پیرس حادثے سے عالم اسلام کو بھی تشویش لاحق ہوئی ہے

پیرس حادثے سے عالم اسلام کو بھی تشویش لاحق ہوئی ہے

ممتاز سنی عالم دین مولانا عبدالحمید نے پیرس میں رونما ہونے والے واقعات کو ’ہلادینے والا‘ قرار دیتے ہوئے کہااس حادثے سے پوری دنیا بشمول عالم اسلام میں تشویش کی لہر دوڑگئی ہے۔

’سنی آن لائن‘ کی رپورٹ کے مطابق ، شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے بیس نومبر دوہزار پندرہ کے خطبہ جمعے کا آغاز قرآنی آیت: «وَاتَّقُواْ فِتْنَةً لاَّ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَآصَّةً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ» [انفال:25]؛ (اور بچو اُس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے) کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے انسان کو فتنوں کے حوالے سے خبردار کیاہے؛ یہ فتنے ظالموں اور جابروں کے علاوہ مظلوموں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں جن کا فتنے میں کوئی کردار نہیں ہے۔
انہوں نے مزیدکہا: عصرحاضر میں اختلاف و تفرق کی آگ بھڑک اٹھی ہے اور عالمی صہیونی تحریک اور مغربی طاقتیں عالم اسلام کے خلاف اپنی سازشوں میں کامیاب ہوچکی ہیں۔

فرانس کے دارالحکومت میں پیش آنے والے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: پیرس میں رونما ہونے والے واقعات نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ مسلمانوں نے پیرس حادثے کے متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ اس پر کوئی رضامند نہ تھا۔ لیکن ایسے حملوں کے بعد دیگر ملکوں کو بدامنی اور تباہی کی وادی میں نہیں گرانا چاہیے۔

انہوں نے مزیدکہا: میری پیش گوئی رہی ہے اور اندازہ بھی یہی ہے کہ مشرق وسطی میں جو عسکری اور فضائی حملے ہورہے ہیں اور اندھادھند بمباری جاری ہے، اس سے بہت سارے ملکوں کا امن خطرے میں پڑجائے گا۔ بدامنی کی لہر دیگر ملکوںکو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

مسلم ممالک کے اتحاد پر زور دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: مغرب مسلم ممالک کو ایک دوسرے سے دست وگریبان دیکھنا چاہتاہے اور انہیں لڑا کر وہ اپنے مفادات حاصل کرتاہے۔ جب تک مسلم ممالک ایک ساتھ ہوکر اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ نہ کریں، مسائل حل نہیں ہوں گے اور مشرق وسطی میں لگی آگ نہیں بجھے گی۔ مسلم حکام کی آرا مختلف ہیں لیکن موجودہ حالات میں انہیں ایک منطقی موقف اختیار کرنا چاہیے، مشرق وسطی کے مسائل کا حل اسی میں ہے۔

صدر دارالعلوم زاہدان نے اقوام متحدہ کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے بس میں ہے مسلم گروہوں اور حکام کو ایک دوسرے سے قریب کریں لیکن وہ ہرگز ایسا نہیں کرتے۔ سیاسی طریقوں سے مشرق وسطی کے مسائل کا حل ممکن ہے لیکن یہ طاقتیں نہیں چاہتی ہیں۔ اسرائیل کے نام سے وجود میں آنے والی صہیونی ریاست کئی عشروں سے فلسطین پر قابض ہے اور لوگوں کا خون بہاتی رہتی ہے، لیکن اس کے مغربی سرپرست اسے نہیں روکتے۔ یہ سب کچھ ان کی نگرانی اور علم میں ہوتا چلا آرہاہے۔

انہوں نے کہا: اگر ایران، سعودی عرب، ترکی، پاکستان اور دیگر مسلم ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ جائیں تو مشرق وسطی کے مسائل بآسانی حل ہوجائیں گے۔ لیکن چونکہ یہ عالمی طاقتوں کے مفادات کے خلاف ہے تو وہ ایسا نہیں ہونے دیتے۔

مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا: دنیا میں موجود ہ حالات بہت نازک اور خطرناک ہیں۔ اندھا دھند بمباریوں میں عسکریت پسندوں کے علاوہ مظلوم اور نہتے لوگ بھی نقصان سے دوچار ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے ان حملوں میںجہاں ہزاروں خواتین، بچے اور بوڑھے قتل عام ہوتے ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہوکر ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں، کون ذمہ دار ہے؟ کس کو جوابدہ ہونا چاہیے؟

انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا ہم تمام لوگ انسانیت میں شریک ہیں اور ہماری خیرخواہی پوری انسانیت کے لیے ہے۔ مکالمہ و مذاکرہ اور قومی حکومتوں کی تشکیل سے خطے کے مسائل حل ہوں گے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں