’’الصراع‘‘ کی تالیف کا محرک اور مشرق و مغرب کے مزاج کا فرق

’’الصراع‘‘ کی تالیف کا محرک اور مشرق و مغرب کے مزاج کا فرق

یہ پوچھے جانے پر کہ الصراع (۱) کی تالیف کا اصل محرک کیا ہوا؟
حضرت نے فرمایا: پہلے ہم نے ترکی کی تاریخ پڑھی تو احساس ہوا کہ مغرب سے مرعوبیت اور ان کی تہذیب کو بلا کسی تنقید کے پورے طور پر اپنانے کا مرض ترکی کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ پورا عالم اسلام اس سے دوچار ہے، تو ہم نے ایک مضمون لکھا: ’’الموقف الحضاری تجاه الغرب‘‘ پھر ہم لندن گئے تو بچشمِ خود وہاں کے حالات کا مشاہدہ کیا اور مغربی تہذیب کی اثرانگیزی اور جادوگری کو بہت قریب سے دیکھا، تو احساس بہت بڑھ گیا، اور اسی وقت یہ خیال پیدا ہوا کہ اس جانب توجہ کرنے کی بہت شدید ضرورت ہے اور عالم اسلام کی صحیح رہنمائی اور اس کو مشورہ دینا ہمارا فرض ہے، وہیں ہم نے کسی ادارے میں ایک تقریر کی جو بہت موثر ثابت ہوئی، اس کا یہ جملہ بہت مشہور ہوگیا تھا ’’الشرق شرق و الغرب غرب، و بینهما برزخ لا یلتقیان‘‘ یعنی مشرق اور مغرب کے درمیان اس کی طبیعت اور مزاج کے درمیان ایک دیوار ہے، دونوں کبھی ایک ہو نہیں سکتے، اس کے بعد ہم نے یہ کتاب لکھی، اس میں انگریزی کتابوں کے بھی بہت سے حوالے ہیں۔

اس وقت کے دو چلینج
فرمایا: اس وقت الحاد کی اساس مغربیت ہے، اس وقت دو چیلنج ہیں: ایک عالمی اور ایک مسلمانوں کا اندرونی، ان دونوں کی طرف توجہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، جو چیز عالمی ہے وہ مغربیت ہے، اپنے وسیع مفہوم کے ساتھ، سیاسیات میں، اقتصادیات میں، سماجیات میں، افکار میں، کردار میں، تمام برائیوں کی جڑ مغربیت ہے، اور جو چیز مسلمانوں میں اندرونی طور پر ہے، وہ اسلام کی صلاحیت پر یقین کا نہ ہونا اور یہ سمجھنا کہ اسلام کا دور اب ختم ہوچکا، وہ اب ہمارے مسائل حل نہیں کرسکتا، ہماری آزادی کو سلب کرتا ہے اور ہم پر پابندیاں لگاتا ہے، خصوصاً جدید تعلیم یافتہ طبقے میں یہ مرض بڑھتا ہی جارہا ہے،اس وقت پورا عالم اسلام اسی کشمکش میں ہے، اسلام پسندوں اور حکومت کے درمیان جنگ ہے، مصر میں، شام میں، ترکی اور الجزائر میں ہر جگہ یہی ہورہا ہے، خصوصاً مصر اور الجزائر میں حکومت جس طبقے کے ہاتھ میں ہے وہ اسلام سے گبھراتا ہے اور خوف محسوص کرتا ہے، کم سے کم الفاظ میں اور محتاط تعبیر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسلام سے گھبراتا ہے کہ اسلام اگر بر سر اقتدار آیا، تو ہمارا کیا ہوگا!

’’الصراع‘‘ کی اہمیت
فرمایا: بہت مدت بعد یہ کتاب یعنی الصراع دیکھنے کا موقع ملا، ہمیں خود حیرت ہوئی کہ اتنا مواد اس میں ہے، اس کے لیے ہم نے انگریزی کتابوں سے بہت استفادہ کیا ہے، اللہ ہمارے بھائی صاحب کو جزائے خیر دے کہ انھوں نے عربی اور فارسی کے ساتھ انگریزی بھی پڑھائی، جس سے ہم نے بہت کام لیا، انگریزوں کے یہاں بھی کبھی بڑی گہری بات اور حقائق مل جاتے ہیں، لیکن بڑی تلاش کی ضرورت ہے۔

انسان کو ترقی کے باوجود آدمی کی طرح چلنا نہیں آیا
مثلاً یہ لطیفہ: ایک ہندوستانی حکیم اور فاضل لندن آئے، کسی انگریز سے بات ہو رہی تھی وہ کہہ رہا تھا کہ آج دنیا بہت ترقی کرچکی ہے، ہوائی جہاز کی ایجاد ہوئی ہے، تو انھوں نے ایک بڑی حکیمانہ بات کہی کہ آج انسان پرندوں کی طرح ہوا میں اڑتا ہے اور مچھلی کی طرح پانی میں تیرتا ہے، لیکن ابھی تک اس کو آدمی کی طرح زمین پر چلنا نہیں آیا، یہ کتنے پتے کی بات ہے، اس کو ایک انگریز نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔

’’الصراع‘‘ اور ’’ماذا خسر‘‘ میں مغربیت سے مقابلے کا پورا مواد ہے
فرمایا: الصراع کو معهد العالی (۲) کے نصاب میں داخل کرکے بڑا اچھا کیا، پھر اس کے ساتھ ماذا خسر، مغربیت کے مقابلے کے لیے سارا مواد ان دو کتابوں میں موجود ہے، انگریزی میں بڑے پیمانے پر ان کی اشاعت کی ضرورت ہے۔

اکبر اور اقبال مغربیت کے سب سے بڑے باغی
فرمایا: مغربیت کا سب سے بڑا باغی اقبال ہے، ان لوگوں کو روائع اقبال پڑھنے کے لیے کہو یا پھر نقوش اقبال، لیکن روائع اقبال سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ فرمایا: حیرت ہوتی ہے اکبر الہ آبادی پر، کچھ انگریزی بھی پڑھی، انگریزی حکومت میں ملازمت بھی کی، وہ کچھ مدت جج بھی رہے تھے، مگر مغربیت پر ایسی کھلی تنقید کرتے ہیں، مثلاً ان کا یہ شعر دیکھیے:
لکھے گا کلکِ حسرت دنیا کی ہسٹری میں
اندھیر ہورہا تھا بجلی کی روشنی میں
ساری بات اس میں کہہ دی۔
ہم نے اکبر پر بھی لکھا ہے: مصر میں ہم نے ان پر مقالہ لکھا تھا: ’’الحضارة الغربیة الوفدة و أثرها فی الجیل المثقف‘‘ یہ الگ رسالے کی شکل میں شائع ہوچکا ہے، لیکن اردو اور انگریزی میں ابھی اس کا ترجمہ نہیں ہوا، اللہ نے بڑا کام لیا کہ اقبال اور اکبر دونوں کا عالم عربی میں تعارف کرایا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حواشی:
(۱) حضرت کی مشہور اور بہت اہم کتاب ’الصراع بین الفکرة الاسلامیة و الفکرة الغربیة فی الاقطار الاسلامیة‘، جس کا اردو ترجمہ ’’مسلم ممالک میں اسلامیت و مغربیت کی کشمکش‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ (مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکنھؤ)
(۲) المعھد العالی للدعوۃ و الفکر الاسلامی کے نام سے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں منتہی طلبہ کے لیے ایک شعبہ تھا، حضرت مولانا کو جس کی بڑی فکر رہتی تھی، اب کلیۃ الدعوۃ و الاعلام قائم ہونے کے بعد اس کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔
۲۶؍۲؍۱۴۱۸ھ مطابق ۲؍۷؍۱۹۹۷ء

مجالس حسنہ علامہ سید ابوالحسن ندوی، صفحہ ۵۲۹۔۵۳۱


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں