اسلام اور دولت کی گردش

اسلام اور دولت کی گردش

فرمایا: اللہ نے تقسیم مال کا یہ حکم اس لیے دیا ہے ’کی لایکون دولة بین الأغنیاء منکم ‘ تا کہ یہ دولت تمہارے آسودہ حال لوگوں تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس کی گردش معاشرے کے انتہائی طبقے تک ہونی چاہیے۔ ’دولة‘ کے لفظ سے یہ اصول بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اسلامی نظام معیشت میں کسی خاص طبقہ میں ارتکاز دولت ہرگز پسندیدہ نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اسلام (concentration of weath) کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ وجہ ظاہر ہے کہ جب دولت کا دوران صرف ایک طبقہ تک محدود ہوجاتا ہے اور باقی طبقات محروم ہوجاتے ہیں تو پھر اس کے نتیجے میں امیر، امیرتر اور غریب، غریب تر ہوجاتے ہیں۔ جب کبھی ملک میں اس قسم کے حالات پیدا ہوجاتے ہیں تو پھر وہاں کمیونزم اور سوشلزم کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام بھی ملعون ہے، مگر سوشلزم اس سے بھی قبیح ہے۔ مطلق العنان ملوکیت بھی اسی قبیل سے ہے۔ کسی ملک کا بادشاہ یا ڈکٹیٹر اپنے آپ کو غیر مسؤل سمجھتا ہے اور ان کے ہاں آمد و خرچ کا حساب کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام میں شخصی ملکیت کی اجازت ہے، مگر یہ ملکیت عارضی اور بطور امانت ہوتی ہے۔ اللہ جس کو دولت دیتا ہے، اس کو آمد و خرچ کے قوانین کا بھی پابند بناتا ہے۔

ارتکازِ زر کی ممانعت
جس مالک الملک نے انسانوں کو ارتکازِ زر کی اجازت نہیں دی، اس نے اپنے براہ راست قبضہ قدرت کی چیزوں کو اس طرح تقسیم کردیا ہے کہ کوئی ادنیٰ و اعلیٰ ان سے محروم نہیں رہتا، مثلاً ہوا، فضا، سورج، چاند، ستارے، بارش، دریا، سمندر و غیرہ ایسی چیزیں ہیں جن کو اس نے مخلوق میں کسی کے قبضے میں نہیں دیا۔ تمام انسان، جانور، پرندے اور کیڑے مکوڑے ان چیزوں سے براہ راست مستفید ہوتے ہیں۔ سانس لینے کے لیے ہوا کی ہر جاندار کو ضرورت ہے۔ سورج، چاند اور ستاروں کی روشنی سب کی ضرورت ہے، پانی بھی تمام جانداروں کی بنیادی ضرورت ہے، لہٰذا اللہ نے یہ چیزیں ہر ایک کے لیے فری مہیا کی ہیں۔ اسی طرح دولت بھی چند ہاتھوں میں محدود ہوکر نہیں رہنی چاہیے۔ جب تک دولت کا دوران (circulation) صحیح طریقے سے ہوتا رہے گا تو دنیا میں توازن قائم رہے گا، ورنہ یا تو نظام سرمایہ داری آجائے گا یا پھر رد عمل کے طور پر سوشلزم آئے گا، حالانکہ یہ دونوں نظام ملعون ہیں۔

شخصی ملکیت کا احترام
ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام ہر شخص کو دولت کمانے اور خرچ کرنے کی کھلی چھٹی دیتا ہے جس سے ارتکازِ زر پیدا ہوتا ہے تو دوسری طرف سوشلزم شخصی ملکیت کا بالکل ہی انکار کردیتا ہے۔ اسلام کا نظام معیشت ان دونوں کے درمیان اعتدال کے ساتھ چلتا ہے۔ اسلام کسی شخص کی ذاتی ملکیت کا اسی طرح احترام کرتا ہے جس طرح کسی کی جان کا احترام کرتا ہے۔ اسلام اگر قاتل کا سر قلم کردیتا ہے تو مال چوری کرنے والے کا بھی ہاتھ کاٹ پھینکتا ہے۔ ’لا یحل مال امری مسلم الا بطیب نفسه‘ کسی مسلمان کا مال دوسرے کے لیے حلال نہیں جب تک مالک اپنی مرضی سے کسی کو نہ دے۔ غرضیکہ مال کی شخصی ملکیت بھی انسانی جان کی طرح محترم ہے۔ البتہ اسلام نے اکتسابِ زر پر ضرور پابندی عائد کی ہے تا کہ نہ کوئی مضر پیشہ اختیار کیا جائے اور نہ چوری، ڈکیتی، رشوت، قمار بازی، ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کے ذریعے مال حاصل کیا جائے۔ مخرب اخلاق کار و بار جیسے فوٹوگرافی، فلم سازی، موسیقی، سٹہ بازی کو بھی اجازت نہیں دی گئی۔ مطلب یہ کہ صرف حلال ذرائع سے ہی دولت کمانے کی اجازت ہے۔
اگر اسلام نے جائز ذرائع سے دولت کمانے کی اجازت دی ہے تو ساتھ ساتھ ایسے مال کے حقوق ادا کرنے کا بھی پابند بنایا ہے۔ اگر مال نصاب کو پہنچ گیا ہے تو اس کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ دو، صدقہ فطر ادا کرو، قربانی دو، حج اور عمرہ کے لیے خرچ کرو، غربا و مساکین کو صدقہ خیرات دو۔ اگر یہ حقوق ادا کیے جائیں تو ارتکازِ زر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مال خرچ کرنے سے دو فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ایک طرف مستحقین کی حاجت برآری ہوتی ہے اور دوسری طرف خرچ کرنے والے سے بخل کا مادہ دور ہوکر اس میں اخلاق حسنہ پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ نے تقسیم مال کی ایک اور صورت بھی لازمی قرار دی ہے اور وہ ہے وراثت کی تقسیم۔ مال دار آدمی کے مرنے کے بعد جائیداد میں سے پہلے قریبی رشتہ داروں کو حصہ ملتا ہے اور اگر وہ موجود نہ ہوں تو دور کے رشتہ دار حصہ بن جاتے ہیں۔ اسلام نے یہ تمام طریقے ارتکازِ دولت کو روکنے کے لیے رکھے ہیں۔ الغرض اسلام کا نظام معیشت ہی بہترین نظام ہے جو ارتکازِ کو روک کر مال کو زیادہ سے زیادہ پھیلنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

(معالم العرفان فی دروس القرآن، سورۃ الحشر ۵۹:۷)
مولانا صوفی عبدالحمید سواتی
بشکریہ ماہنامہ الشریعہ اگست 2007


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں