حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے باعزت موت کو ذلت پر ترجیح دی

حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے باعزت موت کو ذلت پر ترجیح دی

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے واقعہ کربلا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تئیس اکتوبر دوہزار پندرہ کے خطبہ جمعہ میں شہادت حسین رضی اللہ عنہ کو باعزت موت قرار دیا۔
’سنی آن لائن‘ کی رپورٹ کے مطابق، خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں کربلا میں امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: نبی کریم ﷺ کو حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے بہت محبت تھی؛ آپ ﷺ ایک دن حضرت حسن کو گود میں لے کر فرمانے لگے میرا یہ بیٹا سید و سردار ہے، اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح لائے گا۔ چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے والد کی شہادت کے بعد جب مسلمانوں کے امیر بنائے گئے، انہوں نے حکومت حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کردی اور اس طرح مسلمانوں کے درمیان صلح ہوگئی۔
مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: حسن وحسین رضی اللہ عنہماسیرت، اخلاق، کردار اور علم میں اپنے والد مکرم حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور خاندان نبوت سے بہت مشابہ تھے؛ یہ حضرات نبی کریم ﷺ اور حضرات علی وفاطمہ رضی اللہ عنہما کی سخاوت، تقوا اور بہادری سے مالامال تھے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کربلا میں پیش آنے والے المناک حادثے کے پس منظر واضح کرتے ہوئے کہا: جب دین اور امت مسلمہ کا زمام نالایق اور کمزور لوگوں کے سپرد ہوا، تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا بدر، احد اور حنین میں شہید ہونے والے صحابہ کرام کا خوں رائیگان جارہاہے اور لوگوں کا دین خطرے میں ہے۔ تب ہی آپ لوگوں کے دین کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
انہوں نے مزیدکہا: جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ صحرائے کربلا پہنچے انہیں معلوم ہوا کوفہ والوں نے وعدہ خلافی کی ہے اور بیعت کرنے والوں نے ان کے نمائندہ حضرت مسلم کو شہید کیاہے۔ اہلیان کوفہ نے دنیا کے عارضی مفادات کی خاطر عہدشکنی و بغاوت کی راہ اپناتے ہوئے حضرت حسین کے قاتلوں سے جا ملے تھے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ایسے میں نواسہ رسول ﷺ نے درخواست کی انہیں یزید سے مذاکرات یا واپس مدینہ جانے کی اجازت دی جائے، لیکن ان کی درخواست مسترد ہوئی۔ انہیں پیش کش کی گئی کہ ساتھیوں سمیت سرنڈر کریں ۔ لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ذلت پر باعزت موت کو ترجیح دی اور لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے تاکید کرتے ہوئے کہا: میدان کربلا میں یزیدی لشکر نے ظلم و ستم اور جرائم کی ایسی ہولناک داستانیں رقم کی کہ زبان ان کے بیان سے قاصر ہے۔ لیکن جن لوگوں نے دنیا کے ظاہری مفادات کی خاطر حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں کو شہید کیا، ذلت و رسوائی سے دوچار ہوئے اور ذلیل ہوکر بہت جلد مرگئے۔ عبیداللہ بن زیاد، شمر و۔۔۔ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہوئے اور ان کے اقتدار کو طول نصیب نہ ہوا۔

عصرحاضر میں بھی ’حسینی‘ و ’یزیدی‘ لوگ پائے جاتے ہیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں نماز جمعہ کے عظیم اجتماع سے خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا: آج کل بھی بہت سارے لوگ ’حسینی‘ و ’یزیدی‘ ہیں؛ جو لوگ طاقت حاصل کرنے کی خاطر ظلم اور کشت وخون کا بازار گرم رکھتے ہیں، انصاف کو پاوں تلے روندتے ہیںاور نیک و متقی لوگوں کو قتل کرتے ہیں یہ یزید اور اس کے فوجیوں کی راہ پر چلنے والے ہیں۔ لیکن نبی کریم ﷺ کی سنت اور صحابہ کرام و اہل بیت کی راہ اپنانے والے سچے حسینی ہیں۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: ہم اپنے آپ کو ان بزرگوں سے نسبت دے کر محض حسینی، علوی، عمری، عثمانی اورفاروقی بتانے سے ان کے پیروکار نہیں بن سکتے، ان کی سیرت و طریقوں کی پیروی کرنی چاہیے۔ جو لوگ عدل و انصاف کی راہ پر گامزن ہیں اور ظلم کے خلاف جد وجہد کرتے ہیں، وہ صحابہ و اہل بیت سے قریب ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے اس حصے کے آخر میں زور دیتے ہوئے کہا: صحابہ و اہل بیت کے بزرگوں اور شہدا کی یاد کو صرف ان کے یوم پیدائش اور سالگرہ تک محدود نہ رکھیں بلکہ پورے سال میں ان کا تذکرہ ہونا چاہیے۔ ان کا ذکر خیر کرکے ان کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ عنہم میں بھائی چارہ اور اتحاد تھا، ہمیں بھی محبت، فراخدلی اور بھائی چارہ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اپنے خطاب کے آخر میں ممتاز عالم دین نے نمازیوں سے درخواست کی دارالعلوم زاہدان سے منسلک ’محسنین ٹرسٹ‘ کی مدد کریں جو حالیہ سیلاب کے متاثرین کی مدد کرتے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں