جوہری پروگرام پر معاہدہ ایران کے دنیا سے تعلقات کا نیا باب

جوہری پروگرام پر معاہدہ ایران کے دنیا سے تعلقات کا نیا باب

ایران اور چھ عالمی قوتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے سلسلے میں معاہدہ کئی برسوں کی مشکلات کے بعد طے پا گیا ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’آج ہم ایک نئے مقام پر پہنچے ہیں۔ جوہری معاہدہ دنیا سے تعلقات کی نئی شروعات ہیں۔ ہم نے ہمیشہ کہا کہ ان مذاکرات میں ہار جیت نہیں ہے۔ یہ ایسے ہونے چاہیئیں جو سب کو منظور ہوں۔‘
معاہدے کے بعد صدر براک اوباما نے کہا کہ یہ معاہدہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کا بہترین طریقہ کار تھا اور ایران کے لیے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی تمام راہیں بند کر دی گئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ معاہدہ دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ میں اہم رکاوٹ ہے۔
صدر اوباما نے امریکی کانگریس کے حوالے سے کہا ہے کہ ’اگر کانگریس نے ایران معاہدے کے خلاف کوئی قانون سازی کی تو میں اس کو ویٹو کر دوں گا۔‘
انھوں نے کہا اس معاہدے کی غیر موجودگی میں یہ متوقع ہے کہ خطے کے دیگر ممالک بھی جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کریں اور دنیا ایک مرتبہ پھر ہتھیاروں کی ڈور میں پھنس جائے۔
اس سے قبل یورپی یونین کی خارجہ امور کی مندوب فیدریکا موگیرینی اور ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کو منظوری کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں چھ عالمی قوتیں امریکہ، برطانیہ، روس، چین، فرانس، جرمنی اور ایران کے درمیان جوہری پروگرام محدود کرنے پر بات چیت کی تازہ ترین مہم کئی ماہ سے جاری تھی۔ اس معاہدے کے لیے مذاکرات 2006 سے جاری ہیں۔ معاہدے کے تحت ایران کے خلاف عائد عالمی اقتصادی پابندیاں ختم کر دی جائیں گی اور ایران اپنی جوہری تنصیبات کو اقوام متحدہ کے معائنوں کے لیے کھول دے گا۔
صدر روحانی نے کہا ’اقتصادی پابندیوں کے دوران قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور مذاکرت کے دوران ہم نے اقتصادی استحکام لانے کی کوشش کی۔ جوہری توانائی اور تحقیق ملکی سطح پر جاری رہیں گی۔ ایران پر عائد پابندیاں ختم ہو جائیں گی۔‘
’23 ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات میں ایران کے مذاکرات کار، ماہر اقتصادیات اور جوہری توانائی کے ماہرین سے بھی مشاورت کی گئی۔‘
ایران کے صدر حسن روحانی نے ایرانیوں سے خطاب میں اسرائیل کے بارے میں کہا کہ ’آج غزہ، لبنان، یروشلم اور غربِ اردن کے افراد بہت خوش ہوں گے کیونکہ صیہونی حکومت کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔’صیہونی حکومت ہمسایہ ملکوں کو دھوکا نہیں دے پائی گی۔‘
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون ایسے ’تاریخی معاہدہ‘ قرار دیتے ہوئے خیر مقدم کیا ہے۔
’میں پر امید ہوں گے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں سکیورٹی چیلنجز سمیت بہت سے معاملات میں تعاون بڑھے گا۔ یہ معاہدہ خطے میں امن و استحکام میں اہم کردار اد کرے گا۔ اقوام متحدہ تمام فریقین کے ساتھ معاہدہ پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔‘
امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ ’یہ معاہدہ امریکی سفارت کاری کے باعث طے پا سکا ہے۔ ہمارے خیال میں جوہری ہتھیار کا تیزی سے پھیلاؤ ہو رہا ہے خاص کر کے مشرق وسطیٰ میں۔ اس معاہدے سے ایران جوہری ہتھیاروں کی دوڑ سے دور ہو گیا ہے۔‘
صدر براک اوباما نے کہا ’معاہدے کے تحت ایران اپنی افزودہ یورینیم کے ذخائر تلف کرے گا اور آئندہ دس سال یورینیم کی افزودگی میں کمی بھی کرے گا۔ اس معاہدے کی بنیاد صرف اعتماد نہیں ہے بلکہ کڑے معائنے کے ذریعے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔‘
صدر اوباما نے مزید کہا ’معاہدے کے تحت جوہری معائنہ کار جب چاہیں، جہاں بھی چاہیں کسی بھی حساس تنصیبات کا معائنہ کار سکتے ہیں۔ اگر ایران نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو تمام اقتصادی پابندیوں پر فوری طور دوبارہ عائد کر دی جائیں گی۔ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو ایران جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر لیتا۔‘
’میں چھ برسوں سے امریکہ کا صدر ہوں اور یہ ایک مشکل ترین فیصلہ تھا۔ ہم ایران کے ایٹمی تنصیبات تباہ بھی کر سکتے تھے۔ لیکن اس سے مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ چھڑ جاتی۔ میں کانگریس میں اس معاہدے پر تفصیلی بات چیت کرنے پر تیار ہوں۔ میں پر اعتماد ہوں کے اس معاہدے سے ہمارے قومی سلامتی محفوظ ہوئی ہے۔‘
صدر اوباما نے امریکی کانگریس کے حوالے سے کہا ہے کہ ’اگر کانگریس نے ایران معاہدے کے خلاف کوئی قانون سازی کی تو میں اس کو ویٹو کر دوں گا۔‘
ادھر فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کو ہوشیار رہنا ہو گا کہ ایران پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد مالی وسائل کو کیسے استعمال کرتا ہے۔ انھوں نے ایران سے درخواست کی کہ وہ شام کے بحران کو حل کرنے میں مدد کرے۔ ’اب جب ایران کے پاس زیادہ مالی وسائل ہیں ہم کو زیادہ ہوشیار رہنا ہو گا۔ ایران کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ شام میں جاری تصادم کو ختم کرانے میں ہماری مدد کرنے کو تیار ہے۔‘
اس سے قبل فیدریکا موگیرینی اور جواد ظریف نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ایران نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ کسی بھی صورتحال میں ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کرے گا۔
’آج ایک تاریخی دن ہے۔ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ آج ہم یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ایرانی جوہری معاملے کے حوالے سے معاہدہ کر لیا گیا ہے۔ ہم نے وہی حاصل کر لیا ہے جس کی دنیا کو امید تھی یعنی امن کا مشترکہ عزم۔‘
انھوں نے کہا کہ کسی کے خیال میں بھی یہ کام آسان نہیں تھا اور تاریخی فیصلے آسان نہیں ہوتے۔ دونوں رہنمائوں نے پریس کانفرنس میں مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ’یہ صرف ایک معاہدہ نہیں ہے، یہ سے کے لیے اچھا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کی وجہ سے دس سالہ بحران ختم ہو جائے گا۔‘
جواد ظریف نے کہا ’اس معاہدے پر عمل درآمد سے بین الاقوامی برداری پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ اقوام متحدہ سمیت دیگر پابندیوں کے خاتمے سے تجارت اور اقتصادیات میں اضافہ ہو گا۔ یہ ایک طویل معاہدہ ہے اس کے تمام نکات پر فوری طور پر بات نہیں کی جا سکتی۔ یہ معاہدے سکیورٹی کونسل میں بھی پیش کیا جائے۔ یہ معاہدہ نئی راہیں کھولے گا اور مجھے توقع ہے کہ اس پر آئی اے ای اے کی معاونت سے مکمل طور پر عمل درآمد کیا جائے گا۔‘
انھوں نے بتایا کہ معاہدے کی باضابطہ تفصیلی شرائط کو ایک دو روز میں منظرِ عام پر لایا جائے گا۔

بی بی سی اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں