن و السنۃ کی جس فکر و تحریک کے اصول و مبادی حضرت امام ولی اللہ الدہلوی رحمہ اللہ نے وضع کیے تھے (اپنی متعدد تالیفات خاص کر حجۃ اللہ البالغۃ، القول الجمیل اور الانصاف فی بیان سبب الاختلاف میں) مذاہب فقہ اربعہ میں سے کسی مذہب کی پابندی نہ کرنے اور ائمہ فقہ میں کسی معین امام کی تقلید جامد کے غیر ضروری ہونے کے نظریات کی اشاعت میں نواب صدیق حسن نے خوب حصہ لیا ارو اس راہ کی تمام پریشانیوں اور فتنوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔
صدیق حسن خان کو بچپن سے ہی پڑھنے اور مطالعہ کا شوق دامن گیر تھا، چنانچہ عربی و اسلامی کتب متداولہ اور اسلامی علوم و فنون کی اساتذہ سے باقاعدہ تحصیل کے ساتھ ہی خارجی مطالعہ جاری رکھا۔ اپنی طالب علمی کے زمانہ کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’اس زمانہ میں ہر کتاب کے دیکھنے اور سمجھنے کا شوق دامن گیر رہتا تھا، حتیٰ کہ شعر و داستان کی بھی کوئی کتاب خواہ نظم ہو یا نثر ایسی نہیں جس کا ایک بار اول سے آخر تک مطالعہ نہ کیا ہو، حتیٰ کہ فسانہ عجائب، مثنوی، میرتقی میر، شعراء ہند کے دواوین، شعر فارسی کے متداول فارسی دواوین، مثنوی غنیمت زلیخا، سکندرنامہ ابوالفضل، توقیعات اور سہ نثر ظہوری و غیرہ کا بھی مطالعہ کیا‘‘۔ (9)
اسی خارجی مطالعہ کے شوق نے نواب صاحب کو امام محمد بن علی الشوکانی، (جو ان کے سب سے محبوب مصنف ہیں) شاہ ولی اللہ الدہلوی رحمہ اللہ، محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانی رحمہ اللہ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ابن القیم الجوزیہ و غیرہ کی کتب اور علوم سے استفادہ تک پہنچادیا۔ اس چیز کی اہمیت اس وقت معلوم ہوگی جب یہ ذہن میں رہے کہ یہ متاخرین علماء صاحب نظر اور مجتہد علماء ہیں۔ ان میں کوئی بھی مقلد جامد نہیں، اور بر صغیر میں اس وقت ان علماء کے علوم غیر متداول، کتابیں نایاب اور ان کے اجتہادات و تحقیقات سے عدم اعتنائی و تغافل کیشی کا رویہ تھا۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے علوم سے استفادہ بھی اولاً شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے شروع کیا تھا اور ان سے بر صغیر کو روشناس کرایا تھا۔ پھر نواب صدیق حسن نے اس فکر کو عام کیا۔
نواب صدیق حسن خان کا سب سے بڑا کارنامہ علوم کتاب و سنت کی اشاعت ہے۔ چنانچہ جب بھوپال میں انہوں نے کاروبار سلطنت سنبھالا تو دوسرے صیغوں میں اصلاحات کے ساتھ ہی اس شعبہ پر بھی بہت توجہ کی۔ ممتاز ائمہ اور علماء اسلام کی کتابیں بیرونی ممالک سے منگوائیں، انہیں شائع کیا۔ خود لکھتے ہیں:
’’میرا اکثر مال علوم کتاب و سنت کی اشاعت میں صرف ہوا ہے۔ میں نے ہر کتاب کو ایک ہزار کی تعداد میں طبع کرا کر قریب و بعید کے تمام ممالک میں تقسیم کرالیا ہے۔ اگر چہ ان پر ہزاروں روپے صرف ہوئے ہیں تاہم کبھی کسی کتاب کی قیمت وصول نہیں کی‘‘ْ (10)
فتح الباری (مکمل) ہند میں دستیاب نہ تھی، نواب صاحب نے جدہ سے 600روپے میں ابن علان کا قلمی نسخہ خرید لیا اور پھر اس کو مطبع بولاق مصر سے شائع کرادیا، جس پر ۵۰ ہزار روپے کا صرفہ آیا۔ اسی طرح انہوں نے تفسیر ابن کثیر کو فتح البیان کے ساتھ شائع کرایا۔ (11)
نواب صاحب نے علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، علامہ ذہبی رحمہ اللہ، امام شعرائی رحمہ اللہ، امام منذری رحمہ اللہ، سفارینی رحمہ اللہ، حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان کے تلمیذ رشید حافظ ابن القیم رحمہ اللہ، ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ، ابن الجوزی رحمہ اللہ، سیوطی رحمہ اللہ، سید محمد بن اسماعیل الامیر الصنعائی، قاضی محمد بن علی الشوکانی رحمہ اللہ کی تالیفات لاکھوں روپے صرف کرکے منگوائیں ، ان کی اشاعت کی اور ان سے استفادہ کو عام کیا، حالانکہ ان میں سے بہت سی کتابوں کے قلمی نسخے یا خود مصنف کے قلم سے لکھے گئے مخطوطے جمع کرلیے خاص کر ابن حجر رحمہ اللہ، شوکانی رحمہ اللہ اور امیرالصنعائی رحمہ اللہ کی کتابیں، بعض ایسی کتابیں بھی نواب صاحب کے کتب خانہ کی زینت بنیں جن کے سو، دوسو، تین سو، چار سو حتی کہ چھ ساتھ سو اور آٹھ سو برس کے قدیم نسخے بھی تھے۔ ان کے کتب خانہ میں ہزاروں کتابیں جمع ہوگئی تھیں اور ان کا فیض عام ہورہا تھا۔ (13)
عرب ممالک میں نواب صاحب کے بہت سے معاونین اسی مقصد پر مامور و متعین تھے، ان کا کام یہ تھا کہ وہ دیار عرب کے کونہ کونہ کتابیں تلاش کرکے ان کی خدمت میں بھیجتے رہتے تھے۔ (14)
اپنی خود نوشت سوانح عمری ’ابقاء المنن بالقاء المحن‘ میں نواب صاحب نے علوم کی مختلف شاخوں اور فروع میں اپنی پسندیدہ کتابوں کی مختصر سی فہرست بھی دی ہے، جس سے ان کے بلند علمی ذوق، وسعتِ مطالعہ، درا کی، سرعت فہم، قوت اخذ اور تجزیہ کی قوت کا پتہ چلتا ہے۔ اس فہرست میں انہوں نے بالترتیب مواعظ میں احیاء علوم الدین للغزالی کو، شروح حدیث میں فتح الباری لحافظ ابن حجر کو، فقہ السنۃ میں قاضی محمدبن علی الشوکانی رحمہ اللہ کی نیل الاوطار، السیل الجرار، وہل الغمام اور اپنی کتاب مسک الختام کو نیز فتح العلام (ان کے صاحب زادہ نور الحسن کی تصنیف) اور اپنی کتاب الروضۃ الندیۃ کو، تفسیر میں ابن کثیر، فتح القدیر اپنی کتابوں فتح البیان اور ترجمان القرآن کو، تذکرہ میں طبقات الصوفیۃ شعرائی رحمہ اللہ کو، نیزشعرانی ہی کی لطائف المنن کو اور تراجم میں ابن حجر کی الدرر الکامنۃ، شوکانی کی البدر الطالع اور اپنی کتاب التاج المکلل کو بہترین کتاب قرار دیاہے۔ (15)

مسلک و فکری منہج:
کسی باوثوق ذریعہ سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ عبادات و غیرہ میں نواب صاحب مسلک محدثین پر عمل پیراتھے یافتہ حنفی کے مطابق عمل کیا کرتے تھے۔ تا ہم اپنے فکری منہج کے بارے میں نواب صدیق حسن کا ذہن بالکل صاف تھا، انہوں نے صراحت سے لکھا ہے کہ ’’میں تو مشہور اہل الحدیث ہوں اور تقویۃ الایمان و رسائل توحید کا پابند ہوں‘‘۔ (16)
مسئلہ تقلید کے سلسلہ میں انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے اور کبھی بھی جادہ اعتدال نہیں چھوڑا۔ ان کے نزدیک کتاب و سنت مذمت تقلید جامد سے بھرے پڑے ہیں، تاہم ایک عامی اور مقلد جاہل تقلید کرسکتا ہے۔ جو قرآن و حدیث کے دلائل نہ جاننے کی بنا پر ان پر براہ راست عمل نہیں کرسکتا اور کتب فقہ سے بھی منتفع نہیں ہوسکتا بشرط یہ کہ وہ کسی امام کے مذہب پر بالکل اس طرح نہ جم جائے کہ بس اسی کو حق سمجھے کیوں کہ اس طرح کی تقلید سلف سے ثابت نہیں۔۔۔ تمام دنیا بھی دلیل کے خلاف کہتی رہے تو کہتی رہے معترض پر اس کا جواب واجب نہیں ہوگا۔ (17)
نواب صاحب نے میزان شعرانی کا قول نقل کرکے لکھا کہ ’’فقہاء کا مسائل میں اختلاف تشدید و تخفیف پر محمول ہے اور سوئے ظن کی بنسبت سب کے ساتھ حسنِ ظن رکھنا سلامتی کا راستہ ہے۔ (18)
مزید لکھتے ہیں:
’’میں صرف اہل سنت کو فرقہ ناجیہ سمجھتا ہوں، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری اہل الحدیث اور اہل سلوک میں سے کسی کے متعلق گمان بد نہیں رکھتا۔ مجھے معلوم ہے کہ ان میں سے ہر گروہ کے کچھ مسائل خلاف دلائل ہیں اور کچھ موافق نصوص، ان کے بعض فتاویٰ صحیح اور بعض ضعیف و مردود ہیں لیکن حکم اکثر کے مطابق ہوتا ہے اقل کے مطابق نہیں۔‘‘ (19)
نواب صدیق حسن خاں کے نزدیک ائمہ سلف پر مخالفت سنت کا طعن کرنا انصاف کا خون بہانا ہے، البتہ ان کے جو مقلد کتاب و سنت کے دلائل واضح ہوجانے کے بعد بھی ان کی محض رائے کی تقلید پر جمے ہوئے ہیں وہ ان کو غلطی پر تو سمجھتے ہیں گمراہ نہیں۔ (20)
ان کے نزدیک عبادات و معاملات میں اہل علم کا اختلاف کفر و اسلام کا اختلاف نہیں زیادہ سے زیادہ اسے اجتہاد یا فہم کی غلطی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، البتہ اصول دین میں ان کا اختلاف غالباً کفر تک لے جاتا ہے اور اسلام میں متعدد گمراہ فرقے اصول و عقائد میں اختلاف کے سبب ہی ہوتے ہیں۔ (21) وہ لکھتے ہیں:
’’میں نے کسی کتاب میں بھی مقلدین مذاہب کے حق میں طعن و تشنیع کا کوئی لفظ نہیں نکالا چہ جائے کہ حضرات ائمہ اربعہ کے حق میں کوئی نازیبا لفظ استعمال کروں۔۔۔ میرا چاروں ائمہ فقہ، جمیع محدثین جملہ علماء پاک دین کے حق میں اسی طرح کا اعتقاد ہے، جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین، تبع تابعین رحمہم اللہ اور تمام سلف صالحین کے حق میں ہے۔۔۔ بے شک میں اس وقت تک کسی کی مجرد رائے اور اجتہاد کو نہیں مانتا جب تک اسے دلیل سنت کے موافق نہ پاؤں خواہ اس کا تعلق علم ظاہر سے ہو یا علم باطن سے۔۔۔ میں معانی آیات و احادیث میں جملہ علماء اکابر، صلحاء اور ائمہ سلف کے اقوال و احوال پر اعتماد کرتا ہوں خواہ حنفیہ ہوں یا شافعیہ، حنابلہ ہوں یا مالکیہ، علماء صوفیہ ہوں یا مشائخ طریقت۔۔۔ رہی بات کہ رد تقلید یا ذم مقلدین سے سوئے ادب لازم آتا ہے جو اس کا جواب یہ ہے کہ لازم مذہب کسی کے نزدیک بھی مذہب نہیں۔ طعن تقلید ائمہ دین نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ تو تقلید کی دعوت نہیں دیتے تھے بلکہ اس سے منع کرتے تھے۔۔۔ میں نے فعل تقلید کی تردید کی ہے متعین مقلدین کی نہیں۔(22) امت مسلمہ میں سے کسی شخص کا اتباع بجزاللہ و رسول کے واجب نہیں ہے اسی وجہ سے سارے سلف تقلید رجال سے منع کرتے آئے ہیں۔‘‘(23)
مسئلہ تقلید پر نواب صاحب کے زمانہ میں بھی خوب بحثابحثی جاری تھی، انہوں نے بھی مخصوص انداز میں اس پر تبصری کیا، ان کے مطابق یہ مسئلہ اس لائق نہیں کہ اس پر بحث تضلیل و تکفیر تک پہنچ جائے لکھتے ہیں:
’’یہ علم اصول فقہ کا ایک جزوی مسئلہ ہے، اور نہایت واضح ہے کہ تقلید اس کو کہتے ہیں کہ آدمی دوسرے شخص کی بات کو حلت و حرمت کے سلسلہ میں بلا دلیل و نص شارع قبول کرلے۔ سو یہ بات ظاہر ہے کہ سب مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں اور کسی شیء کی حلت و حرمت آپ کے بتائے بغیر معلوم نہیں ہوسکتی۔ تو اتباع آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا چاہیے کسی اور شخص کا نہیں، ورنہ اسے پیغمبر ماننا پڑے گا۔ اگر کسی مجتہد نے کسی شیء پر اپنے اجتہاد، رائے یا قیاس سے حکم لگایا اور بعد میں کسی دوسرے شخص پر قرآن و حدیث سے دلیل واضح ہوگئی تو وہ مجتہد معذور ہے، لیکن اسے جہد و سعی کا ایک اجر ضرور ملے گا، مگر وہ شخص جسے قرآن یا سنت صحیحہ پہنچ گئی، ہرگز معذور نہ ہوگا اور اگر دیدہ دانستہ نص کی مخالفت کرے گا تو خدا و رسول کا مخالف ٹھہرے گا، ہم نے فقہ مذاہب اربعہ کی ساری کتابیں دیکھی ہیں، کسی امام مجتہد سے یہ بات منقول نہیں کہ ہمارے اجتہاد کے آگے تم قرآن و حدیث کو چھوڑ دینا۔۔۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ ان کا مقلد صحیح و صادق وہی مسلمان ہے جو اس قول حق میں ان کی پیروی کرے، نہ کہ وہ جو ان کے اس قول کی مخالفت کرے۔۔۔ علاوہ ازیں ائمہ اربعہ سے فقہ کے جتنے مسائل منقول ہیں، وہ سارے احکام قرآن و حدیث کے خلاف نہیں بلکہ سنت صحیحہ سے جتنے مسائل ثابت ہیں، وہ ان چاروں مذاہب کے اندر منتشر اور موجود ہیں۔‘‘ (24)
اتباع ایسی چیز ہے جو شرعاً مامور بہ ہے اور تقلید نصا منہی عنہ ہے۔
نواب صدیق حسن خان اہل سنت کے تمام مکاتب فکر کو صحیح سمجھتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ:
’’ائمہ اربعہ کے اصول ایک ہیں اور فروعی اختلاف ضلالت و کفر کا موجب نہیں ہوتا۔ امت کو ظاہری اور باطنی اعتبار سے کتاب و سنت کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور اللہ و رسول کے سوا کوئی متبوع نہیں، امت کے جس قدر علماء و مشائخ ہیں ان کے اقوال مقبول بھی ہیں اور مردود بھی۔‘‘(25)
حق مذاہب اربعہ میں دائر ہے منحصر نہیں اس لیے اہل الحدیث، ظاہریہ اور صوفیہ بھی حق پر ہیں بلکہ یہ لوگ حق میں سب سے افضل ہیں۔ (26)
نواب صدیق حسن خان مسلکی تحزب اور فرقہ بندی سے دور تھے، وہ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے مسلک اعتدال کے قائل تھے (بعض اختلافات کے ساتھ) کیسے یہ انہیں کی زبانی دیکھتے ہیں:
’’ائمہ اربعہ کے مذاہب پر عبور حاصل کرنے کے بعد میں نے اپنے لیے دلیل کے اتباع کو پسند کیا ہے، یعنی دلیل کے اعتبار سے جو مذہب قوی اور صحیح تر ہو، میں اسے اختیار کرتا ہوں، خواہ وہ مذہب حنفی ہو یا شافعی، مالکی ہو یا حنبلی۔ میں کسی مذہب کو محض تعصب کے پیش نظر رد نہیں کرتا اور نہ کسی مذہب کو محض خواہش کے مطابق اختیار کرتا ہوں۔ مثلاً مسئلہ آب میں مذہب مالک رحمہ اللہ زیادہ قوی ہے، تشہد کے صیغوں کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب زیادہ قوی ہے اور مسئلہ صفات میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مسلک سب سے صحیح ہے، لہذا میں نے انہیں اختیار کیا ہے۔ علی ہذا القیاس میں نے اپنی تمام تالیفات میں اسی قاعدہ کو پیش نظر رکھا ہے۔ اس اعتبار سے میں اپنے آپ کو حنفی کہوں یا شافعی، مالکی کہوں یا حنبلی تو کذب لازم نہیں آئے گا اور اگر محض سنی کہوں تو بھی بالکل سچ ہے۔ ائمہ اربعہ اور دیگر مجتہدین کا محب اور خادم ہونے کی حیثیت سے اگر میں اپنے آپ کو ان میں سے کسی امام کی طرف منسوب کروں تو بھی درست ہے، چنانچہ سلف امت کی طرف اہل علم کی اکثر نسبتیں اسی قبیل سے ہیں۔‘‘ (27)

سلف سے اختلاف:
نواب صدیق حسن خاں چونکہ صاحب رائے اور وسیع النظر عالم تھے، اس لیے علماء سلف سے بعض مسائل میں اختلاف بھی کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’دنیا میں کوئی مؤلف اور مصنف ایسا نہیں ہوا کہ اس پر کسی معاصر یا متأخر نے تنقید نہ کی ہو۔ ہر فقیہ اور ہر محدث کی ہر کتاب پر تنقید کی گئی ہے، مثلاً شروح حدیث میں فتح الباری بے مثال ہے، کہا گیا ہے ’’لا ھجرۃ بعد الفتح‘‘ (یعنی فتح الباری کے بعد اسے چھوڑ کر کسی اور کتاب کا رخ نہیں کیا جائے گا)۔ اس کے باوجود علامہ شوکانی نے اس کے بعض مقامات پر سخت تنقید کی ہے۔ سید محمد بن اسماعیل صنعانی نے ’’احالات فتح‘‘ میں مؤلف کا نسیان ثابت کیا ہے۔‘‘
خود نواب صدیق حسن خاں نے بھی شوکانی کے بعض مسائل پر تنقید کی ہے اور بعض جگہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی بعض تقریرات کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے بارے میں بھی اہل علم سے یہی اپیل کی کہ:
’’میری کتاب کا جو مسئلہ کتاب و سنت کی صحیح نص کے خلاف ہو اسے اٹھا کر دیوار پر ماردیں اور جو قرآن و حدیث کے موافق ہو اسے قبول کریں۔‘‘ (28)
نواب صدیق حسن خاں کا کہنا ہے کہ وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ قول تسلیم نہیں کرتے ’’ایک دن نار بھی فنا ہوجائے گی‘‘ شیخ ابن عربی کا یہ قول قبول نہیں کرتے کہ فرعون حالت ایمان میں ہے، البتہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی یہ بات قبول کرتا ہوں کہ بدعت اگرچہ حسنہ ہو اس سے ظلمت پیدا ہوتی ہے اور سنت اگر چہ چھوٹی ہو تو اس سے دل میں نور ہی نور پیدا ہوتا ہے۔ (29)
نواب صاحب نے مسلک الختام اور شروح تجرید الصحیحین میں بہت جگہوں پر مذہب امام عالی مقام امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو راجح لکھا ہے اور دوسرے مذاہب کو مذہب مرجوح، ضعیف یا مردود لکھا ہے۔ (30) البتہ نواب صاحب کو اپنے علم پر اعتماد کامل حاصل ہوگیا تھا چنانچہ بعض جگہوں پر تحدیث نعمت کے بطور اس کا اظہار بھی کردیا:
’’معاصرین میں سے کسی کو بھی ائمہ اسلام کی کتابوں پر اس قدر عبور حاصل نہیں جتنا مجھ کو ہے، کیوں کہ میں نے ہزارہا کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور ہر موضوع کی اکثر کتابوں کو از اول تا آخر پڑھاہے، فقہ السنۃ، اصول فقہ اور علم تفسیر میں جو دستگاہ مجھے حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔‘‘ (31)
’’ایسی کوئی کتاب نہیں جو تالیف ہوئی یا طبع ہوئی یا عرب و عجم کے شہروں میں دستیاب ہوتی ہو اور میرے مطالعے میں نہ آئی ہو، اگرچہ میں اسے اپنے پاس نہ رکھ سکا ہوں گا۔‘‘ (32)
یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ نواب صاحب طباع مصنف نہیں بلکہ ملخص ہیں۔ ان کی کتابیں علم تفسیر، حدیث، فقہ الحدیث سلوک و احسان، ادب اور تاریخ سے متعلق ہیں، تا ہم ان کی بہت سی کتابوں میں متقدمین کے منتخب اقتباسات و اقوال ہیں اور بعض میں علماء سلف میں سے کسی مؤلف کی تلخیص البتہ ان میں اپنے بعض فوائد کا اضافہ کیا ہے۔ مثلا ان کی تفسیر فتح البیان اصلاً فتح القدیر للشوکانی کی تلخیص ہے، البتہ جابجا دوسری کتب تفسیر سے اضافے کیے ہیں۔ حصول المأمول، ارشاداللفحول شوکانی کی تلخیص ہے۔ مثیر ساکن الغرام الی روضات دارالسلام ابن قیم رحمہ اللہ کی حادی الارواح کی تلخیص ہے۔ بعض کتابوں کے اردو یا فارسی ترجمے بھی کیے ہیں، ان کی طبع زاد تصنیفیں بہت کم ہیں۔ (33)
نواب صاحب کے پاس چونکہ موہبت خداوندی سے وسعتِ علمی کے ساتھ وجاہت ریاست بھی جمع ہوگئی تھی، اس لیے کتابوں کی نشر و اشاعت کا زبردست کام ان کے ذریعہ انجام پایا۔ ہندوستانی علماء میں وہ اس لحاظ سے بہت ممتاز ہیں کہ ان کے حین حیات ہی ان کی تصنیفات بلاد عرب و عجم میں مشہور ہوگئیں، چنانچہ عدن، یمن، صنعاء، زبید، حدیدہ، بغداد، حرمین شریفین، مصر، القدس، دمشق، بیروت، قسطنطنیہ اور فارس تک ان کی کتابیں پہنچیں اور ہر جگہ اہل علم نے ان کو پسند کیا، ان پر تقاریظ لکھیں۔ (34) نواب صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں نے ائمہ سلف اور علماء سابقین کی کتب سے زیادہ استفادہ کیا ہے، کتب خلف سے بہت کم اخذ کیا ہے اور بالخصوص معاصرین کی کتب کے مطالعہ کا تو بہت کم اتفاق ہوا ہے۔ (35) لیکن راقم کے خیال میں ان کے اس بیان میں تسامح ہوا ہے، اس لیے کہ خود انہی کی تفریح کے مطابق محمد بن اسماعیل الامیر الصنعائی رحمہ اللہ اور علامہ قاضی محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ سے انہوں نے زیادہ استفادہ کیا ہے جبکہ یہ دونوں ان کے معاصر نہ سہی، لیکن ان سے ذرا سا پہلے ہی ہو گزرے ہیں، اور ان دونوں فضلاء کو علمی لحاظ سے انہوں نے شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ پر ترجیح دی ہے۔ (36)
نواب صاحب نے فکر اسلامی کی خدمات انجام دی ہیں، لیکن انہیں مجتہد یا مجدد ہونے کا ہرگز دعویٰ نہیں تھا، وہ اپنے آپ کو متبع کتاب و سنت کہلانا پسند کرتے تھے۔ بعض لوگ انہیں مجتہد یا مجدد کہہ دیتے تھے، لیکن نواب صاحب اس قسم کے الفاظ سے سخت پریشان خاطر ہوتے وہ کہتے ہیں:
’’مجھ میں کوئی شرط اجتہاد اور کوئی صورت تجدید نہیں ہے میں مروجہ وظائف علم سے بالکل علیحدہ رہتا ہوں، نہ کبھی درس و تدریس کرتا ہوں، نہ کسی کو شاگرد بناتا ہوں، نہ آج تک کسی فتویٰ پر دستخط کیے، نہ کسی کا مرید ہوں اور نہ کسی کو مرید و معتقد کرنا چاہتا ہوں، بلکہ خادم کتاب و سنت ہوں۔‘‘(37)
خلاصہ یہ ہے کہ نواب صدیق صاحب قنوجی بھوپالی ان بڑے علماء میں سے ہیں، جنہوں نے جملہ علوم اسلامیہ کے مطالعہ میں بڑی وسعت پیدا کی اور تدوین، تلخیص اور ترتیب و تالیف کی ذریعہ اسلاف کرام کے علوم سے ایک جہاں کو متعارف کرایا، خاص کر بر صغیر میں فقہاء محدثین، متاخرین مجتہدین امت اور مشاہیر اسلام کے فکر و تجدید کی روشنی پھیلائی، علم اسلامیہ کی اس نشر و اشاعت میں ان کا کوئی ثانی اور شریک و سہیم نہیں ہے۔ (38) اس لیے بعض علماء نے کو کبار مصلحین و مجددین اسلام میں شمار کیا ہے، علامہ عبدالحی الکتانی الجزائری نواب صاحب کے بارے یوں لکھتے ہیں:
’و بالجملۃ فھو من کبار من لھم الید الطولیٰ فی احیاء کثیر من کتب الحدیث و علومہ بالھند و غیرھا جزاہ اللہ خیراً‘ (ابقاء المنن، صفحہ 362)
پروفیسر اجتباء ندوی مرحوم نے لکھا ہے:
’’ان کے تمام کارناموں میں ان کا اپنا رنگ و آہنگ، خدا داد صلاحیت، گہرا مطالعہ اور فکر سلیم اپنی جھلکیاں دکھائے بغیر نہیں رہتا‘‘۔ (39)
نواب صاحب کی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ دلائل کے اعتبار سے زیادہ صحیح، قوی اور احوط طریقہ اختیار کیا جائے اور اہل علم کے اقوال کے مقابلہ میں کتاب و سنت کے دلائل کو ہر حال میں ترجیح دی جائے، اختلافی مسائل میں حتی الامکان مختلف مذاہب فقہیہ کے درمیان جمع و تطبیق کی راہ کو تلاش کیا جائے۔ (40) یہی اصل میں حقیقی فکر اسلامی ہے، اور اس کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ فرقہ اہل حدیث میں جو جمود فکر پایا جاتا ہے اور وہ ائمہ اربعہ خاص کر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی جو تنقیص کررہے ہیں، اس کے پیش نظر ان کا اپنے آپ کو نواب صدیق حسن خاں کی طرف منسوب کرنا حقیقت سے دور معلوم ہوتا ہے۔ نواب صاحب کی فکر اور علمی خدمات پر کام ابھی کم ہواہے۔ ضرورت ہے کہ ان کے سرمایہ فکر کے مختلف پہلوؤں کو جائزہ و تحقیق کا موضوع بنایا جائے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مصادر و مراجع:
1۔ نواب صدیق حسن خاں سیادت و شرافت نسب کے تصور کو تو درست سمجھتے ہیں اور کفائت کے لیے اسے ضروری جانتے ہیں، تا ہم اپنی خود نوشت میں جابجا اس بات کا واضح اظہار کیا ہے کہ ’’تقویٰ کے بغیر یہ شرف قطعاً نفع بخش نہیں‘‘ یہ فخر کی نہیں ذمہ داری کی بات ہے، اور باعمل غیر سید بے عمل سید سے افضل ہے‘‘ اسی طرح انہوں نے بے عملی کے ساتھ سیادت کے غرور و تعلیٰ کو سخت ناپسند کیا ہے اور اس بارے میں سخت الفاظ لکھے ہیں۔ دیکھیے ابقاء المنن صفحہ 43 تا 47 (بڑی عمدہ بحث ہے) اور صفحات 195-70۔
2۔ پورا شجرہ نسب ملاحظہ ہو ابقاء المنن، صفحہ 32
3۔ نفس المصدر، صفحہ 33
4۔ نواب صاحب نے والدہ محترمہ کی بڑی تعریف کی ہے۔ ان کے طریق ترتیب کے بارے میں لکھا ہے: میں سات برس کا تھا، میرے گھر کے دروازے پر مسجد تھی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ صبح کے وقت اذان ہوتے ہی والدہ مرحومہ مجھے بیدار کردیتیں اور وضو کرا کے مسجد میں بھیج دیتی تھیں اور گھر میں کبھی نماز پڑھنے دیتی تھیں۔ اگر نیند کی سستی کی وجہ سے نہ اٹھتا تو منہ پر پانی ڈال دیتی تھیں۔ اس وجہ سے بچپن ہی سے نماز کی عادت پڑگئی۔شاید دس برس کی عمر میں والدہ نے روزہ رکھوایا اور اس وقت سے روزہ رکھنے کی عادت پڑگئی۔ (ابقاء المنن بالقاء المحن نواب صدیق حسن قنوجی اسلامک اکیڈمی لکھنؤ، طبع ثانی 2004، صفحہ 52)
5۔ مولانا حکیم سید عبدالحی الحسنی رحمہ اللہ رائے بریلوی، نزہۃ الخواطر: ج8، صفحہ189-90
6۔ اس سلسلہ میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ نواب کے خاندان کے افراد خاص کر ولیہ عہد سلطان جہاں بیگم اپنی والدہ رئیسہ بھوپال اور نواب صدیق حسن سے اس لیے ناراض تھیں کہ انہوں نے خاندان سے باہر شادی کرلی۔ لیکن یہ کوئی قوی بات معلوم نہیں ہوتی۔ ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ انہیں یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ صدیق حسن اپنے بیٹوں کو تخت کا وارث بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن آخر میں یہ بات بھی غلط ثابت ہوگئی۔ نواب صاحب نے خود اپنی خودنوشت میں متعدد جگہ اس کا تذکرہ کیا ہے کہ ریاست و امارات سے طبعاً انہیں کوئی رغبت و دلچسپی نہیں ہے۔ وہ تو اسے عطائے خداوندی سمجھتے تھے اور ایک آزمائش بھی۔
بعض اہل علم نے نواب صاحب کی مخالفت کی توجیہ اختلاف مسلک میں تلاش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سلطان جہاں بیگم نہ صرف کٹر حنفیہ تھیں بلکہ اکابر علماء دیوبند سے ارادت کا تعلق بھی رکھتی تھیں۔ علامہ شبلی رحمہ اللہ نے جب ’’سیرت‘‘ کے لیے مالی امداد کی اپیل کی تھی تو انہوں نے پہلے سیرت النبی کا مسودہ منگوایا اور اسے اپنے شیخ، شیخ الہند مولانا محمدالحسن دیوبندی رحمہ اللہ کی خدمت میں ملاحظہ کے لیے بھیجا۔ جب شیخ الہند کے تلمیذ خاص مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں بلند کلمات کہے تب سیرت کے لیے امداد منظور ہوئی۔ نواب صاحب کے حاسدوں نے ان کے بارے میں بہت سی افواہیں اڑائی تھیں۔ مثلاً یہ کہ وہ تقلید کے مخالف ہیں۔ ائمہ اربعہ کو برا بھلا کہتے ہیں، کرامات اولیا کے منکر ہیں و غیرہ۔ حالانکہ ان تمام الزامات کی تردید اور وضاحت نواب صاحب نے اپنی خودنوشت ابقاء المنن میں کردی ہے۔ پھر بھی معاند انہ پروپیگنڈہ سے ولیہ عہد کا متاثر ہوجانا بعید از قیاس نہیں ہے۔
7۔ ملاحظہ ہوا ابراہم محمدالعلی، محمدناصر الدین الالبانی محدث لعصر ناصر السنۃ، ص:29، دارالعلم دمشق، الطبعۃ الثانیۃ، 2003۔
8۔ جیسا کہ پروفیسر محمد اجتباء ندوی مرحوم نے نواب صدیق حسن پر عربی میں اپنی کتاب کے مقدمہ میں تحریر کیا ہے۔
9۔ ملاحظہ ہو ابقاء المنن بالقاء المحن خودنوشت سوانح نواب صدیق حسن خان، تسہیلی محمدخالد سیف تصحیح نظر ثانی قاری نعیم الحق، ناشر نواب صدیق حسن قنوجی اسلامک اکیڈمی لکھنؤ، ص:60۔
10۔ نفس مصدر صفحہ 78
11۔ نفس مصدر صفحہ 73
12۔ نفس مصدر 73
13۔ نفس مصدر 69
14۔ پروفیسر اجتباء ندوی تاریخ فکر اسلامی، المرکز العلمی، نئی دہلی، صفحہ 180 طبع 1998ء۔
15۔ ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ: 69۔
16۔ صفحہ: 300
17۔ صفحہ 83
18۔ صفحہ 159
19۔ صفحہ 83
20۔ صفحہ 83
21۔ صفحہ 84
22۔ صفحہ 268-269
23۔ صفحہ 267
24۔ صفحہ 160-161
25۔ صفحہ90
26۔ ملاحظہ ہو ابقاء المنن بالقاء المحن خودنوشت سوانح عمری (اردو) نواب صدیق حسن خاں بھوپالی، صفحہ 91
27۔ صفحہ92-93
28۔ صفحہ: 183۔ ایک جگہ انہوں نے لکھا: ’’میری اکثر تالیفات نہایت تحقیق سے لکھی گئی ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ میں نے جو کچھ لکھا پڑھا ہے، اس میں کوئی نسیان نہیں ہوا ہوگا، بلکہ ہر تالیف میں ضرور خطائیں ہوں گی ( صفحہ81) نیز اسی طرح کی بات اس کتاب کے صفحہ 284 پر لکھی ہے۔
29۔ یہی کتاب، صفحہ182-183
30۔ صفحہ268
31۔ صفحہ96
32۔ صفحہ 331
33۔ اسی بات کا اعتراف نواب صدیق صاحب نے خود بھی کیا ہے۔ ایک جگہ لکھا: میری اکثر تالیفیں آثار سلف و علماء راسخین کی مؤلفات کے تراجم (ترجموں) پر مشتمل ہیں۔ ( صفحہ184 وہی کتاب) وہ اپنے آپ کو ائمہ سابقین اور علماء امت کا حمال و نقال بتاتے ہیں۔ (ایضاً)
34۔ وہی کتاب صفحہ 75
35۔ صفحہ 65
36۔ صفحہ 271
37۔ صفحہ 167
38۔ نواب صاحب نے اپنے مصارف سے جو علمی کتابیں اور رسائل چھپوا کر اہل علم اور طالبان حق کو مرحمت کیں ان کی تعداد تقریباً 5 ہزار تک پہنچتی ہے۔ ملاحظہ ہو ابقاء المنن، صفحہ 337
39۔ پروفیسر اجتباء ندوی، تاریخ اسلامی، صفحہ 175، المرکز العلمی، نئی دہلی۔
40۔ ابقاء المنن بالقاء المحن، نواب صدیق حسن خاں (اردو) صفحہ 88۔

بقلم ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی (ڈائرکٹر فاؤنڈیشن فار اسلامک اسٹڈیز، نئی دہلی)
ماہنامہ الشریعہ (جنوری 2014)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں