منافقت مسلمان کے ایمان کیلیے سب سے بڑا خطرہ ہے

منافقت  مسلمان کے ایمان کیلیے سب سے بڑا خطرہ ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے احادیث مبارکہ کی روشنی میں منافقوں کی بعض صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے ’منافقت‘ کو مسلمانوں کے ایمان کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔

’سنی آن لائن‘ کی رپورٹ کے مطابق، شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے گیارہ ستمبر دوہزار پندرہ کے خطبہ جمعہ میں نفاق کو ایک عظیم خطرہ یاد کرتے ہوئے کہا: کسی بھی شخص کے دین کے لیے سب سے بڑا خطرہ نفاق ہے۔ بعض اوقات لوگ منافقت کے شکار ہوتے ہیں اور انہیں پتہ ہی نہیں چلتا؛ بندہ نماز پڑھتاہے، روزہ رکھتاہے اور حج پر بھی جاتاہے لیکن ممکن ہے نفاق میں مبتلا ہوجائے۔
انہوں نے مزیدکہا: نفاق کی دو قسمیں ہیں؛ ایک کا تعلق عقیدے سے ہے اور دوسری نوع عملی منافقت ہے۔ اگر کوئی شخص ایمان کا دعوی کرے لیکن دل میں اللہ اور اس کے رسول برحق کو نہ مانے، وہ اعتقادی نفاق میں مبتلا ہے۔ یہ گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رہتے تھے؛ بظاہر تمام عبادات اور کاموں میں مسلمانوں کے ساتھ تھے، لیکن قلبا اپنے سابقہ مذہب پر تھے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: آج کے اکثر مسلم حکمران جو خود کو مسلمان سمجھتے ہیں، جھوٹے لوگ ہیں۔ یہ لوگ منافق ہیں جو دین کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام دشمن عناصر کے ساتھ قلبی مودت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ دوستی نبھاتے ہوئے مسلم قوموں کو لادینیت کی جانب دکھیلتے ہیں۔
انہوں نے عملی منافقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: عملی نفاق کا مطلب ہے بندہ عبادات پر عمل کرتاہے اور اسلام و شریعت پر عقیدہ بھی رکھتا ہے، لیکن اس کے باوجود نفاق کی نشانیاں ا س میں پائی جاتی ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے جب کسی شخص میں تین صفات پائی جائیں تو وہ منافقوں میں شمار ہوگا۔
جھوٹ اور دروغ گوئی کو منافقین کی نشانی یاد کرتے ہوئے مولانا نے کہا: منافق لوگوں کی خصلت یہ ہے کہ کثرت سے جھوٹ بولتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے ہمارے معاشرے میں مختلف طریقوں اور بہانوں سے جھوٹ بولی جاتی ہے۔ بعض لوگ دوسروں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔ فرقوں اور مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کے خلاف دروغ گوئی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ حالانکہ جھوٹے لوگوں پر اللہ کی لعنت ہے۔
حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا: اسلامی تعلیمات نے سختی سے جھوٹ بولنے سے منع کیاہے اور سچی بات کہنے پر زور دیاہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج کے مسلم گھرانوں میں بھی جھوٹ بولی جاتی ہے، حتی کہ چھوٹے بچے جھوٹ بولتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ والدین خود جھوٹ بولتے ہیں اور بچے ان ہی سے سیکھتے ہیں۔
’عہدشکنی‘ کو منافقوں کی دیگر صفات میں شمار کرتے ہوئے انہوں نے کہا: منافق کی ایک نشانی وعدہ خلافی و عہدشکنی ہے۔ منافق لوگ اپنے وعدوں پر نہیں ٹھہرتے اور یہی بیماری ہمارے معاشروں میں پائی جاتی ہے۔ حالانکہ ماضی میں وعدہ خلافی لوگوں کی روایات اور کلچر کے سراسر خلاف سمجھی جاتی تھی۔ اسلام نے وعدہ پورا کرنے پر بہت زور دیاہے، ارشاد نبوی ہے: ”لا دین لمن لا عہد لہ“؛ جو وعدہ خلافی کرتاہے اس کا کوئی دین نہیں ہے۔
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: امانت میں خیانت منافقوں کی دیگر صفت ہے۔ اللہ تعالی نے دین کو ایک آسمانی امانت یاد فرمائی ہے۔ لہذا دینی احکام پر عمل نہ کرنا دین میں خیانت ہے اور شخص کے دین کو نقصان پہنچاتاہے۔ حدیث نبوی میں ارشاد ہے: ”لا ایمان لمن لا امانة لہ“، جو امانتداری نہیں کرتا اس کا کوئی ایمان نہیں ہے۔

عشرہ ذوالحجہ کا پورا فائدہ اٹھائیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے ذوالحجہ کے پہلے عشرے کی آمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں اللہ تعالی کی زیادہ سے زیادہ عبادت کریں۔ اس عشرے میں روزہ رکھنے کا اجر بہت زیادہ ہے۔ لہذا اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں۔
انہوں نے مزیدکہا: اگرچہ اس سال ہمیں حج کی سعادت نصیب نہیں ہوئی، لیکن پھر بھی ہم اللہ کی عبادت کرکے حجاج کرام کی طرح نیکیاں سیمٹ سکتے ہیں۔

پیٹروکیمیکل انڈسٹری کے افتتاح سے غربت و بے روزگاری میں کمی آنی چاہیے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخری حصہ میں چابہار میں پیٹروکیمیکل اور سٹیل ملز کے افتتاح کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: پیٹروکیمیکل انڈسٹری ایک مرکزی صنعت ہے جس کے ساتھ درجنوں صنعتیں آتی ہیں۔ اس میں روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ بعض دیگر بڑے مفادات بھی شامل ہیں۔
انہوں نے مذکورہ منصوبوں کے اجرا کو صوبہ سیستان بلوچستان کے عوام کے لیے امید کی کرن یاد کرتے ہوئے کہا: صوبہ سیستان بلوچستان ایک وسیع صوبہ ہے جس میں غربت و بے روزگاری عوام کے لیے وبال جان بن چکی ہے۔ ایسے میں ترقیاتی منصوبوں کا اجرا نتہائی امیدافزا اور خوش آئند ہے۔
صوبے میں سرمایہ کاری پر زور دیتے ہوئے ممتاز دینی رہ نما نے کہا: صوبے کے سرمایہ کاروں سے درخواست ہے خود بھی ترقیاتی سکیمز میں حصہ لیں اور دیگر سرمایہ کاروں کو بھی ترغیب دیں۔ اسی سے بے روزگاری، غربت اور بھوک کا مقابلہ کیا جاسکتاہے۔ اگر ایک شخص کے لیے روزگار فراہم کرکے حلال روزی کا دروازہ کھولا جائے، اس کا بہت ثواب ہوگا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں