والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم

اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے ،ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کوبیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی نسبت عطا کی ہے، غرض ر شتے بنا نے کے بعد اللہ تعالی نے ان کے حقوق مقر ر فرمائے ہیں ، ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کر نا ضروری ہے ، لیکن والد ین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اپنی بندگی اور اطاعت کے فورا بعد ذکر فرمایا ، یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے ۔

والدین سے حسن سلوک کا حکم
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے : ﴿وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً رَّبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوسِکُمْ إِن تَکُونُواْ صَالِحِیْنَ فَإِنَّہُ کَانَ لِلأَوَّابِیْنَ غَفُوراً﴾․ (الاسراء : 23۔25)
ترجمہ : اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ، اگر وہ یعنی ماں باپ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں ، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو ) ان سے کبھی ”ہوں “ بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا اور ان سے خوب ادب سے با ت کر نا ، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا :اے ہمارے پروردگار ! تو ان پر رحمت فر ما، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے(صرف ظاہر داری نہیں، دل سے ان کا احترام کرنا ) تمھارا رب تمھارے دل کی بات خوب جا نتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں بکثرت معاف کرنے والا ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ جل جلالہ نے سب سے پہلے اپنی بندگی واطاعت کا حکم ارشاد فر ما یا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا ، اس کے بعد فر ما یا کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں ، بلکہ آج میں جو کچھ ہوں انہی کی برکت سے ہوں ، والدین ہی ہیں جو اولاد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کی تکلیف دکھ اور مشقت کو برداشت کر تے ہیں ،بلکہ بسا اوقات اپنا آرام و راحت ،اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کردیتے ہیں ۔

ماں کا مجاہدہ
سب سے زیا دہ محنت و مشقت اور تکلیف ماں برداشت کر تی ہے، سورةاحقاف میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ إِحْسَاناً حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہاً وَوَضَعَتْہُ کُرْہاً﴾(الاحقاف:15)ترجمہ : اس ماں نے تکلیف جھیل کر اسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا ۔حمل کے نو (9)ماہ کی تکلیف اور اس سے بڑھ کر وضع حمل کی تکلیف یہ سب ماں برداشت کر تی ہے ۔

جب بچہ پیدا ہو تا ہے تو اب اس کی پرورش کے لیے باپ محنت ومشقت برداشت کر تا ہے ، سردی ہو یا گر می ،صحت ہو یا بیما ری، وہ اپنی اولاد کی خاطر کسب معا ش کی صعوبتوں کو برداشت کر تا ہے اور ان کے لیے کما کر لاتا ہے، ان کے اوپر خرچ کرتا ہے ، ماں گھر کے اندر بچے کی پرورش کرتی ہے ،اس کو دودھ پلاتی ہے، اس کو گرمی و سردی سے بچانے کی خاطر خود گرمی و سردی برداشت کرتی ہے ،بچہ بیما ر ہوتا ہے تو ماں باپ بے چین ہو جا تے ہیں ، ان کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں، اس کے علاج و معالجہ کی خا طر ڈاکٹروں و علاج گاہوں کے چکر لگاتے ہیں ۔ غرض والدین اپنی راحت و آرام کو بچوں کی خاطر قربان کر تے ہیں،اس لیے اللہ تعالی نے جہاں اپنا شکر ادا کر نے کا حکم دیا ہے وہا ں ساتھ ساتھ والدین کا بھی شکرگزاررہنے کا حکم ارشاد فر مایا ہے ،سو رة لقمان میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:﴿ أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْْکَ إِلَیَّ الْمَصِیْرُ﴾ (لقمان:41) ترجمہ کہ میرا شکر یہ ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو، میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی نے پو چھا کہ میں نے خراسان سے اپنی والدہ کو اپنے کندھے پر اٹھا یا اور بیت اللہ لایا اور اسی طرح کندھے پر اٹھا کر حج کے منا سک ادا کروائے ،کیا میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا ؟تو حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے فرما یا: ”نہیں، ہر گز نہیں ، یہ سب تو ماں کے اس ایک چکر کے برابر بھی نہیں جو اس نے تجھے پیٹ میں رکھ کر لگا یا تھا ۔“

اللہ تعالی نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیاہے: ﴿وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَانا﴾ یعنی ان کے ساتھ انتہائی تواضع و انکساری اور ا کرام و احترام کے ساتھ پیش آئے، بے ادبی نہ کرے ، تکبر نہ کرے ، ہر حال میں ان کی اطاعت کرے إلا یہ کہ وہ اللہ کی نا فرمانی کا حکم دیں تو پھر ان کی اطا عت جا ئز نہیں۔سورہ عنکبوت میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:﴿وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حُسْناً وَإِن جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا ﴾(العنکبوت :8) تر جمہ : ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کر نے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتادیا ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس با ت کا زور ڈالیں کہ تو ایسی چیز کو میرے شریک ٹھہرائے جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تیرے پاس نہ ہو تو ان کا کہنا مت ما ننا ۔

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا فرمان
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریا فت کیا کہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کس طرح کیا جائے ؟ تو انہوں نے فرما یا:!تو ان پر اپنا مال خرچ کر اور وہ تجھے جو حکم دیں اس کی تعمیل کر ، ہاں! اگر گناہ کا حکم دیں تو مت مان ۔(الدرالمنثور: 5/ 224)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فر ما یا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی مت جھاڑو، کہیں کپڑوں کا غبا ر اور دھول ان کو نہ لگ جا ئے۔

بڑھاپے میں حسن سلوک کا خصوصی حکم
اللہ تعالی نے خاص طور سے والدین کے بڑھاپے کو ذکر فر ما کر ارشاد فر ما یا کہ اگر ان میں کوئی ایک یا وہ دونوں تیری ز ند گی میں بڑھا پے کو پہنچ جا ئیں تو ان کو ”اف “بھی مت کہنا اور نہ ان سے جھڑک کر با ت کر نا ۔ حضرت تھا نوی رحمہ اللہ نے بیا ن القرآن میں ”اف “ کا تر جمہ ”ہوں “ سے کیا ہے کہ اگر ان کی کوئی بات نا گوار گزرے تو ان کو جواب میں ”ہوں “بھی مت کہنا ۔ اللہ رب العزت نے بڑھا پے کی حالت کو خا ص طور سے اس لیے ذکر فر ما یا کہ والدین کی جوا نی میں تو اولاد کو نہ” ہوں“ کہنے کی ہمت ہوتی اور نہ ہی جھڑکنے کی ،جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہو تا ہے، البتہ بڑھاپے میں والدین جب ضعیف ہوجا تے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیا دہ اندیشہ رہتا ہے ۔،پھر بڑھا پے میں عا م طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑا پن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی با توں پر اور بسا اوقات درست اور حق بات پر بھی والدین اولاد پر غصہ کر تے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کر کے حسن سلوک کا مظاہرہ کر تے ہیں، یا نا ک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں، اس موقعہ کے لیے اللہ تعالی نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر با ت کر نا تو دور کی با ت ہے، ان کو” اف“ بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی نا خوش گواری کا اظہا ر بھی مت کر نا ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فر ما یا کہ اگر والدین کی بے ادبی میں ”اف “ سے بھی کوئی کم درجہ ہوتا تو اللہ جلّ شانہ اسے بھی حرام فرمادیتے۔ (الدرالمنثور: 5/ 224)

حضرت مجاہد رحمہ اللہ کا قول
حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر والدین بوڑھے ہو جا ئیں اور تمھیں ان کا پیشا ب دھو نا پڑجا ئے تو بھی” اف“ مت کہنا کہ وہ بچپنمیں تمھارا پیشا ب پاخانہ دھوتے رہے ہیں۔(الدرالمنثور:5/224)

والدین کا ادب
حضرت عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، وہ فر ما تی ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے جواب میں کہا کہ یہ میرا باپ ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”لاتمشي أمامہ، ولاتقعد قبلہ، ولاتدعہ باسمہ، ولاتستب لہ․ (معجم الأوسط، للطبراني:4/267، رقم الحدیث: 4169) یعنی ان کے آگے مت چلنا ، مجلس میں ان سے پہلے مت بیٹھنا ، ان کا نام لیکر مت پکارنا ، ان کو گا لی مت دینا ۔

بڑھا پے میں جب والدین کی کوئی با ت نا گوار گزے تو ان سے کیسے گفتگوکی جا ئے؟ اس کے بارے میں اللہ تعالی نے فر ما یا: ﴿ وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما﴾(الاسراء:23) یعنی: ان سے خوب ادب سے با ت کر نا ، اچھی بات کر نا ، لب ولہجہ میں نر می اور الفا ظ میں تو قیر و تکریم کا خیا ل رکھنا ۔ قول کریم کے بارے میں حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فر ما یا: قول العبد المذنب للسید الفظِ (الدر المنثور: 5/225) خطا ر کار اور زر خرید غلام سخت مزاج اور ترش رو آقا سے جس طرح با ت کر تا ہے اس طرح با ت کر نا یہ قول کریم ہے۔

آگے فر ما یا: ﴿ وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ ﴾ یعنی ان کے سامنے شفقت کے ساتھ انکساری سے جھکتے رہنا ۔ حضرت عروہ رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ اللہ نے قرآن میں والدین کے سامنے جھکے رہنے کا حکم دیا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے فر ما یا کہ اگر وہ کوئی بات تیری نا گواری کی کہیں تو ترچھی نگا ہ سے بھی ان کو مت دیکھ کہ آدمی کی نا گواری اول اس کی آنکھ سے پہچانی جا تی ہے۔(الدر المنثور: 5/225)اور فر ما یا کہ ان کے سامنے ایسی روش اختیار کر کہ تیری وجہ سے ان کی دلی رغبت پوری کر نے میں فرق نہ آئے اور جس چیز کو والدین پسند کریں تو وہ ان کی خدمت میں پیش کر نے میں کنجوسی مت کرنا۔ (بر الوالدین، ص: 40)

حضرت مفتی محمد شفیع صا حب رحمہ اللہ نے معارف القر آن میں لکھا ہے کہ والدین کی خدمت و اطاعت کا حکم کسی زمانے و عمر کے ساتھ مقید نہیں ، بہرحال ہر عمر میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا واجب ہے ، کیوں کہ والدین کی خدمت اور ان کی رضا مندی میں اللہ تعالی کی رضا مندی ہے اور ان کی ناراضگی میں اللہ کی نا راضگی ہے۔ (5/466)

اللہ تعالی کی رضا و ناراضگی
حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا :رضا اللّٰہ مع رضا الوالدین، وسخط اللّٰٰہ مع سخط الوالدین․(شعب الإیمان: 6/177، رقم الحدیث: 7829،7830) یعنی اللہ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔

جنت یا جہنم کے دروازے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : من أصبح مطیعا فی والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من الجنة، وإن کان واحدا فواحدا، ومن أمسی عاصیا للّٰہ فی والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من النار، وإن کان واحدا فواحدا، قال الرجل: وإن ظلماہ ؟ قال: وإن ظلماہ، وإن ظلماہ، وإن ظلماہ․ (شعب الإیمان: 6/206، رقم الحدیث: 7916)

یعنی جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں اللہ کا فر ما ں بر دار رہا تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہو تے ہیں اوراگر والدین میں سے ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرے تو جنت کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے ۔اور جس نے اپنے والدین کے حقوق کہ ادائیگی میں اللہ کی نا فر ما نی کی، اس کے بتائے ہوے احکاما ت کے مطا بق حسن سلوک نہ کیا تو اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہتے ہیں اوراگر والدین میں ایک زندہ ہواوراس کے ساتھ بد سلوکی کر ے تو جہنم کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔کسی نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی! اگر چہ ماں باپ نے اس پر ظلم کیا ہو ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فر ما یا: اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو ۔

حضرت رفاعہ بن ایاس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایاس بن معاویہ رحمہ اللہ کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ رونے لگے، کسی نے پوچھا کہ کیوں روتے ہو؟ تو انہوں نے فرمایا :”کان لي بابا ن مفتوحان إلی الجنة وأغلق أحد ھما“ یعنی میرے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے تھے اب ایک والدہ کی وفات پر ایک بند ہوگیا ہے، اس لیے رو رہا ہوں۔ کس قدر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے والدین زندہ ہیں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرتے ہیں اور ان کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ ََ

والدین کے لیے دعا کا اہتمام کرنا
اللہ تعالی نے جہاں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے وہی پر ان کے لیے دعا کرنے کی تعلیم بھی ارشاد فرمائی ہے، چناں چہ ارشاد خداوندی ہے: ﴿ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً﴾(الاسراء :24) یعنی: اے میرے پروردگار! تو میرے والدین پر ایسے ہی رحم فر ماجیسا کہ انہوں نے بچپن میں رحمت و شفقت کے ساتھ میری پرورش کی ہے۔ہر نماز کے بعدوالدین کے لیے دعا کرنے کا معمول بنالیں، دو بہت آسان دعائیں جن کی تعلیم خود اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں دی ہے، ایک ماقبل والی اور دوسری یہ:﴿ رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسَابُ﴾ (الإبراہیم: 41) یعنی اے میرے پروردگار ! روزحساب تو میری، میرے والدین کی اور تمام ایمان والوں کی بخشش فرما۔

حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے فرمایا :” من صلی الصلوات الخمس فقد شکر اللّٰہ، ومن دعا للوالدین في أدبار الصلوات الخمس فقد شکر الوالدین․“ (تفسیر الخازن المسمی: لباب التأویل في معانی التنزیل، سورة لقمان: 5/216)

یعنی جس نے پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی کا اہتمام کیا تو گو یا اس نے اللہ کا شکر ادا کیا اور جس نے پانچ نمازوں کے بعد والدین کے لیے دعائے خیر کی تو گویا اس نے والدین کا شکر ادا کیا۔ اولاد کی دعا سے والدین کے درجات بلند ہوتے ہیں، حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام اللہ کی ملاقات کے لیے گئے تو وہا ں عرش کے سائے تلے ایک شخص کو دیکھا اور اس کی حالت اتنی اچھی تھی کہ خود موسی علیہ السلام کو اس آدمی پر رشک آیا تو موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا کہ اے اللہ ! تیرا یہ بندہ کون ہے ؟ اللہ تعالی نے فرما یا : کان لا یحسد الناس علی ما آتاہم اللّٰہ من فضلہ، وکان لا یعق والدیہ، ولا یمشی بالنمیمة․ (مکارم الأخلاق لابن أبی الدنیا: 1/86، رقم الحدیث: 257) یعنی یہ شخص تین کا م کر تا تھا ۔ جو چیزیں میں نے اپنے فضل وکرم سے لوگوں کو نعمتیں عطا کی ہیں ان پر حسد نہیں کر تا تھا۔ والدین کی نا فر ما نی نہیں کر تا تھا۔ چغل خوری نہیں کر تا تھا ۔

رزق میں اضافہ
والدین کے ساتھ حسن سلوک رزق و عمر میں اضا فہ کا سبب ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من أحب أن یمد اللّٰہ في عمرہ، ویزید في رزقہ فلیبر والدیہ، ولیصل رحمہ․(شعب الإیمان: 6/185، رقم الحدیث:7855)

یعنی جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی عمر دراز کردے اور رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : بروا آباء کم تبرکم أبناؤکم․(المعجم الأوسط:1/299، رقم الحدیث: 1002) یعنی تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، تمہا ری اولاد تمھارے ساتھ حسن سلوک کرے گی۔

موت کے بعد والدین سے حسن سلوک کا طریقہ
والدین دونوں یا ان میں کوئی ایک فوت ہو گیا ہو اور زندگی میں ان کے ساتھ حسن سلوک نہیں کیا اور کوتاہی ہوئی تو اب تدارک کیسے کیا جائے؟ حضور اقدس صلى الله عليه وسلم نے اس کی بھی تعلیم دی ہے۔حضرت ابو۔اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حضور اقدس صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا اور عرض کیا کہ ماں باپ کی وفات کے بعد بھی کوئی چیز ایسی ہے جس کے ذریعے ان سے حسن سلوک کروں؟ توآپ صلى الله عليه وسلم نے فر ما یا : نعم، الصلاة علیہما، والاستغفار لہما، وإنفاذ عہدہما من بعدہما، وصلة الرحم التی لا توصل الا بہما، وإکرام صدیقہما․(سنن أبي داود: 500، رقم الحدیث: 5144)

ہاں! ان کے لیے رحمت کی دعا کر نا ان کے لیے مغفرت کی دعا کر نا ان کے بعد ان کی وصیت کو نا فذکر نا ۔ اس صلہ رحمی کو نبھا نا جو صرف ماں باپ کے تعلق کی وجہ سے ہو، ان کے دوستوں کا اکرام کر نا ۔

حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ جب مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ان سے ملنے کے لیے آئے اور پوچھا تمہیں معلوم ہے کہ میں تمھارے پاس کیوں آیاہوں ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، تو فر ما یا میں نے حضور اقدس صلى الله عليه وسلم سے سنا ہے: من أحب أن یصل أباہ فی قبرہ فلیصل إخوان أبیہ بعدہ ․ (صحیح ابن حبان:2/175، رقم الحدیث:432) یعنی جو یہ چاہتا ہے کہ اپنے باپ کے ساتھ قبر میں صلہ رحمی کرے تو اس کو چاہیے کہ ان کے بعد ان کے دوستو ں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، میرے والد عمر رضی اللہ عنہ اور تمھارے والد کے درمیان دوستی تھی، میں نے چاہا کہ میں اسے نبھاؤں (اس لیے تم سے ملنے آیا ہوں)۔

آخر میں گذارش کہ جن کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک حیات ہے تو ان کو اللہ کی بہت بڑی نعمت سمجھ کر ان کی فرمانبرداری کرے، ان کے ساتھ حسن سلوک کرے، جتنا ہوسکے ان کی خدمت کرے اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرے اور جن کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک اس دنیا سے چلے گئے ہیں توان کے ساتھ اب حسن سلوک یہ ہے کہ ان کی وصیت کو نافذ کرے، ان کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کرے، شرعی حصص کے مطابق میراث کو تقسیم کرے، خود دینی تعلیم حاصل کرے اور اس پر عمل کرے،ان کے لیے دعا کرے، اللہ سے ان کے لیے رحمت و مغفرت طلب کرے ،ان کی طرف سے صدقہ کرے ، ان کی طرف سے نفلی حج و عمرہ کرے ،کہیں کنواں کھدوائے یا لوگوں کے پینے کے پانی کا انتظام کرے، دینی کتابیں خرید کر وقف کرے ،مسجد بنوائے، مدرسہ بنوائے یا دینی علم حاصل کرنے والے مہمانان رسول کی ضروریات کو پورا کرنے میں تعاون کرے،والدین کے قریبی رشتہ داروں اور تعلق والوں کے ساتھ حسن سلوک کرے، نفلی اعمال کر کے ان کے لیے ایصال ثواب کرے، اپنے علاقہ، ملک اور دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کی حالت زار کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مال کے ساتھ ان کی خبر گیری کرے، اللہ تعالی تمام اہل ایمان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق سے نوازے، آمین، ثم آمین!

بقلم محترم ابو جمانہ
ماہنامه الفاروق (جامعہ دارالعلوم فاروقیہ کراچی)
محرم الحرام 1437


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں