عسکری حملوں سے مسائل کا حل نکالنا سنگین غلطی ہے

عسکری حملوں سے مسائل کا حل نکالنا سنگین غلطی ہے

شام میں امریکا کے بعد روس کے فضائی حملوں کو ’سنگین غلطی‘ یاد کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے عالم اسلام سے اجنبی طاقتوں کو نکالنے پر زور دیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے دو اکتوبر دوہزار پندرہ کے خطبہ جمعہ میں مشرق وسطی کے تازہ ترین حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ دنیا میں ہر سو شدت پسندی و انتہاپسندی کی لہر دوڑگئی ہے۔ اسی منبر سے کئی مرتبہ انتہاپسندی کی اصل وجوہات معلوم کرنے پر زور دیا گیاہے۔ کسی بھی مرض سے مقابلہ کے لیے ضروری ہے سب سے پہلے اس کی جڑ اور اصل علت کا پتہ لگایاجائے۔ دنیا والے انتہاپسندی کے معلول کا مقابلہ کررہے ہیں مگر علت کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ ایسے مقابلے کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: کئی عشروں سے قابض اسرائیلی ریاست فلسطین میں دہشت گردی کررہی ہے اور گھروں کو مسمار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہواہے۔ سوال یہ ہے عالمی طاقتیں اور اقوام متحدہ مسئلہ فلسطین حل کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟ حالانکہ عالمی دہشت گردی کی اصل وجہ اور جڑ صہیونی ریاست کی قبضہ گیری و دہشت گردی ہے۔ انتہاپسندی ظلم وجبر، ناانصافی اور مظلوموں کی بات نہ سننے کا نتیجہ ہے۔ آمر حکومتوں اور جابر حکومتوں کا حکومت کرنے پراصرار دہشت گردی اور انتہاپسندی کا باعث ہے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مشرقی و مغربی طاقتوں کی مشرق وسطی کے بحرانوں کے حل میں ناکامی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: انتہائی افسوس کا مقام ہے اقوام متحدہ اور دیگر مغربی و مشرقی طاقتیں مشرق وسطی کے سیاسی بحرانوں سے کئی سال گزرنے اور لاکھوں افراد کے جاں بحق ہونے کے باوجود کوئی مناسب راہ حل پیش کرنے سے ناکام رہی ہیں۔ انہیں چاہیے ایسا فارمولا پیش کریں جس سے مذاکرات کے ذریعے مسائل حل ہوجائیں۔
عسکری طریقے سے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا: بعض طاقتیں فضائی اور عسکری حملوں سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کا مقابلہ کرنا چاہتی ہیں، حالاں کہ یہ ایک سنگین غلطی ہے جسے دنیا دہرا رہی ہے۔ صلح کے لیے ایسا فارمولا پیش کرنا چاہیے جو اکثر لوگوں اور جماعتوں کے لیے قابل قبول ہو، اگر کوئی اقلیت اس فارمولے کی مخالفت کرے، پھر اسے نظرانداز کرکے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ قرآن پاک اسی مسئلے پر زور دیتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا: مغربی طاقتیں اچھی طرح مذاکرات کے ذریعے قومی حکومتیں تشکیل دے سکتی ہیں، لیکن ان کا مفاد اس خطے میں مزید کشت و خون اور لڑائیوں میں ہے۔ مسلم ممالک اور مشرق وسطی میں جنگ کی فضا ان کے مفادات کے مطابق ہے اور وہ صرف اسرائیل کی حمایت و بقا کی کوشش کرتے ہیں۔ روس اور دیگر ملکوں کے حالیہ حملوں سے خطے کا امن مزید خراب ہوجائے گا اور ممکن ہے بدامنی کی لہر مشرق و مغرب تک جا پہنچے۔
یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: دنیا میں مہاجروں اور ملک بدرہونے والوں کے آشفتہ حالات انتہائی المناک ہیں؛ عراق، شام، یمن اور بعض دیگر مسلم ممالک سے لوگ مایوس ہوکر اپنے گھربار چھوڑتے ہیں۔ اللہ تعالی ایسی طاقتوں کے شر سے ہمیں محفوظ فرمائے جو اپنے سیاسی، معاشی اور عسکری مفادات کی خاطر مسلم ممالک کو مسائل سے دوچار کرتی ہیں۔

عوام کے ساتھ چلنے والی حکومتیں زیادہ کامیاب ہیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں ایران میں ’ہفتہ دفاع‘ اور ایران عراق جنگ کی سالگرہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایران پر جنگ مسلط کی گئی جس سے ہماری مسلح افواج کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس دوران انہیں بہت تجربہ حاصل ہوا۔
انہوں نے ان ایام کو پولیس حکام اور مسلح افواج کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا: ہر ادارہ، محکمہ اور حکومت جو عوامی ہو اور عوام سے تعلق رکھے، اس کی کامیابی کا احتمال بڑھ جاتاہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ ہمارے صوبائی و قومی حکام ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور تنقید کی برداشت کا مادہ ان میں پایاجاتاہے۔ منتقدین کی نیت بھی اصلاح ہونی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے ’اللہ تعالی پر توکل‘ اور ’عوام پر اعتماد‘ کو کسی بھی حکومت کی بقا کے لیے ضروری یاد کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاہے اللہ تعالی اور آپ کی اتباع کرنے والے مومنین آپ کے لیے کافی ہیں۔ اس آیت سے رہنمائی ملتی ہے کہ حکومتیں عوامی ہوں اور اللہ تعالی پر توکل کریں اور عالم اسباب میں لوگوں پر بھروسہ کریں۔
انہوں نے مزیدکہا: دنیا میں حکومتی سسٹمز کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے عوامی حکومتیں اور ریاستیں سب سے زیادہ مستحکم اور پائیدار ہیں۔ لیکن آمر حکومتیں اللہ تعالی اور عوام کے بجائے، مشرقی و مغربی طاقتوں سے وابستہ رہتی ہیں۔ ایران کے سابق رجیم کا بھی عوام سے تعلق کمزور تھا۔ جب انقلاب ہوا تو شاہ کی حمایتی طاقتیں اس کی حفاظت کے لیے کچھ نہ کرسکیں۔ مشرق وسطی میں جب انقلابات بپا ہوئے تو آمر حکام کی بقا میں انہیں ناکامی کا سامنا ہوا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے آخر میں زور دیتے ہوئے کہا: تمام مسلمانوں کو اپنے مسائل باہمی گفت و شنید اور مذاکرات سے حل کرنا چاہیے۔ انتہاپسند لوگ مختلف فرقوں میں پائے جاتے ہیں م لیکن معاشرے میں معتدل اور عقلمند لوگوں کو آگے لانا چاہیے۔ سب سے بہترین راہ ذمہ داری کا احساس، اعتدال پسندی اور تنقید برداشت کرنا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں