اسرائیلی سیاست دانوں کے مسجد الاقصیٰ میں داخلے پر پابندی

اسرائیلی سیاست دانوں کے مسجد الاقصیٰ میں داخلے پر پابندی

انتہا پسند اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس میں آنے والے وزراء اور ارکان پارلیمان کو مسجد الاقصیٰ میں داخل ہونے سے روک دے۔
اسرائیلی اخبار ہارٹز نے اپنی بدھ کی اشاعت میں اسرائیلی وزراء اور ارکان پارلیمان کے مسجد الاقصیٰ میں داخلے کو روکنے کی اطلاع دی ہے۔اس اقدام کا مقصد مقبوضہ بیت المقدس میں فلسطینیوں اور قابض فورسز کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنا ہے۔
مسجد الاقصیٰ میں حالیہ دنوں کے دوران قابض اسرائیلی فورسز اور یہود کی دراندازی کے خلاف فلسطینیوں نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور غرب اردن کے مختلف شہروں اور قصبوں میں فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔
فلسطینی اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اسرائیل مسجد الاقصیٰ کی موجودہ حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔اس مقدس مقام کے موجودہ ”اسٹیٹس کو” کے مطابق یہود کو وہاں زائر کی حیثیت سے داخل ہونے کی اجازت ہے مگر انھیں عبادت کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کا موجودہ انتظامات کو تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے مگر یہودیوں کا ایک انتہا پسند گروپ اپنے ہم مذہبوں کو مسجد الاقصیٰ میں آنے پر اُکسا رہا ہے اور اس کی اس تحریک کے پیش نظر ہی اسرائیل مسلمانوں کی ان کے قبلہ اوّل میں داخلے پر آئے دن پابندیاں عاید کردیتا ہے۔
واضح رہے کہ اردن مقبوضہ بیت المقدس میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کی دیکھ بھال کا ذمے دار ہے اور وہ مسجد الاقصیٰ میں کوئی خلاف ورزی ہونے کی صورت میں اسرائیل سے شکایت کرتا ہے۔انتہا پسند یہودیوں کی جانب سے حالیہ دنوں میں مسجد الاقصیٰ میں داخلے کی متعدد مرتبہ کوششیں کی گئی ہیں اور ان کی مزاحمت کرنے والے فلسطینی نوجوانوں کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں۔
یہودی مسجد الاقصیٰ کے لیے ٹیمپل ماؤنٹ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔غیر مسلموں کو صرف اجازت ناموں کے ذریعے ہی الاقصیٰ کمپلیکس میں داخل ہونے کی اجازت ہے لیکن یہودیوں کو مسجد کے اندر عبادت کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس سے گڑبڑ کا اندیشہ رہتا ہے۔اس کے بجائے وہ مسجد الاقصیٰ کی دیوارغربی کے نیچے عبادت کرسکتے ہیں۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہودیوں کی جانب سے مسجد الاقصیٰ میں بار بار مداخلت کی کوشش سے اس کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔وہ جب ان انتہا پسند یہودیوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو پولیس کشیدگی کے خاتمے اور امن وامان برقرار رکھنے کے نام پر ان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیتی ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں