طلبہ علوم دینیہ کے لئے قیمتی نصائح

طلبہ علوم دینیہ کے لئے قیمتی نصائح

نوٹ: تعلیمی سال کی تکمیل پر بخاری شریف کے اختتامی درس کے دوران حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہم نے حسب سابق اس سال بھی درسگاہ میں طلبہ دورہ حدیث کو اہم اور گرانقدر نصائح سے نوازا جن میں اساتذہ و طلبہ کے لئے اہم ہدایات مضمر ہیں۔ مولائے کریم ان پر کما حقہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ افادہ عام کے لئے یہ قیمتی نصائح شائع کی جارہی ہیں۔۔۔ (ادارہ)

پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں اللہ کا شکر اور استغفار کرنا چاہیے، شکر اس بات پر کہ اللہ نے ہمیں حدیث پڑھنے اور پڑھانے کی توفیق عطا فرمائی، اور استغفار اس بات پر کہ حدیث پڑھنے اور پڑھانے کا جو حق تھا وہ ہم ادا نہ کرسکے۔ پڑھنے پڑھانے میں بہت سی کوتاہیاں ہوئیں ہمارے ناپاک منہ اس بات کے بھی قابل نہ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی زبان سے ادا کرسکیں چہ جائیکہ حدیث پڑھنے اور پڑھانے کی اللہ تعالی نے ہمیں توفیق عطا فرمائی۔ یہ محض اللہ تعالی کا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں احادیث پڑھنے پڑھانے کے شرف سے نوازا۔ یقیناً ہم سے بہت سی کوتاہیوں سرزد ہوئی ہوں گی لیکن اللہ تعالی کی رحمت سے یہ بعید نہیں ہے کہ وہ ذات ہماری ہزارہا کوتاہیوں کے باوجود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہماری مغفرت فرمادے۔
دوسری بات یہ عرض کونی ہے کہ میرے سر پر بخاری پڑھانے کی بھاری ذمے داری سونپی گئی حالانکہ اہلیت کچھ بھی نہ تھی لیکن بڑوں کے حکم پر اور اللہ کے فضل و کرم سے پڑھانی شروع کردی لیکن پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ پڑھانے کی اہلیت نہ تھی۔
بحیثیت طالب علم آپ کے جو حقوق ہیں وہ میں ادا نہ کرسکا پڑھانے کا جو حق تھا وہ پورا نہ کرسکا اس بات پر بغیر تصنع کے تہ دل سے آپ سے معافی مانگتا ہوں امید ہے آپ مجھے معاف فرمائیں گے۔
تیسری گذارش یہ کرنی تھی کہ اب آپ کو عالم دین کہا اور سمجھا جائے گا اور یہ آج کل بہت بُری رسم پڑگئی ہے کہ ہم لوگ اپنے آپ کو عالم کہتے اور سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اگر ذرہ برابر بھی علم ہوتا تو ہم اپنے آپ کو عالم نہ کہتے۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ پوری دنیا کے وکلاء مل کر اسلام کی کسی بات پر اعتراض کریں تو میں ان شاء اللہ در منٹ میں ان کو لاجواب کرسکتا ہوں حالانکہ میں تو طالب علم ہوں عالم دین کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ خوب سمجھ لیں کہ یہ جو آپ کی دستاربندی ہونے والی ہے یہ ایک بہت بڑا بوجھ ہے اس کے لاج رکھنی ضروری ہے اور لاج اس طرح رکھنی ہوگی کہ آپ نے جو قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی ہے اس کا جائزہ لیں کہ یہ قرآن و حدیث آپ کی علمی زندگی میں بھی آیا ہے یا نہیں، تعلق مع اللہ پیدا ہوا یا نہیں، جو پہلے اخلاق تھے وہی ہیں یا ان میں تبدیلی آئی ہے، اگر تبدیلی آئی ہے تو آپ مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن اگر عبادات کے اندر خشوع پیدا ہوا، نہ حلال و حرام کی فکر پیدا ہوئی، نہ معاشرت کے آداب سیکھے، جس طرح پہلے غصہ کرتے تھے اب بھی وہی حالت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے صرف نقوش پڑھے ہیں علم کا نور آپ کو حاصل نہیں ہوا۔ آپ نے پورا سال احادیث پڑھیں آپ نے دیکھا ہوگا کہ زندگی کا کوئی بھی گوشہ سنت سے خالی نہیں ہے، اگر صرف پوزیشنوں کے چکر میں رہے اور تحقیق میں لگے رہے عمل نہ کیا تو جان لو کہ یہ نرا علم ہے اور نرا علم نقصان دہ ہوتا ہے۔

آخر میں طلباء کو ہر سال میں دو نصیحتیں کیا کرتا ہوں، آپ کو بھی یہی دو نصیحتیں کرتا ہوں:
پہلی نصیحت یہ ہے کہ اپنی زندگی کے لئے کسی ایک بڑے کو اپنا رہنما بنالیں، خود رائی سے پرہیز کریں، آج کل طرح طرح کے فتنے ہیں، اعمال کے فتنے، عقیدے کے فتنے، ان فتنوں سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو چھوٹا سمجھیں، ہمارے اکابر کا بھی یہی طریقہ تھا کہ جب درس نظامی کی تکمیل فرماتے تو کسی بڑے کو اپنا مقتدا بنالیتے تھے۔
اور دوسری نصیحت یہ کرنی ہے کہ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے مواعظ اور ملفوظات کو تا حیات پڑھنے کا معمول بنالیں، چاہے یہ بات آپ کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے بس یہی سمجھ کر عمل کرلیں کہ ایک بچھڑے ہوئے ساتھی نے یہ مشورہ دیا تھا، الحمدللہ میرا بھی یہی معمول رہا ہے، قیلولہ سے پہلے روزانہ مواعظ اور ملفوظات پڑھنے میں الجھن محسوس ہو کیونکہ حضرت کی زبان علمی ہے لیکن رفتہ رفتہ ان شاء اللہ آپ مانوس ہوجائیں گے۔
خوب سمجھ لیں کہ دو چیزیں ہیں ایک ہے علم اور ایک ہے تفقہ، اور میں بغیر تصنع کے کہتا ہوں کہ جتنا تفقہ حضرت کے مواعظ و ملفوظات سے حاصل ہوتا ہے کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہوتا۔ میری اس نصیحت پر عمل کرلیں بس یہی سمجھ لینا کہ کسی کہنے والے نے یہ بات کہی تھی۔ میرا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے کہ کبھی کوئی اشکال یا سوال پیدا ہوتا ہے تو حضرت کے مواعظ اور ملفوظات میں اس کا جواب مل جاتا ہے۔
اور آخر میں ایک گذارش اور ہے وہ یہ کہ اپنے اساتذہ سے تعلق مضبوط بنائیں۔ کیونکہ اس فتنے کے دور میں اساتذہ کا سایہ ہی ان شاء اللہ آپ کو فتنوں سے محفوظ رکھ سکے گا۔
اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
و آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

خطاب: حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی صاحب مدظلہم
ضبط و ترتیب: غلام عباس، شریک دورہ حدیث
ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ جامعہ دارالعلوم کراچی
رمضان المبارک ۱۴۳۶ھ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں