پیرس حملوں کے بعد یورپ اور امریکا میں مسلمان اجنبی بن گئے

پیرس حملوں کے بعد یورپ اور امریکا میں مسلمان اجنبی بن گئے

پیرس میں اسلام کے نام پر دہشت گردی کے حملوں نے نہ صرف فرانس بلکہ دیگریورپی ممالک اور امریکا میں مسلمانوں کی زندگی کو اذیت ناک بنا دیا ہے اور انہیں ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ ان ممالک کے شہری نہیں بلکہ کوئی اجنبی ہیں اور اسی لیے ہر کوئی انہیں عجیب و غریب اور نفرت انگیز نظروں سے دیکھ رہا ہے۔
پیرس کی میٹروبس سروس پر سوار جامع مسجد کی جانب سفرکرنے والی خاتون سمعیہ محفودیہ کو بس پر چڑھتے ہی یوں محسوس ہوا کہ بس میں سوار ہر کوئی اسے عجیب نظروں سے گھور رہا ہو اور اسے ایسا لگا کہ سب اس سے بس سے اترنے کا کہہ رہے ہوں۔ سمعیہ کا کہنا ہے کہ اسے پہلی بار محسوس ہوا کہ وہ یہاں کی شہری نہیں بلکہ کوئی اجنبی ہے اور غلطی سے یہاں آگئی ہے۔
فرانس میں 42 سال سے اپنی زندگی کے شب و روز گزارنے والے مراکشی احمد الموعزی کا کہنا ہے کہ اب یہاں لوگ اس سمیت تمام مسلمانوں کو عجیب و غریب نظروں سے دیکھتے ہیں اور اوریوں لگتا ہے کہ جیسے وہ ان حملوں ذمہ دار انہیں سمجھ رہے ہوں۔
پیرس میں یہاں رہنے والے مسلمان ایک انتہائی مشکل اور تکلیف دہ لمحات سے گزر رہے ہیں حالانکہ پیرس میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے میں مرنے اور زخمی ہونے والوں میں مسلمان بھی شامل تھے جب کہ مسلمان ان مرنے والوں سے اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے خون کی ہولی کھیلے جانے والے مقامات بٹاکلان کنسرٹ ہال اور کیفے پربنے ہوئے پھولوں کے عارضی مزار جاتے ہیں اور پھول رکھ کر اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔
نماز جمعہ کی ادائیگی کے وقت پیرس کی جامع مسجد کو پولیس نے چاروں طرف سے گھیر لیا اور شدید بارش اور سردی میں ہر نمازی کی سخت چیکنگ کی جاتی رہی جب کہ جدید اسلحہ سے لیس پولیس پیٹرولنگ کرتی رہی۔ مسلمان رہائشی نوجوان خاتون ثریا مومن کا کہنا ہے پیرس کی گلیوں میں نکلنا خوف کی علامت بن گیا ہے اور ہر کوئی تمام مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھنے لگا ہے۔ پیرس کے ایک اسلامی گروپ کا کہنا ہے کہ کئی علاقوں میں مسلمانوں کی میٹنگ اور دکانوں پر حملے بھی کیے گئے ہیں جب کہ شمالی فرانس کے علاقے ایوریوکس میں کئی عمارتوں پر ڈیتھ ٹو مسلم جیسے نفرت انگیز جملے صورت حال کی سنگینی کا اظہار کررہے ہیں۔
مسلمانوں سے یہ نفرت کی لہر امریکا میں اور بھی شدت سے محسوس کی جارہی ہے یہاں امریکی صدارتی امیدوار اپنی تقریروں اور مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف تقاریر اور ان کے لیے سخت قوانین بنانے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ صدر کے سب سے مضبوط امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کو سوچنے پر مجبور ہیں کہ مسلمانوں کو ڈیٹا بیسز پر رجسٹر کیا جائے اور ان کی کچھ مساجد بند کردی جائیں، ری پبلکن امیدوار بن کارسن نے تو شام کے مہاجرین کو پاگل کتے سے تشبیہ دے کر اپنے عزائم سے آگاہ کردیا ہے جب کہ تیسرے ڈیموکریٹک امیدوار ڈیوڈ باورز نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ شام کے مہاجرین کو جاپانیوں کی طرح جنگی قیدی بنا کر رکھا جائے۔
کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشن کے ڈائریکٹر ابراہیم ہوپر کا کہنا ہے کہ پیرس حملوں کے بعد وہ لوگ یہاں ہسٹریا اور خوف کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں، ایسا نفرت انگیز ماحول جو نائن الیون کے بعد بھی نظرنہیں آیا تھا، پیرس حملوں کے فوری بعد ورجینیا میں ایک مسجد کو نذرآتش کردیا گیا تھا جب کہ اس کی دیواروں پر نفرت انگیز عبارت بھی درج کی گئی۔
امریکن عرب اینٹی ڈسکریمینیشن کمیٹی کے ڈائریکٹر عبید ایوب کا کہنا ہے کہ امریکا کا ماحول صرف عرب اور مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام سیاہ فاموں کے لیے بھی خطرناک ہوگیا ہے، مسلمان مخالف صورت حال اور بھی خراب ہوتی جارہی ہے اور مزید خطرناک صورت حال یہ ہے کہ اس سے قبل کبھی بھی سیاست دانوں نے اس طرح کھل کر مسلمان مخالف بیانات نہیں دیئے۔ یورپ اور امریکا میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اسلامی حکومتوں کو اقدامات کی ضرورت ہے بصورت دیگر مسلمانوں کے خلاف نفرت ان کی زندگی کو مزید مشکلات میں ڈال سکتی ہے۔

ایکسپریس نیوز


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں