اتحاد و وسعت ظرفی موجودہ حالات کا تقاضا ہے

اتحاد و وسعت ظرفی موجودہ حالات کا تقاضا ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں عیدالاضحی (چوبیس ستمبر دوہزار پندرہ) کے موقع پر ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے باہمی اتحاد اور فراخدلی کے مظاہرے کو وقت کا تقاضا قرار دیا۔
صوبہ سیستان بلوچستان کے صدرمقام زاہدان کے سنی عوام سے خطاب کے دوران حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے حالات کی نزاکت اور حقیقت کے ادراک کو ’دانش‘ قرار دیا۔ مولانا عبدالحمید نے کہا:کسی دور میں مغربی دنیا کمیونزم کے خلاف سردجنگ لڑرہی تھی اور اس جنگ میں مسلمانوں سے بھی فائدہ اٹھایا جارہا تھا۔ کمیونزم کی شکست کے بعد مغربی دانشوروں اور تھنک ٹینکس نے اسلام کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ اور دشمن یاد کیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہا: اسلام کسی شخص یا برادری کے لیے خطرہ نہیں ہے؛ اسلام پیار و دوستی کا دین ہے۔ لیکن اسلام سامراجی اور قابض قوتوں کے خلاف مزاحمت کرتاہے۔ اسلام ان لوگوں کے خلاف لڑنے کی اجازت دیتاہے جو منطق اور بات چیت پر یقین نہیں رکھتے۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے متکبر اور جابر لوگوں کے خلاف جہاد کیا۔
انہوں نے مغرب کی اسلام دشمنی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا: اسلام دشمن عناصر اس دین کو اپنی خواہشات کے خلاف دیکھتے ہیں اور اسلام کے پھیلاو سے خوفزدہ ہیں۔ اسی لیے دنیا میں اسلاموفوبیا کی سازش کرتے ہیں۔ آج کے حالات ماضی سے مختلف ہیں؛ دشمن مسلمانوں کو کمزور کرنا چاہتاہے اور وہ بھی ان ہی کے ہاتھوں۔ اسی لیے مسلمانوں کو چوکس رہنا چاہیے؛ اتحاد، بات چیت اور وسعت ظرفی و فراخدلی سے زندگی گزارنا چاہیے۔ شیعہ وسنی علمائے کرام فراخدلی اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے ماسکو میں یورپ کی سب سے بڑی مسجد کے افتتاح کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ماسکو میں ایک شاندار اور عظیم الشان مسجد کا افتتاح ان لوگوں کے ہاتھوں ہوا ہے جو کسی دور میں دین سے لڑتے تھے، روزہ رکھنے اور قرآن تلاوت کرنے پر پابندی عائد کرتے، اب انہیں پتہ چلاہے ان کی راہ غلط تھی۔ مسلمان ان سے زیادہ اعتدال کے مستحق ہیں جن کا دین سراسر اعتدال ومیانہ روی کا درس دیتاہے۔ لہذا مسلمانوں کو بھی سبق لینا چاہیے۔ ہمیں توقع ہے اسی طرح تہران میں اہل سنت کی کوئی مسجد تعمیر ہوجائے اور اعلی حکام فخر کے ساتھ اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں۔
ایرانی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: اعتدال کا نعرہ لگانے والی حکومت سے امید کی جاتی ہے لسانی ومذہبی برادریوں کی سیاسی مشارکت پر مزیدتوجہ دے تاکہ ملک کا امن مزید مستحکم ہوجائے۔ کچھ اقدامات اٹھائے گئے ہیں لیکن تمام سنی اکثریت علاقوں میں اہل سنت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تہران میں اہل سنت کے مرکزی نمازخانے کے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے اعلی حکام سے مطالبہ کیا اس مسئلے کا مناسب حل نکالیں تاکہ تہران کے سنی مسلمان امن وسکون سے اپنے رب کی عبادت کرسکیں۔

دشمن کی ثقافتی یلغار عسکری حملے سے زیادہ جان لیوا ہے
مسلم معاشروں میں اسلام دشمن عناصر کی ریشہ دوانیوں اور ثقافتی یلغار پر اظہارِخیال کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: آج کل دشمن مسلمانوں کو ثقافتی حملے سے تباہ کرنا چاہتاہے جو عسکری حملے سے زیادہ جان لیوا اور خطرناک ہے۔ وہ ہمیں نفس و خواہشات کے بندے بنانا چاہتے ہیں جس طرح وہ خود نفس کے پوجا کرتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے معاشرے میں طرح طرح کے معاصی و برائیاں موجود ہیں۔
انہوں نے مزیدکہا: ایک طرف سے فساد و اخلاقی بے راہ روی کو فروغ دے کر اور دوسری جانب فرقہ واریت کو ہوا دینے سے دشمن دراصل اسلام ہی کا مقابلہ کررہاہے۔ ہرقسم کے اختلاف و منازعہ معشیت و ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے جو دین کو تباہ کرتاہے۔ اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے ان کے حل کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

اپنے بیان کے ایک حصے میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے حجاب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے اسلامی پردے کو بہت اہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا: جس معاشرے میں بے پردگی عام ہوجائے، اس سے شیطان فائدہ اٹھاتاہے۔ خواتین اگر کسی کام کے لیے گھر سے نکلتی ہیں یا کالج، یونیورسٹی، بازار یا دفتر جاتی ہیں تو انہیں میک اپ کے بغیر اور صحیح پردے کے ساتھ نکلنا چاہیے۔ افسوس کا مقام ہے ایران میں دینی فضا اور قوانین کے باوجود بے پردگی عام ہے۔ اس سلسلے میں افراط و تفریط پائی جاتی ہے، لیکن ہم اعتدال پر یقین رکھتے ہیں اور اسلام کی راہ بھی یہی ہے۔

ہماری عید عبادت کے ساتھ منائی جاتی ہے معصیت سے نہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے عید الاضحی کی نماز سے پہلے اپنے بیان میں بڑی عید کو مسلمانوں کے لیے حج اکبر یاد کرتے ہوئے کہا: بڑی عید قربانی کا دن ہے۔ ہماری عید محض عقل و قیاس کی بنا پر نہیں ہے، یہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق منائی جاتی ہے۔
انہوں نے مزیدکہا: ہمیں فخر ہے کہ ہماری عیدیں دیگر اقوام کی عید و جشنوں کی طرح گناہ و شراب نوشی کے ساتھ نہیں منائی جاتی بلکہ دعا، ذکر اور نماز و توحید کے اقرار کے ساتھ ہیں۔ ہم اپنا دین اتباع سے حاصل کرتے ہیں اختراع سے نہیں؛ عیدیں نہیں گھڑ لی گئیں بلکہ اتباع کی بنا پر منائی جاتی ہیں۔
عید الاضحی کے پیغام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا: عید الاضحی ہمیں اللہ تعالی کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا سبق دیتی ہے۔ ہمیں پوری طرح تسلیم ہوکر اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ سب سے اچھا کام اور وقت وہی ہے جو اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضامندی کے حصول کے لیے ہو۔ قربانی کا جانور ذبح کرنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور ایک مسلمان کو کسی حکمت و فلسفہ کے بغیر اس سنت پر عمل کرنا چاہیے۔ ابراہیم علیہ السلام کی منطق یہی ہے کہ حکمت ڈھونڈنے کے بغیر اللہ کی اطاعت کیا کرو۔
اپنے خطاب کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے حاضرین پر نماز کی بروقت اور مسجد میں جماعت کے ساتھ ادائیگی پر تاکید کی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں