اعتکاف کے فضائل ومسائل

اعتکاف کے فضائل ومسائل

اعتکاف ایک ایسی مہتم بالشان عبادت ہے کہ انسان جس میں اپنے آپ کو مکمل طور اللہ کے دربار کے حوالے کردیتا ہے ، دنیا ومافیہا سے بالکل الگ تھلگ ہوکر صرف اور صرف باری تعالی کی عبادت میں دنوں رات مشغول ہوجاتا ہے اور شبِ قدر کی تلاش میں لگ جاتاہے جو ہزار مہینوں سے افضل اور جس کو پاکر عبادت کرنے والے کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ دنیا وی مثالوں کے ذریعے بھی اگر ہم غورکریں تو اس عبادت کی خصوصیت و اہمیت اجاگر ہوجاتی ہے کہ اگر دنیا میں ہمارا مالک ناراض ہو اور ہم اس سے معافی کے لئے ان کے گھرکے دروازے پہ جاکر پڑجائیں اور گرگرائیں کہ جب تک وہ معاف نہ کریں گے ہم اسی چوکھٹ پہ ہی پڑے رہیں گے تو ظاہر سی بات ہے کہ پتھر دل انسان بھی پگھل جائے گا اور معاف کرنے پر مجبور ہوگا تو اگر ہم اللہ جو کے تمام دنیا کے انسانوں سے زیادہ رحم دل ہے، ان کے درپہ جاکے ہم پڑجائیں تو آخر وہ کیوں نہ ہمارے گناہوں کو معاف کردیں گے اور ہماری سوچ وخیال سے بھی زیادہ اجر سے نوازیں گے۔چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:رمضان شریف میں جس نے دس دن کا اعتکاف کیا تو یہ دو حج اور دو عمرے کے مثل ہے۔[شعب الایمان، حدیث نمبر: ۳۶۸۱[ نیز رسول اللہ ﷺ نے معتکف کے بارے میں فرمایاکہ اعتکا ف کرنے والا گناہوں سے بچا رہتاہے اور اسکے لئے (بغیر کئے بھی) اتنی ہی نیکیاں لکھی جاتی ہیں جتنی کرنے والے کے لئے۔[سنن ابن ماجہ،حد یث نمبر:۱۷۸۱] یعنی بہت سی ایسی عبادت جسے معتکف نہیں کرسکتا مثلا جنازے میں شرکت ایسے ہی مریض کی عیادت وغیرہ، انکا ثواب بھی اللہ تعالی اسے بغیر کئے عطا فرماتے ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ کا معمول تھا کہ آپ رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں پابندی کے ساتھ اعتکا ف کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے اخیر دس دن میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔وفات تک آپ ؐ کا یہی معمول رہا ۔پھر آپؐ کے بعد آپ ؐ کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔[صحیح بخاری،حدیث نمبر:۲۰۲۶]
رمضان المبارک میں اخیر کے دس دن کا اعتکاف سنت مؤکدّہ کفا یہ ہے یعنی پورے محلہ سے اگر ایک شخص بھی کرلے تو سب کی طرف سے ادا ہو جائے گا اور اگر کوئی نہ کرے توسب کے سب گنہگار ہونگے۔بیس تاریخ کو مغرب سے پہلے اعتکاف کیلئے مسجد میں داخل ہوجائے اورشوال کا چاند نظر آنے کے بعد مسجد سے باہر آئے۔
معتکف کے لئے ا نسانی ضرورت جیسے پیشاب پاخانہ، ایسے ہی غسلِ واجب اور وضوکے علاوہ کسی ضرورت سے نکلنا جائز نہیں۔ بلا ضرورت مسجد سے نکلنے کی صورت میں اعتکاف ٹوٹ جائیگا۔خواہ عمدا نکلے یا بھولے سے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اگر چہ نبی کریم ﷺ مسجد میں رہتے ہوئے اپنا سر مجھے بڑھا دیتے تھے تاکہ میںکنگھا کر دوںلیکن ضرو رت کے سوا گھرمیں داخل نہیں ہوتے تھے۔ترمذی اور مسلم میںہے کہ انسانی ضرو رت کے سوا۔[صحیح مسلم،حدیث نمبر:۲۹۷]
معتکف کیلئے غسلِ جمعہ یا ٹھنڈک حاصل کرنے کی غرض سے مسجد سے نکلنا جائز نہیں۔نکلنے کی صورت میں اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔جس مسجد میں اعتکاف کیا گیا ہے اگر اس میںجمعہ کی نماز نہیں ہوتی ہو تو جمعہ کیلئے اندازہ کرکے ایسے وقت میں نکلے کہ وہاں سنتیں پڑھنے کے بعد خطبہ سن سکیں ۔
رمضان کا اعتکاف اگر کوئی شخص بیماری یا کسی اور وجہ سے توڑ دے تو اس پر ایک دن کی صرف قضا لازم ہے۔اگر اعتکاف کے وقت یہ نیت کرلے کہ تراویح یاکسی اور غرض سے مسجد سے باہر نکلے گا تو یہ نیت درست ہوگی اور اس کے لئے نکلناجائز ہوگا۔[عالمگیری]
اعتکاف کی حالت میں اس خیال سے خاموش رہنا کہ اس میں ثواب زیادہ ہے مکروہ ہے،البتہ فضول باتوں سے بچنا چاہئیے۔ عورت اگر اعتکا ف کرنا چاہے تو وہ گھر میں اس جگہ پر اعتکاف کریگی جس جگہ کو نماز کے لئے مخصوص کر رکھا ہے اور اگر گھر میں کوئی ایسی جگہ مخصوص نہیں ہے تو گھر کے کسی حصے کو مقامِ اعتکاف بنالے اور بحالت اعتکاف گھر کے دیگر حصوں میں بغیر بشری ضرورت کے نہیں جاسکتی۔[عالمگیری] عورت کو اعتکاف میں اگر حیض ونفاس آجائے تو اس کا اعتکاف ختم ہوجائے گا۔

مفتی جسیم الدین قاسمی
(بصیرت فیچرس)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں