تبلیغی جماعت حقوق اللہ سے حقوق العباد تک

تبلیغی جماعت حقوق اللہ سے حقوق العباد تک

تبلیغی جماعت عالم اسلام کا کامیاب اور منفرد تجربہ ہے۔ تبلیغی جماعت کا آغاز ایک چھوٹے قصبہ میوات سے شروع ہوا۔
چند اللہ والے لوگ جماعت کے بانی مولانا الیاس کاندھلوی کے ساتھ جڑ گئے۔ ان کے ارادے نیک تھے اللہ کی نصرت اور تائید ان کو حاصل تھی آج تبلیغی جماعت دنیا کے چھ براعظموں میں پھیل چکی ہے۔ اللہ والے اپنے گھر بار چھوڑ کر خدا کی خوشنودی اور اسلام کی تبلیغ کیلئے نکلتے ہیں اور مہینوں اپنے گھروں سے دور رہتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے ارکان لوگوں کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں اور ان کو مسجد آنے کی دعوت دیتے ہیں۔
حضور اکرم ﷺ نے مسجد کو ریاست کا مرکز بنایا تھا جب مسجد مرکز نہ رہی تو مسلمان اپنے مرکز سے کٹ کر بھٹک کر رہ گئے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”اور تم میں ایسی جماعت ہونی چاہئے جو خیر کی طرف بلائے، نیک کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے روکے اور ریہی لوگ کامیابی پانے والے ہیں“۔ [8:5] تبلیغی جماعت واحد جماعت ہے جو قرآنی معیار پر پوری اُترتی ہے البتہ اسکے پیغام کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ تبلیغی جماعت حقوق اللہ پر زور دیتی ہے مگر حقوق العباد سے صرف نظر کرتی ہے۔ تبلیغی جماعت کا فلسفہ یہ ہے کہ مسلمان مسجد میں آئینگے با جماعت نماز ادا کرینگے اور متقی و صالح انسان بن جائیں گے جو قرآن کی منشاءہے جائزہ لیں یہ معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں کس حد تک کامیاب ہیں۔ تبلیغی جماعت کے کارکن میرے گھر پر دستک ، مسجد آنے کی دعوت دیتے ہیں ان کا پیغام تشنہ ہوتا ہے اور میں کہتا:۔

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

اللہ تعالیٰ نے مولانا طارق جمیل کو قوت گویائی عطا کی انہوں نے اپنے خطبات سے لوگوں کے دلوں پر دستک دینا شروع کی۔ حقوق اللہ کو حقوق العباد کے ساتھ جوڑا اور اس طرح تبلیغی جماعت کے ادھورے پیغام کو مکمل کیا۔ مولانا طارق جمیل نے اپنے ایک خطبے میں کہا ”میں ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ مذہبی اختلاف رکھیں مگر کافر کافر کے نعرے نہ لگائیں۔ عبادات اور معاملات کو الگ کرنے سے معاشرے میں شر پھیل رہا ہے۔ اس میں کوئی طبقہ نہیں پورا معاشرہ قصور وار ہے۔ دین کو مسجد اور عبادات تک محدود کردیا گیا ہے۔ حج، عمرہ، نماز، زکوٰة کو دین سمجھ لیا گیا ہے۔ دنیاوی معاملات، اخلاق اور معاشرت کو دین سے خارج کردیا گیا ہے“۔ یہ تھا وہ پیغام جسے سننے کیلئے ایک مدت سے کان ترس رہے تھے۔ دل میں مولانا طارق جمیل سے ملاقات کی تڑپ پیدا ہوئی۔ انکے معاون شبیر احمد عثمانی سے رابطہ کیا۔ مولانا طارق جمیل نے شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تبلیغی جماعت کے مرکز میں ملاقات کا وقت دے دیا۔ اپنے عزیز معظم سلطان کے ہمراہ مرکز کی جانب روانہ ہوا۔ زندگی میں پہلی بار مرکز کے دورے کا موقع مل رہا تھا۔ شبیر عثمانی مسلسل فون پر رابطے میں رہے تاکہ کسی دشواری کے بغیر مرکز پہنچ سکیں۔ مرکز کے باہر سڑک پر معاون موجود تھے جو مرکز کے اندر لے گئے۔ یوں محسوس ہوا جیسے کاروبار مکروفن کی دنیا سے روحانی دنیا میں داخل ہوگئے ہیں۔ مولانا طارق جمیل بڑے تپاک سے ملے ان کا دفتر ایک چھوٹے کمرے پر مشتمل ہے کمرے میں دری بچھی ہے دو گاﺅ تکیے پڑے ہیں۔ فرش پر بیٹھ کر ملاقات کرتے ہیں۔ انکا سادہ کمرہ دیکھ کر مسجد نبوی کا حجرہ یاد آیا۔ مولانا کی زبان کی تاثیر کا عقدہ کھلا ان کا بیان انکے عمل کے مطابق ہے۔ میں نے مولانا کو اپنی کتاب ”معاملات رسول“پیش کی تین چار منٹ کتاب پر طائرانہ نظر ڈال کر فرمانے لگے ”آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے“۔ چائے کی سادہ پیالی پر مولانا سے تبادلہ خیال ہوا۔ انکی گفتگو دل سے نکلتی ہے اور دل پر اثر کرتی ہے۔ شرف ملاقات کے بعد مرکز کا دورہ کیا۔ ریاست مدینہ کے مناظر یاد آگئے۔ مرکز سادگی اور کفایت شعاری کا بہترین نمونہ ہے۔ مرکز کی عمارتیں سنگِ مرمر سے نہیں بلکہ سادہ اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ دروازے لوہے کی عام چادروں سے بنائے گئے ہیں۔ دفاتر، کچن، مسجد، سکول اور رہائشی علاقہ سب قرآن و سنت کی منشاءکے مطابق ہیں۔ 25 ہزار تبلیغی کارکن ہر وقت مرکز میں موجود رہتے ہیں۔ ان کے قیام و طعام کا انتظام کیا جاتا ہے نہ چندہ لیا جاتا ہے اور نہ کھالیں جمع کی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسباب پیدا کرتا ہے۔ ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد مرکز میں موجود ہوتے جو سب اللہ کی خوشنودی میں مگن ہوتے ہیں۔ مرکز کی سادہ مگر پروقار مسجد عجب منظر پیش کرتی ہے۔ مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگ ٹولیوں میں بیٹھ کر قرآن اور سنت کی باتیں کرتے ہیں۔ مرکز کے مختلف مناظر دیکھ کر علامہ اقبال یاد آئے جنہوں نے کہا تھا۔

میں نا خوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
جہانِ تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

تبلیغی جماعت مرکز شاید پاکستان کا واحد مرکز ہے جس میں سنگ و خشت کی بجائے اسلام کی روح اور پیغام پر توجہ دی گئی ہے۔ دورے کے دوران تبلیغی جماعت کے امیر مولانا عبدالوہاب کی زیارت نصیب ہوئی۔ رائے ونڈ میں ہر سال لاکھوں افراد کا اجتماع ہوتا ہے نظم و ضبط اس قدر مثالی اور معیاری کہ دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمان کی تلاش مشکل نہیں ہوتی۔ ہزاروں طلبہ قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ تبلیغی جماعت فرقہ واریت کیخلاف اور امت مسلمہ کے اتحاد کیلئے کوشاں ہے۔ پاکستان کے عوام کو اس مرکز کا دورہ کرکے ریاست مدینہ کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے چاہئیں۔ بلاشک یہ روحانی مرکز امن و سکون کا گہوارہ ہے۔ ایک روایت کیمطابق بھارت کے لیڈر نہرو نے خفیہ ایجنسی کو ہدایت کی کہ وہ تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کا جائزہ لے کر اسکے خفیہ مقاصد کا کھوج لگائے۔ خفیہ ایجنسی نے رپورٹ دی کہ تبلیغی جماعت کے کوئی دنیاوی عزائم نہیں ہیں یہ اللہ والے لوگ ہیں اور انسانوں کو آخرت سنوارنے کی تبلیغ کرتے ہیں۔ دعوت تبلیغ اور دعا اس جماعت کے بنیادی اصول ہیں۔ مولانا طارق جمیل خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے تبلیغی جماعت کے پیغام کو مکمل کیا ہے اور حقوق اللہ کو حقوق العباد سے جوڑا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انسان کے اعمال نامہ میں تین قسم کے گناہ شامل ہوں گے۔ ایک وہ گناہ جسے اللہ ہرگز معاف نہیں کریگا وہ شرک کا گناہ ہے دوسرا گناہ جو اعمال نامہ میں شامل ہوگا وہ بندوں کے حقوق سے متعلق ہوگا۔ اسے اللہ معاف نہیں کریگا یہاں تک کہ مظلوم ظالموں سے اپنا حق لے لیں۔ تیسرا گناہ جس کا تعلق بندہ اور خدا سے ہے یہ اللہ کے حوالے ہے وہ چاہے گا تو عذاب دے گا اور چاہے گا تو معاف کردےگا۔ (مشکوٰة) مسلمان اگر دین اور دنیا سنوارنا چاہتے ہیں تو انہیں حقوق اللہ کیساتھ ساتھ حقوق العباد کی جانب آنا پڑیگا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو تبلیغی مرکز پر توجہ دینی چاہیئے تاکہ اس مثالی روحانی ماڈل کی خوشبو ہر سو پھیل جائے۔تبلیغی جماعت کے مبلغین حقوق العباد کو اپنے پیغام کا حصہ بنائیں۔ علمائے حق سے دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ حقوق العباد کو اپنے خطبات کا موضوع بنائیں تاکہ پاکستان کا معاشرہ امن، سکون، عدل، انصاف، اخوت، برداشت اور مساوات کا مثالی ماڈل بن سکے۔

کالم نگار | قیوم نظامی
نوائے وقت


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں