منکرین حدیث کے شبہات کے جواب میں مولانا صفدر رحمہ اللہ کا اسلوب استدلال

منکرین حدیث کے شبہات کے جواب میں مولانا صفدر رحمہ اللہ کا اسلوب استدلال

مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ (۱۹۱۴ء۔۲۰۰۹ء بلاشبہ اس دور میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے تھے۔ (۱) زہد و تقویٰ، رسوخ فی العلم، اصابتِ فکر اور طرز استدلال میں ان کی مثال ملنا مشکل تھی۔ بالخصوص علم حدیث کے فنی پہلوؤں جیسے اسماء الرجال، جرح و تعدیل، اصولِ حدیث حجیت حدیث پر جس طرح ان کی گہری نظر اور فقیہانہ بصیرت تھی، اس سے قرونِ اولیٰ کے محدثین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ تدریس حدیث میں جو ملکہ اور استحضار اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا تھا، وہ بہت ہی کم توجہ دیتے ہیں، لیکن مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے بھر پور تدریسی فرائض اور دیگر علمی و خانگی مشاغل کے ساتھ جس طرح تصنیف و تالیف کی طرف توجہ دی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ کی چھوٹی بڑی تصانیف کی تعداد پچاس کے قریب ہے۔ نیز تصنیف میں انہوں نے جو انداز و اسلوب اپنایا ہے، وہ تحقیقی اور عقلی بھی ہے اور ادبی چاشنی کا حامل بھی۔ (۲)
اگر اس پس منظر پر نظر ڈالی جائے جس میں مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے تحصیل علم کی اور جن اساتذہ کرام سے فیض پایا اور بالخصوص جس زمانہ اور علاقہ میں آپ نے عمر بسر کی، اس کو دیکھا جائے تو آپ کی خدمات دو چند نظر آتی ہیں۔ اس لحاظ سے خدمات کے کئی پہلو ہیں جن میں سے ایک پہلو بطور متکلم کا بھی ہے۔ ایک متکلم کا کام یہ ہے کہ اسلام کے جن پہلوؤں پر مخالفین، منکرین اور متشککین کی طرف سے اعتراضات اٹھتے ہیں، وہ ان کا جواب دیتا ہے، جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کیا۔ انہوں نے فلاسفہ، ملاحدہ، مناطقہ، خوارج، معتزلہ، یہود و نصاریٰ کے علاوہ اہل تشیع کی طرف سے اسلام کے مسلمہ عقائد و تعلیمات پر اعتراضات کے جواب میں اسلام کا دفاع کیا۔ (۳)
مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے جن حالات میں آنکھ کھولی، ان میں من جملہ دیگر خرافات و بدعات کے حدیث کے مقام و حجیت کے بارے میں شکوک و شبہات زبان زدِ عام تھے۔ ایک منظم گروہ تعلیم یافتہ افراد اور سادہ لوح مسلمانوں کو خوش کن الفاظ کے ساتھ گمراہ کر رہا تھا اور دلیل یہ دے رہا تھا کہ در اصل قرآن ہی ہدایت کا سرچشمہ ہے اور مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرونے کا واحد ذریعہ ہے۔ حدیث میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا سلسلہ نیا نہیں ہے بلکہ اولین طور پر معتزلہ اور خوارج نے ان بحثوں کو چھیڑا، تا ہم صدرِ اول میں محدثین کرام نے اپنی مساعی جمیلہ سے ان سازشوں کا بھرپور مقابلہ کیا اور امت مسلمہ میں حدیث کی مسلمہ حیثیت ہر دور میں موجود رہی۔ بر صغیر پاک و ہند میں جن لوگوں نے حدیث کی اجماعی حیثیت سے انکار کیا اور ان میں مشکوک و شبہات پیدا کیے، ان میں علامہ تمنا عمادی، مولانا محمداسلم جیراج پوری، عبداللہ چکڑالوی، ڈاکٹر احمدالدین امرتسری، غلام احمد پرویز اور غلام جیلانی برق شامل ہیں۔ آخر الذکر نے ’’دو اسلام‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی جس کا جواب مولانا سرفراز احمد صفدر رحمہ اللہ نے ’’صرف ایک اسلام‘‘ کے نام سے لکھا۔ تا ہم اللہ تعالیٰ نے آخری عمر میں ہدایت دی اور منکرین حدیث کے اس گروہ سے نکل گئے اور اپنے سابقہ افکار و خیالات سے کھلے عام برأت کا اعلان کردیا۔
بیسویں صدی کے نصف میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مذکورہ افراد کی بحثیں زبان زدِ عام تھیں۔ وہ اپنی تحریروں میں اپنے افکار و خیالات کا اظہار کررہے تھے۔ اہل علم بالخصوص علما آستین کا سانپ بنے اس گروہ سے غافل نہ تھے۔ انہوں نے اپنے اپنے انداز سے ان کے استدلال کا پوری طرح جواب دیا۔ ان میں مولانا مناظر احسن گیلانی (تاریخ تدوین حدیث)، سید منت اللہ رحمانی (کتابتِ حدیث)، سید ابوالاعلیٰ مودودی (سنت کی آئینی حیثیت)، ڈاکٹر خالد علوی رحمہ اللہ (حفاظت حدیث)، پیر محمدکرم شاہ الازہری رحمہ اللہ (سنت خیر الانام) قابل ذکر ہیں۔ مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے اس باب میں ’’انکار حدیث کے نتائج‘‘، ’’شوق حدیث‘‘، ’’مقامِ ابی حنیفہ‘‘ تالیف فرمائیں۔ ان کتب میں اپنے انداز اور اسلوب میں حدیث میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کا تعاقب کیا گیا ہے۔
ذیل کی سطور میں ہم مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے اس استدلال کا جائزہ پیش کرتے ہیں جو آپ نے منکرین حدیث کے اعتراضات کے ضمن میں اختیار کیا ہے، اور شکوک و شبہات کے ازالہ میں اپنی کتب میں تحریر فرمایا۔ یہاں آپ کے استدلال کو ہم اختصاراً ہی نقل کریں گے۔

اعتراض نمبر ۱: چونکہ احادیث یقینی نہیں ظنی ہیں اس لیے یہ دین نہیں قرار پا سکتیں ان کی حیثیت تاریخ کی ہے اور تاریخ تنقید کی حد سے بالا نہیں ہوتی۔ (۴)
الجواب: بلاکسی تفصیل کے مطلقاً تمام ذخیرہ احادیث کو ظنی قرار دینا خالص ابلیسانہ نظریہ ہے۔ اصولی طور پر حدیث کی دو قسمیں ہیں: ایک خبر متواتر اور دوسری خبر واحد۔ خبر واحد اگر چہ ظن کا فائدہ دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عقائد میں اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ عقیدہ کی بنیاد قطعی ادلہ پر ہے جو قرآن کریم اور خبر متواتر اور اجماع ہیں۔ چنانچہ علامہ مسعود تفتانزانی رحمہ اللہ (م ۷۹۲ھ) لکھتے ہیں کہ خبر واحد ان تمام شرائط پر مشتمل ہونے کے باوجود بھی جو اصول فقہ میں بیان کی گئی ہیں، ظن کا فائدہ دیتی ہے اور اعتقادات کے باب میں ظن کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ (شرح عقائد، ص ۱۰۱) لیکن خبر متواتر کے متعلق یہ کہنا کہ وہ ظنی ہے، قطعی باطل اور سراسر جھوٹ ہے۔ حافظ ابن حجر و غیرہ تصریح فرماتے ہیں کہ خبر متواتر علم یقینی کا فائدہ دیتی ہے۔ (شرح نخبۃ الفکر، ص۱۰) اور خبر متواتر کا منکر کافر ہوتا ہے۔ (توجیہ النظر، ص۶) یہ یاد رہے کہ تواتر کی چار قسمیں ہیں۔ تواتر الاسناد، تواتر الطبقہ، تواتر العمل و تواتر توارث اور تواتر القدر المشترک (مقدمہ فتح الملہم ص۶) الغرض مطلقاً حدیث کو ظنی کہہ کر اس سے گلو خلاصی چاہنا دجل اور تبلیس کے سوا کچھ نہیں ہے۔
مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے اس باب میں عقلی استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہر آدمی اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ دنیا میں بیشتر کام ظن کے ماتحت کیے جاتے ہیں، مگر کوئی ظنی کہ کہہ ان کو ترک نہیں کرتا۔ مثلاً شادی کرتے ہیں تو اس کا قطعی طور پر کیا ثبوت ہوتا ہے کہ زوجین تا دم حیات زندہ رہیں گے یا ان میں اختلاف کی وجہ سے طلاق کی نوبت نہیں آئے گئی؟ یا مقدمہ میں وکیل کرتے ہیں تو اس کا یقینی طور کیا ثبوت ہوتا ہے کہ وکیل مقدمہ جیت جائے گا؟ یا کسی بیمار کا ڈاکٹر اور حکیم سے علاج کراتے ہیں تو اس کا کیا وثوق ہوتا ہے کہ بیمار تندرست ہوجائے گا اور موت کے چنگل سے بچ جائے گا؟ غرض یہ کہ اصولِ دین اور عقائد کے علاوہ ظنی احکام میں خبر واحد اور ظنی دلیل ہی کافی ہوتی ہے اور اسی پر آج تک امت کا عمل چلا آرہا ہے۔ باقی دینی و دنیوی امور کے فرق کی آڑ لے کر یہ کہنا کہ دنیوی امور میں ظن قابل عمل ہے اور دینی امور میں نہیں تو یہ ایک خالص طفلانہ خیال ہے۔ (۵)

اعتراض نمبر ۲: احادیث کی جس قدر کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں، بخاری اور مسلم سمیت ان میں ایک بھی حدیث ایسی نہیں ہے جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہو کہ اس کے الفاظ وہی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے تھے۔ کوئی حدیث ایسی نہیں ہے جس کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہوں، تمام احادیث روایات بالمعنی ہیں۔ (۶)
الجواب: یہ دعویٰ کرنا کہ تمام احادیث روایت بالمعنی ہیں، خالص افترا اور سفید جھوٹ ہے۔ بلاشبہ بعض احادیث روایت بالمعنی کے طور پر ہیں جہاں کوئی راوی ’’أو کما قال‘‘ یا صرف حرف ’’أو‘‘ سے، ’مثلہ‘ یا ’نحوہ‘ یا ’بالمعنی‘ یا ’والمعنی واحد‘ و غیرہ کے الفاظ استعمال کرتا ہو۔ باقی ان کے علاوہ تمام احادیث کے الفاظ بھی وہی ہیں جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے ہیں۔ خبر متواتر میں قطعیت کے ساتھ اور خبر واحد میں ظنیت کے ساتھ یہ کہنا بجا ہے کہ یہ آپ ہی کے الفاظ ہیں اور بلاکسی قوی عقلی اور نقلی دلیل کے ہر حدیث کے مروی بالمعنی ہونے کا دعویٰ مطلقاً مردود ہے۔ (۷)

اعتراض نمبر ۳: ان مجموعوں [صحاح ستہ] میں ایسی باتیں موجود ہیں جو قرآن کے خلاف ہیں جن سے اللہ تعالی کی ذات پر اور انبیائے کرام کی شان میں طعن پایا جاتا ہے جن سے بصیرت ابا اور عقل بغاوت کرتی ہے۔ (۸)
الجواب: کوئی صحیح حدیث قرآن و حدیث کے خلاف نہیں ہے اگر کسی کو کوئی صحیح حدیث قرآن کریم کی کسی آیت سے متصادم نظر آتی ہے تو یہ اس کی اپنی فہم کا قصور ہے اس کو اعتراض سے پہلے اپنے دماغ کا کسی ماہر امراض دماغ ڈاکٹر سے علاج کرالینا چاہیے۔ ہاں موضوع اور باطل قسم کی روایتوں سے ضرر تصادم ہے مگر اس کا کیا کیجیے کہ ایسی حدیثوں کو حضرات محدثین کرام نے چھان بین کے بعد ڈھیر پر پھینک دیا اور یہ ان کو اٹھا کرلے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے عقائد و اعمال کی ان پر بنیاد رکھی ہے لیکن اس سے صحیح احادیث اور حضرات محدثین کرام رحمہم اللہ پر کیا زد پڑتی ہے؟ (۹)

اعتراض نمبر ۴: مشہور منکر حدیث تمنا عمادی نے حدیث کے مدون اوّل ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ کے بارے میں ایک طویل مضمون لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام موصوف عربی نہ تھے بلکہ عجمی تھے اور عجمیوں کا کام اسلام مٹاناتھا۔ لکھتے ہیں:
’’اور منافقین عجم نے اپنے مقاصد کے ماتحت جمع احادیث کا کام شروع کرنا چاہا تو انہیں منافقین عجم کے آمادہ کرنے سے اس وقت خوب ابن شہاب رحمہ اللہ کو خیال ہوا کہ ہم حدیثیں جمع کرنا شروع کردیں تو یہ مدینہ بھی پہنچے اور کوفہ بھی اور مختلف مقامات سے حدیثیں حاصل کیں تو پھر بیسویں راویوں کے ساتھ رہے۔ انہیں منافقین عجم کی ایک جماعت نے اپنا رسوخ فی الدین اور ظاہری زہد و تقویٰ دکھا کر ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کو جمع احادیث پر آمادہ کیا۔‘‘ (۱۰)
الجواب: چونکہ حضرت امام زہری رحمہ اللہ حدیث کے پہلے مدون ہیں اس لیے منکر حدیث تمنا عمادی صاحب نے ایڑی چوٹی کا زور اس پر صرف کیا ہے کہ امام زہری عربی النسل ثابت نہ ہوں اور عرب کے باشندہ قرار نہ پائیں اور ان کو عجمی عجمی کہہ کر ان کی کڑی منافقین عجم کے ساتھ جوڑ دی جائے تا کہ حدیث کا سرے سے اعتبار نہ رہے کہ نہ رہے بانس نہ رہے بانسری۔ (۱۱) جیسا کہ منکرین حدیث کا سرغنہ نیاز فتح پوری یہ لکھتا ہے کہ مسجد و کلیسا اور ناقوس و اذان میں کوئی فرق نہیں۔ (معاذاللہ)
مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے رجال کے مستند کتابوں سے ان کا نسب نامہ بیان کیا ہے، لیکن تمنا عمادی کی ستم ظریفی دیکھیے کہ وہ ان تمام حضرات کو منافقین عجم سے تعبیر کرتے ہیں اور امام زہری کے اساتذہ کو وضّاعین اور کذّابین کہتے ہیں اور ان کی اس اہم دینی خدمات کو اور ان کی بلا مدافعت مسلمہ ثقاہت و عدالت کو اپنے خبثِ باطن کی وجہ سے خاک میں ملا رہے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ان کی تحصیل علم کی کاوش ۱۰۱ھ سے بعد کی ہے۔ عمادی صاحب حضرت امام زہری رحمہ اللہ، ان کے اساتذہ اور تلامذہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ و غیرہم جیسی پاکیزہ شخصیتوں کے بارے میں بار بار منافقین عجم کا جملہ بول کر اپنے ماؤف دل کی بھڑ اس نکالتے ہیں جو ان کے خبث باطن پروال ہے۔ غرضیکہ عمادی و غیرہ کی ان دجالانہ و دسیسہ کاریوں سے نہ حضرت امام زہری رحمہ اللہ کی مسلمہ شخصیت پر کوئی زد پڑتی ہے اور نہ صحت احادیث پر۔ (ملخص) (۱۲)

اعتراض نمبر ۵: ڈاکٹر احمدالدین لکھتے ہیں:
’’صحاح ستہ قطعی طور پر قرآن مجید کے خلاف ہیں۔ نیز صحاح ستہ کی باطل روایات نہ حدیث رسول ہیں نہ حکمت، نہ تواتر نہ وحی خفیہ، نہ تفسیر نہ سوانح حیات، نہ بیان نہ اسوہ حسنہ، یہ سب بناوٹی کہانی ہے۔ ان روایات کے مصنفین کی مثال یہ ہے کہ جس طرح سامری نے ’من اثر الرسول‘ کہہ کر بنی اسرائیل کی قوم سے بچھڑے کی پرستش کروائی تھی، اس طرح ان مذکورہ مصنفین نے ’قال قال رسول اللہ‘ کہہ کر مصنوعی حدیث کی پرستش کروائی ہے۔‘‘ (۱۳)
الجواب: صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متصل اور مرفوع حدیثیں حضرات محدثین کرام رحمہم اللہ کے اتفاق و اجماع سے صحیح ہیں:
’اما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی ان جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع (حجۃ اللہ البالغہ، ص۱۳۴)
صحاح ستہ کی باقی چار کتابوں (نسائی، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ) میں بعض روایات ضعیف بھی ہیں بلکہ بعض موضوع بھی جن کی حضرات محدثین کرام نے نشاندہی کردی ہے، لیکن صحاح ستہ کی صحیح احادیث میں سے کوئی حدیث قرآن کریم کی کسی بھی آیت کریمہ کے ہرگز خلاف نہیں۔ اگر کسی کوتاہ فہم کو کسی حدیث کا قرآن کریم کی کسی آیت کریمہ سے تضاد نظر آتا ہے تو وہ اس کا اپنا سوء فہم کا نتیجہ ہے۔ ایسا سطحی قسم کی تعارض تو قرآن کریم کی بعض آیات کریمات کا آپس میں معلوم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر احمدالدین صاحب کا یہ دعویٰ کہ کتب صحاح ستہ قطعی طور پر قرآن مجید کے خلاف ہیں، خالص ہرزہ سرائی اور قطعاً جھوٹ اور صریح بہتان ہے اور اسی طرح ان کا صحاح ستہ کی تمام روایات کے بارے میں یہ دعویٰ کہ وہ حدیث رسول نہیں اور باطل روایات ہیں، خالص زندیقانہ اور کافرانہ نظریہ ہے۔ صحیحین کی تمام اور بقیہ کتب اربعہ کی بجز چند روایات کے باقی سب روایات حدیثِ رسول بھی ہیں اور حکمت و موعظت بھی، وحی بھی ہیں اور قرآن کریم کی تفسیر بھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ بھی ہیں اور آپ کی سوانح حیات بھی۔ یہ بناوٹی کہانی نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کا بہترین اور قابل اعتماد سرمایہ اور ذخیرہ ہے اور اس کا انکار بغیر کسی پاگل یا ملحد کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔ (ملخص) (۱۴)

اعتراض نمبر۶: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث لکھنے سے منع فرمایا ہے اور لکھی ہوئی احادیث کو مٹادینے کا کلمہ ارشاد فرمایا جیسا کہ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:
’’و لا تکتبوا عنی و من کتب عنی غیر القرآن فلیمحہ و حدثوا عنی و لا حرج و من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار (مسلم، ابوداؤد)
الجواب: اگر کتابت حدیث کی نہی سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ حدیث حجت نہیں تو یہ استدلال قطعاً باطل ہے کیونکہ خود اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سنہرے موتیوں کی طرح چمکتے ہوئے یہ الفاظ بھی موجود ہیں: ’’حدثوا عنی و لاحرج‘‘، میری حدیثیں بیان کرو اور اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں ہے بالکل واضح امر ہے کہ اگر حدیث حجت نہ ہوتی تو آپ حدیث بیان کرنے کا ہرگز حکم نہ دیتے معلوم ہوا کہ آپ کی حدیث بیان کرنا امرِ مطلوب ہے جواب کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ اگر حدیث حجیت نہ ہوتی تو آپ حدیث بیان کرنے کا حکم نہ دیتے۔
اب غور طلب امر یہ ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حدیث دین اور حجت نہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تارکِ سنت کو اپنی امت کی فہرست سے کیوں خارج کردیا ہے؟ اور آپ نے تارک سنت کو ملعون کیوں قرار دیا ہے اور سنت پر عمل کرنے کی اور اس کو مضبوطی سے پکڑنے کی تاکید کیوں فرمائی ہے؟ اور خلافِ سنت کاموں سے پرہیز کرنے کا حکم کیوں دیا ہے؟ کیا (معاذ اللہ) اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کو اور پوری امت کو ایک غیر دینی یا نری تاریخی بات پر قائم رہنے کی پرزور الفاظ میں تاکید فرماتے رہے؟ ہر عقل مند آدمی اسی سے حدیث اور سنت کی اہمیت اور اس کی دینی حیثیت اور اس کی حجت کو بخوبی آسانی سے سمجھ سکتا ہے باقی جس نے میں نہ مانوں کی شرط لگانی ہے تو اس کے لیے اس جہاں میں سرے سے کوئی علاج ہی نہیں ہے حدیث کو وہی تسلیم کرے گا جس میں اللہ تعالی کی محبت ہوگی اور اس محبت کے نتیجے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوگی اس لیے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول برحق کی محبت لازم و ملزوم ہیں۔ جب حدیث کی محبت نہیں تو یقین جانیے کہ خدا تعالیٰ کی محبت بھی نہیں۔ (۱۵)

اعتراض نمبر۷: حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی ’منکرین حدیث‘ میں شامل تھے۔ مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’منکرین حدیث نے مطلب بر آری کے لیے محض اپنے بائیں ہاتھ کے کرتب اور شعبدہ بازی سے جن حضرات کو منکرینِ حدیث کی مد میں لا کھڑا کیا ہے ان میں ایک حضرت امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ کی ذات گرامی ہے۔ چنانچہ مقام حدیث میں غلام احمد پرویز کی یہ عبارت ملتی ہے: ’’تین بڑے بڑے ’منکرینِ حدیث۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ، شاہ ولی اللہ دھلوی رحمہ اللہ اور علامہ اقبال رحمہ اللہ‘‘۔ علاوہ ازیں طلوع اسلام میں ایک ذمہ دار شخص کا مضمون شائع ہوا جس میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو بیس سے کم حدیثوں کا عالم گردانا گیا۔‘‘
الجواب: جن حضرات نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی حدیث دانی پر اعتراض کیا ہے یا حدیث میں ان کے مقام و مرتبہ کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، مولانا صفدر رحمہ اللہ نے ان کے رد میں ایک مفصل کتاب ’’مقام ابی حنیفہ‘‘ کے نام سے تالیف فرمائی۔ اس کے سبب تالیف میں لکھتے ہیں: ’’اشد ضرورت تھی کہ تاریخی طور پر امام صاحب کا علمِ حدیث میں مقام اور مرتبہ عرض کیا جائے اور منکرین کے دجل و فریب کو آشکار کیا جائے تا کہ کسی کو مغالطہ نہ رہے اور صحیح بات ذہن نشین ہوسکے۔‘‘ (۱۶)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب الآثار کے بارے میں مختلف ائمہ کی آرا نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں:
’’حدیث کی بات ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ستر ہزار سے زیادہ حدیثیں اپنی تصانیف میں بیان فرماتے ہیں اور چالیس ہزار حدیثوں سے کتاب الآثار کا انتخاب کرتے ہیں مگر بایں ہمہ متعصب لوگ یہ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فن حدیث میں یتیم تھے ان کو حدیث سے کوئی مس نہ تھا۔ ان سے صرف ستر حدیثیں مروی ہیں، یہ کس قدر ظلم عظیم اور ناانصافی کی بات ہے۔‘‘ (۱۷)
حجیت حدیث اور مقام سنت کو واضح کرنے کے لیے مولانا نے تین اہم نکات بیان کیے ہیں:
۱۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حدیث سے صرف نظر کرتے ہوئے قرآن حکیم کے احکام پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک اثر نقل کیا ہے:
’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ایسے ہی کسی سر پھرے نے سوال کیا کہ یہ مسئلہ صرف قرآن حکیم سے بتایئے۔ اس پر برہم ہوکر انہوں نے ارشاد فرمایا اگر تیرا اور تیرے ساتھیوں کا احتجاج صرف قرآن کریم ہی میں منحصر ہے تو بتاؤ کہ قرآن کریم میں تم پاتے ہوکہ بیت اللہ اور صفا و مروہ کا طواف سات سات دفعہ ہے اور کیا عرفات میں ٹھہرنے اور رمی جمار کی تفصیل اس میں ہے؟ پھر فرمایا کہ قرآن کریم میں چور کے ہاتھ کاٹنے کے حکم کا اسلامی حکمران کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے، بتاؤ کہ ہاتھ کلائی سے کاٹا جائے یا کہنی سے یا کندھے کے قریب سے؟‘‘ (الکفایہ للخطیب)

۲۔ اس دنیا کا سلسلہ ہی یوں جاری ہے کہ یہاں تقابل ہی کے ذریعے کسی چیز کی حقیقت اور اصلیت تک رسائی ہوتی ہے اگر رات نہ ہو تو دن کی کیا قدر ہوسکتی ہے اگر سیاہی نہ ہوتی تو سفیدی کی کیا قیمت پڑسکتی ہے اگر باطل نہ ہو تو حق کی شناخت کیسے ممکن ہے۔ اگر شرک نہ ہو تو توحید کیسے عیاں ہوسکتی ہے۔ اگر بدعت نہ ہو تو سنت کی روشنی کیسے چمک سکتی ہے۔ غرض یہ کہ تقابل ہی سے حقیقت واضح ہوتی ہے۔ اگر منکرین حدیث اس جہاں میں نہ آتے تو ہماری طرح بے شمار مسلمانوں کے ایمان میں پختگی اور یقین کامل اور تازگی پیدا نہ ہوتی۔ یہ لوگ آئے تو ہمارا ایمان مضبوط ہوگیا۔ حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریب ہے کہ ایک شخص تم میں سے اپنے پلنگ پر بیٹھا ہوگا اس کو میری حدیث سنائی جائے گی تو وہ کہہ گا کہ میرے سامنے صرف کتاب اللہ پیش کرو اس میں جو ہمیں حلال ملے گا اس کو حلال سمجھے گئے اور اس میں جو حرام سمجھیں گے آپ نے فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی اشیاء کا حرام ہونا بیان کیا ہے سو وہ بھی ویسا ہی حرام ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے۔ (ترمذی)
ایک اور روایت میں آپ نے ارشاد فرمایا خبردار بے شک مجھے کتاب اللہ دی گئی اور اس کی مثل بھی اس کے ساتھ دی گئی جیسا کہ ارشاد الہیٰ ہے: وَ مَا اَنْزَلَ عَلَیکُم مِن الکتب و الحکمۃ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جیسے کتاب منزل من اللہ ہے اسی طرح حکمت بھی منزل من اللہ ہے اور حکمت سے مراد سنت ہے (تفسیر ابن کثیر، ص ج ۱۸۴۶)

۳۔ حضرت جابر بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتیں جب تم سے اجازت طلب کرکے مسجد جائیں اور (عوظ و نصیحت) کے طور پر اپنا حصہ لینا چاہتی ہوں تو تم ان کو نہ روکو۔ اس پر ابن عمر رضی اللہ عنھما کے فرزند حضرت بلال نے کہا کہ بخدا اہم تو ضرور ان کو روکیں گے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ میں نے تجھ سے حدیث بیان کی ہے اور تو کہتا ہے کہ ہم انہیں روکیں گے! حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اتنا برا کہا کہ اتنا برا کبھی نہیں کہا تھا۔ (ملخص مسلم ج۱، ص۱۸۳)

۔۔۔۔۔۔آج منکرین حدیث ایک دو تین ہی نہیں بلکہ حدیث کے مجموعہ ذخیرہ سے صراحتاً انکار بلکہ استہزا کرتے ہیں اور نہ تو خود ان کو اس پر کوئی ندامت کو ہوتی ہے اور نہ ان کے دوست و احباب ہی ان سے قطع تعلق کرتے ہیں۔ (۱۸)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حوالہ جات
۱۔ مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے حالات کے لیے دیکھیے:
نوید الحسن: مولانا سرفراز خان صفدررحمہ اللہ کی علمی و دینی خدمات، غیر مطبوعہ مقالہ برائے ایم فل (علوم اسلامیہ) شیخ زاید اسلامک سنٹر، پنجاب یونیورسٹی لاہور، ۲۰۰۳ء
۲۔ ایضاً ص ۱۹۔۲۰
۳۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے حالات اور خدمات کے لیے دیکھیے: سید ابوالحسن علی ندوی، تاریخ دعوت و عزیمت، (حصہ دوم) مجلس نشریات اسلام، کراچی
۴۔ مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ، شوق حدیث (حصہ اول) انجمن اسلامیہ، گکھڑ ضلع گوجرانوالہ، ۱۹، ص۱۴۵
۵۔ ایضاً، ص ۱۵۰۔۱۵۱
۶۔ ایضاً ص۱۴۵۔ غلام احمد پرویز نے یہ اعتراضات اپنے مجلہ طلوع اسلام بابت ماہ اکتوبر ۱۹۴۹ء میں شخصیت پرستی، کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں کئے ہیں۔
۷۔ ایضاً ص۱۵۲
۸۔ ایضاً ۱۴۶
۹۔ ایضاً ص۱۵۳
۱۰۔ تمنا عمادی، محمد بن شہاب زہری کی تاریخ، طلوع اسلام، ستمبر ۱۹۹۰ء، ص۴۸
۱۱۔ شوق حدیث، ص۱۵۲
۱۲۔ ایضاً، ص ۱۵۳،۱۵۲
۱۳۔ ڈاکٹر احمدالدین، پیغام توحید، اکال گڑھ، گوجرانوالہ، ص۵
۱۴۔ شوق حدیث، ص۱۵۹، ۱۶۰
۱۵۔ ایضا، ص۱۶۲
۱۶۔ مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ، مقام ابی حنیفہ رحمہ اللہ، مکتبہ صفدریہ، گوجرانوالہ، سخن ہائے گفتنی، ص۳۴
۱۷۔ ایضاً ص۱۱۲
۱۸۔ شوقِ حدیث، ص۱۸۴

بقلم ڈاکٹر محمد عبداللہ
(ایسوسی ایٹ پروفیسر، شیخ زاید اسلامک سنٹر، پنجاب یونیورسٹی لاہور)
بشکریہ Sarfarazkhan.org


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں